• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھبیس اپریل براعظم ایشیاکی تاریخ میں ایک یاد گار دن کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس دن دنیا ایک خطرناک ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں آنے سے بچ گئی ۔چھبیس اپریل کو شمالی کوریا جس کے عزائم جنوبی کوریا، جاپان اور امریکہ کے خلاف انتہائی خطرناک تھے، جس نے ایٹم بم سے لیکر ہائیڈروجن بم جیسے مہلک ہتھیار ان ممالک کے خلاف استعمال کے لئے تیار کررکھے تھے اچانک ہی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے جنوبی کوریا کی حکومت کے ساتھ نہ صرف بات چیت کرنے پر آمادہ ہوگیا بلکہ شمالی کوریا کے صدر کم جانگ ان خود چل کر جنوبی کوریا کے بارڈر تک آئے اور پھر جنوبی کوریا کی سرزمین پر نہ صرف جنوبی کوریا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے پر آمادہ ہوئے بلکہ اپنا ایٹمی پروگرام بھی رول بیک کرنے پر رضامند ہوگئے۔ اس ناقابل یقین ڈیل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہوگا بلاشبہ اس ڈیل کے پیچھے امریکہ اور چین کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔ جاپان، جس کے جنوبی کوریا کے ساتھ تو چند تنازعات کے باوجود بہترین تجارتی تعلقات قائم ہیں تاہم شمالی کوریا کے ساتھ جاپان کے شدید تنازعات کے علاوہ بعض خدشات بھی موجود تھے جن میں شمالی کوریا کی جانب سے جاپان پر ایٹمی حملے کی دھمکیاں ،شمالی کوریا کے خطرناک میزائلوں کا جاپان کی سمندری و فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنا، جاپانی شہریوں کا شمالی کوریا کے ایجنٹوں کے ذریعے اغوا کیا جانا بھی ان خدشات میں شامل تھا جس کے سبب جاپان ہمیشہ خود کو غیر محفوظ سمجھتا رہا ہے۔ تاہم جاپان کے کراچی میں تعینات قونصل جنرل توشی کازو ایسومورا جو پاکستان ،افغانستان اور ایران کے ساتھ جاپانی تعلقات پر انتہائی مہارت رکھتے ہیں جبکہ عالمی امور پر بھی ان کی گہری نظرہے۔ ان کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں ہمیشہ ہی شمالی کوریا کے حوالے سے ان کے اعتماد پر حیرانی ہی رہی کہ وہ ہمیشہ شمالی کوریا کے مسئلے کو بہت آسان سمجھتے رہے ان کا کئی سال سے یہی کہنا ہے کہ شمالی کوریا کا مسئلہ بہت آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے۔ راقم نے کئی دفعہ ان سے شمالی کوریا کے جاپان کے خلاف خطرناک عزائم ،ایٹمی پروگرام، ہائیڈروجن بم ٹیکنالوجی تو کبھی امریکہ تک پہنچنے والے خطرناک میزائلوں کے بارے میں استفسار کیا لیکن وہ ہر بات مسکراتے ہوئے ایک ہی بات کہتے نظر آتے کہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ان کے اس اعتماد کی وجہ ان کا عالمی سیاست پر ادراک ہے انھیں معلوم ہے کہ جس دن امریکہ نے فیصلہ کرلیا کہ شمالی کوریا کا مسئلہ حل کرنا ہے اس دن شمالی کوریا کے تمام ایٹمی اور ہائیڈروجن بم اور خطرناک میزائل باآسانی جام کردیئے جائیں گے اور شمالی کوریا کو مذاکرات پر مجبور کردیا جائے گا، تاہم موجودہ حالات توشی کازو ایسومورا کے اعتماد سے بھی زیادہ آسانی سے حل ہوتے نظر آئے ہیں جبکہ شمالی کوریا کے اس طرح گھٹنے ٹیکنے کا کریڈٹ بلاشبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہی دینا پڑے گا، جنھوں نے پس پردہ کوششوں کے ذریعے اسےایسا کرنےپرمجبور کیا لیکن کیا شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے تعلقات کی بہتری سے جاپان کے شمالی کوریا سے تنازعات ختم ہوجائیں گے ۔اس سوال کے جواب کے لئے پاکستان بورڈ آف انویسٹمنٹ کے ایڈوائزر اور پاک جاپان تعلقات کے ماہر سید فیروز شاہ کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے ابھی تک اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے کہ جنوبی کوریا سے تعلقات کی بہتری کو جاپان کے ساتھ تعلقات کی بہتری بھی سمجھا جائے کیونکہ شمالی کوریا نے جاپان کے کئی شہری جو ماضی میں اغواکیے گئے ، تاحال اس کی قید میں ہی ہیں جبکہ جاپان کئی دہائیوں سے اپنے شہریوں کی واپسی کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ شمالی کوریا نے جاپان سے انتہائی فوائد حاصل کرنے کے باوجود ایک درجن سے زائد شہریوں کو اپنی قید میں رکھا ہوا ہے ۔ دوسری جانب شمالی و جنوبی کوریا کے درمیان تعلقات کی بہتری اور ایٹمی پروگرام کے رول بیک کیے جانے سے یہ بات یقینی ہوگئی ہے کہ جاپان بھی شمالی کوریا کے جنگی عزائم سے محفوظ ہوجائے گا، تاہم امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس مہینے کے آخر میں شمالی کوریا کے صدر کم جانگ ان سے جنوبی و شمالی کوریا کے بارڈر پر ملاقات کا امکان ظاہر کیا ہے جبکہ امریکہ سمجھتا ہے کہ شمالی کوریا کے عالمی تنازعے کا جاپان بھی اہم فریق ہے جس کے لئے لازمی طور پر امریکہ صدر شمالی کوریا کے لیڈر سے ملاقات سے قبل جاپانی وزیر اعظم سے بھی رائے لیں گے جس میں جاپان اپنے شہریوں کی بحفاظت جاپان واپسی کا اہم مطالبہ ہی رکھے گا، جاپانی حکومت کو یقین ہے کہ اگر امریکہ شمالی کوریا پر دبائو ڈالے تو شمالی کوریا جاپانی شہریوں کو واپس کرسکتا ہے۔،شمالی کوریا کے ساتھ ہونے والی ڈیل کے نتیجے میں جاپان اور جنوبی کوریا میں موجو د ایک لاکھ سے سے زائد امریکی افواج بھی شمالی کوریا کے کسی ممکنہ حملے سے محفوظ ہو جائیں گی ،بہت سے ناقدین شمالی کوریا کی جانب سے اتنی آسانی سے گھٹنے ٹیکنے پر حیرانی کا اظہار بھی کررہے ہیں کیونکہ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ شمالی کوریا جیسا ملک جس نے جاپان کے چند شہری آزاد کرنے کے کئی ملین ڈالرز وصول کئے تھے وہ کس طرح اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنےاور جنوبی کوریا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے پر راضی ہوگیا؟دنیا جاننا چاہتی ہے کہ امریکہ نے شمالی کوریا سے اتنے اہم مطالبات منوانے کی کیا قیمت ادا کی ہے کہ صرف ایک اہم امریکی شخصیت کی ملاقات کے بعد ہی شمالی کوریا نے گھٹنے ٹیک دیئے، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے جنرل مشرف نے افغانستان کی جنگ سے قبل ایک امریکی ٹیلیفون پر گھٹنے ٹیکےتھے۔ جاپانی قونصل جنرل توشی کازو کا کئی سال قبل جو اعتما د تھا اس کی وجہ اب سمجھ میں آئی ہے شاید و ہ جانتے تھے کہ شمالی کوریا صرف گیدڑ بھبکیاں ہی دے سکتا ہے۔نہ ہی اس کی فوجی طاقت اتنی ہے اور نہ ہی معاشی طاقت کہ وہ امریکہ ،جاپان اور جنوبی کوریا جیسے معاشی اور جنگی طور پر مضبوط ممالک کے ساتھ مقابلہ کرسکے ۔آنے والے چند ہفتوں میں بہت سے سوالوں کے جوابات بھی مل جائیں گے تاہم آج کل جاپان میں گولڈن ویک کی تعطیلات ہیں اور جاپانی عوام پرسکون ماحول میں تعطیلات منارہے ہیں ،جاپان میں انتیس اپریل کو شوا ڈے منایاجاتا ہے شوا جاپان کے شہنشاہ تھے جن کے دور میں جاپان نے مشکل حالات سے نکل کرترقی کی منازل طے کیں ان کی وفات 1989میں ہوئی اس روز شوا شہنشاہ کی یاد میں عام تعطیل کی جاتی ہے، جبکہ یکم مئی کو لیبر ڈے کے سلسلے میں کئی ادارے تعطیل کرتے ہیں ۔تین مئی کو جاپان کا پہلا آئین تیار ہوا تھا جو آج بھی رائج ہے،پانچ مئی کو بچوں کادن منایا جاتا ہے اسی طرح چار مئی کو حکومت نے شہریوں کے لئے عام تعطیل کا اعلان کیا ہے لہذا ایک ساتھ آنے والی اتنی چھٹیوں کو جاپان کے سینما مالکان نے سب سے پہلے گولڈن ویک کانام دیا تھا اس ہفتے نہ صرف جاپانی خوب انجوائے کرتے ہیں بلکہ دنیا بھر سے سیاح جاپان گولڈن ویک منانے بھی آتے ہیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین