• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی ادارے سے منسلک ہمارے ایک دوست ویت نام کی ترقی کو دیکھ کر ششدر رہ گئے کیونکہ یہ ملک 1975تک تو امریکہ کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا۔ اسی طرح ہمارے ایک کاروباری دوست بر اعظم افریقہ کے بہت سے ملکوں میں ہونے والی تیز تر معاشی ترقی پر بہت حیران ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھیں تو پاکستان کی معاشی ترقی کوئی عجوبہ نہیں ہے۔ اگرچہ یہ امر قابل غور ہے کہ موجودہ حکومت کے دعوئوں میں کس حد تک سچائی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں معاشی ترقی عالمی سرمائے کی ہر سو پھیلنے کی مرہون منت ہے یایہ پاکستان کے حکومتی اداروں کی معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ہمارے خیال میں جن شعبوں میں ترقی ہو رہی ہے ان کا حکومتی اداروں سے بہت کم تعلق ہے، بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حکومتی پالیسیوں کے تحت چلنے والے شعبوں میں معاشی جمود طاری ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اسی کی دہائی کے بعد عالمی سرمایہ ترقی پذیر دنیا میں پھیلنا شروع ہو گیا۔ انیسویں صدی میں بائیں بازو کے مفکرین نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ سرمائے کا فطری رجحان ہے کہ وہ ہر سمت پھیل کر یکسانی پیدا کرتا ہے۔ اس نظریے کی سچائی کے بارے میں بنیادی سوال پیدا ہوا کہ صنعتی اور ترقی یافتہ معیشتیں سرمائے کو اپنی ملکی حدود تک محدود رکھتی ہیں اور ترقی پذیر ملکوں کو خام مال حاصل کرنے کے لئے اور اپنی مصنوعات کی منڈی کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ بائیں بازو میں یہ تصور جاگزیں ہو گیا کہ صنعتی ترقی کے لئے سب سے پہلے سامراج سے نجات حاصل کی جائے۔ اسی ماڈل کے تحت چین، ویت نام اور کیوبا میں سامراج سے آزادی کے بعد سوشلسٹ نظام قائم ہوئے۔ ان نظاموں کے تحت عوام کو بنیادی سہولتیں مہیا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان ملکوں کا بنیادی معاشی ڈھانچہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ معیشتوں کا مقابلہ نہیں کر سکا۔چنانچہ اسی کی دہائی میں ان ملکوں نے بھی سرمایہ دارانہ معیشت کو اپنا لیا اور معاشی ترقی کی رفتار آسمانوں کو چھونے لگی۔
قطع نظر اس کے کہ سوشلسٹ ملکوں میں کیا ہوا، مشرقی ایشیا کے تمام ملکوں میں عالمی سرمائے کا تیز تر بہاؤ ستر کی دہائی کے بعد شروع ہو چکا تھا۔ اس میں سب سے نمایاں جنوبی کوریا تھا جس نے چند دہائیوں میں ترقی یافتہ صنعتی معیشت کا درجہ حاصل کر لیا۔ انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور فلپائن جیسے ممالک میں ترقی کی رفتار نسبتاً سست تھی لیکن وہاں بھی پرانے معاشی ڈھانچے کی جگہ نئے نظام نے لے لی۔ ترقی پانے والے ان تمام ممالک میں قدر مشترک یہ تھی کہ وہاں سیاسی استحکام موجود تھا جس کی وجہ سے عالمی سرمایہ بلا خوف ان علاقوں کی طرف بہنا شروع ہو گیا۔ ترقی پانے والے ممالک میں ہندوستان بھی شامل تھا جہاں سیاسی افراتفری بہت کم تھی۔ اس کے الٹ سری لنکا میں ترقی کی رفتار سست رہی کیونکہ وہاں خانہ جنگی ہو رہی تھی۔ پاکستان میں بھی مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے باوجود معاشی ترقی ہوئی لیکن اس ترقی کی رفتار سیاسی افراتفری کے باعث نسبتاً سست رہی۔
جب اسی کی دہائی سے عالمی سرمائے کا رخ ترقی پذیر معیشتوں کی طرف ہوا تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ان ملکوں کو ہوا جہاں سیاسی استحکام کے علاوہ، جاگیرداری کا خاتمہ ہو چکا تھا اور انسانی سرمائے (تعلیم، صحت وغیرہ) کی حالت بہتر ہو چکی تھی۔ چین اور ویت نام کی مثالی معاشی ترقی یہ ثابت کرتی ہے کہ اگر تعلیم اور صحت کے نظام بہتر کر دئیے جائیں تو معاشرے میں نئے نظام کو اپنانے کی استعداد بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب چین میں عالمی سرمایہ آنا شروع ہوا تو ملک میں ہر سطح پر نئے معاشی نظام کو جذب کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ ہندوستان میں بھی بہت حد تک نئے پیداواری ڈھنگ کو اپنانے کی استعداد موجود تھی۔ اس سلسلے میں پاکستان بہت پہلوئوں سے پس ماندہ تھالیکن پھر بھی سرمائے کے سیلاب میں اس کو بھی فائدہ ہوا اور اس نے کافی ترقی کر لی۔
پاکستان میں روز اول سے ہی سیاسی استحکام ناپید تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ چین اور ہندوستان کی طرح پاکستان میں جاگیرداری کو ختم کرنے کے لئے زرعی اصلاحات نہیں کی گئیں۔ پاکستان میں انسانی سرمائے (تعلیم،صحت وغیرہ) کی نشو ارتقا کے لئے بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔جب اسی کی دہائی میں عالمی سرمائے کا بہاؤترقی پذیر ممالک کی طرف ہوا تو پاکستان افغان جنگ میں شامل ہو رہا تھا،پاکستان میں معاشی کے بجائے مذہبی اور عسکری ترجیحات کا غلبہ تھا۔ اس کے باوجود بیرون ملک برآمد ہونے والی انسانی محنت کی وجہ سے ملک میں (بالخصوص پنجاب اور خیبر پختونخوا) معاشی ترقی کی رفتار تیز ہو گئی اور زرعی پیداواری ڈھنگ تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ اگرچہ پاکستان میں ہر طرف مذہبی، فرقہ ورانہ اور لسانی جنگیں جاری تھیں پھر بھی اسی عرصے میں نظام کی تبدیلی کی وجہ سے بے انتہا دولت پیدا ہونا شروع ہوئی۔ اس ترقی کے ثمرات آبادی کےتھوڑے حصے کے ہاتھ میں زیادہ آئے لیکن پرانے بائیں بازو کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ملک میں معاشی ترقی نہیں ہوئی۔ اس پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ باوجود بدترین حکمرانی اور سیاسی طوائف الملوکی کے معاشی ترقی ہوتی رہی\۔یہ علیحدہ بات ہے کہ اگر پاکستان میں حالات سازگار ہوتے تو وہ جنوبی کوریا سے پیچھے نہیں رہ سکتا تھا۔
پاکستان کی کسی حکومت کو بھی معاشی ترقی کے لئے کام کرنے کا تمغہ نہیں دیا جا سکتا۔حقیقت تو یہ ہے کہ تمام حکومتوں نے ایسے کام کئے جن سے معاشی ترقی رکتی ہے۔ پاکستان میں معاشی ترقی عالمی سرمائے کی ترقی پذیر ملکوں پر بارش سے جڑی ہوئی ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ حکمران طبقے کی حماقتوں کے باوجود پیداواری ڈھنگ میں تبدیلی آئی ہے جس کا محور نجی سطح پر رہا ہے۔ کسی بھی حکومت نے پچھلے تیس سالوں میں کوئی بڑا ادارہ نہیں بنایا، بلکہ اس کے الٹ موجود اداروں کو تباہ کر دیا ہے۔ نجی شعبہ معاشی ترقی کا انجن رہا ہے اور اب بھی جو ترقی نظر آرہی ہے اس میں حکومت یا ریاست کی کوئی معاونت نہیں ہے۔ پچھلے چند سالوں میں سیکورٹی اداروں نے دہشت گردی کے خاتمے سے سیاسی استحکام کی فضا پیدا کی ہے جس سے معاشی ترقی کی رفتار کچھ بہتر ہوئی ہے۔ اس لئے یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ معاشی ترقی کی رفتار تیز تر ہوئی ہے لیکن اس کا حکومتی پالیسیوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین