• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے کے کالم میں ترکی کی حزبِ اختلاف کی جانب سے صدر ایردوان کے مقابلے میں مشترکہ صدارتی امیدوار کی تلاش کے بارے میں آگاہ کیا تھا لیکن ایسا کرنے میں ناکام رہنے پر حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں نے صدر ایردوان کے ’’اتحادِ جمہور‘‘ جس میں آق پارٹی کے ساتھ نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی بھی شامل ہے کے مقابلے میں ’’اتحادِ ملت‘‘ کے نام سے اتحاد قائم کیا ہے۔ اس نئے اتحاد میں چار جماعتیں ’’ری پبلکن پیپلز پارٹی، گڈ پارٹی، سعادت پارٹی اور ڈیموکریٹ پارٹی‘‘ شامل ہیں۔ اس پارٹی میں کردوں کی پیپلز ڈیمو کریٹ پارٹی نے فی الحال شامل ہونے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ حزبِ اختلاف نے اگرچہ صدر ایردوان کے خلاف اتحاد تو قائم کرلیا ہے لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ سب جماعتیں مشترکہ امیدوار ڈھونڈنے میں ناکام رہیں۔ صدارتی انتخابات میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد میں شامل ’’گڈ پارٹی‘‘ کی چیئرپرسن میرال آقشینر، سعادت پارٹی کے قارا مولا اولو اور ’’ری پبلکن پیپلز پارٹی‘‘ کے چیئرمین کمال کلیچدار اولو نے ’’ایک تیر سے دو شکار‘‘ کہاوت پر عملدرآمد کرتے ہوئے کمال ہوشیاری سے اپنے نام کو صدارتی امیدوار کے طور پر پیش نہ کیا بلکہ پارٹی کے ایک دیگر رکن ’’محرم انجے‘‘ جو پارٹی چیئرمین کے انتخابات کے دوران شکست سے دوچار ہوگئے تھے کا نام صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کرتے ہوئے مستقبل میں پارٹی کے چیئرمین کے عہدے پر فائز رہنے اور محرم انجے سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرے ذاتی خیال کے مطابق کمال کلیچدار اولو اپنی اس گیم میں کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ محرم انجے کی پوزیشن دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ صدارتی انتخابات میں ’’میرال آقشنر‘‘ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دوسری پویشن حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ محرم انجے مرحوم وزیراعظم بلنت ایجوت کی راہ پر چلنے والے رہنما ہیں اور انکو بھی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے طبقے میں ایجوت کی طرح بڑی مقبولیت حاصل ہے، عوام دوست، ایک اچھے مقرر اور انکسار پسند انسان ہیں۔ محرم انجے اگرچہ بائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کی فیملی بڑی کنزرویٹو اور مذہب سے رغبت رکھنے والی فیملی ہے۔ محرم انجے اپنے والد کے ایک ٹرک ڈرائیور ہونے اور مذہبی تعلیم اپنی فیملی سے حاصل کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اسلئے جب انکی پارٹی نے ان کا نام صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کیا تو انہوں نے اپنی پارٹی کے بانی غازی مصطفیٰ کمال اتاترک کی پیروی کرتے ہوئے سب سے پہلے انقرہ میں ’’حاجی بیرام‘‘ کے مزار پر حاضری دی اور نماز جمعہ ادا کرتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کیا جبکہ ری پبلکن پیپلز پارٹی جو اپنے آپ کو ہمیشہ مذہب سے دور اور سیکولر کہلواتی ہے، کے پہلی بار مذہب دشمن جماعت نہ ہونے کا احساس دلوایا جارہا ہے۔ دیکھا جائے تو ترکی اور دنیا میں چند ایک مذہبی حلقوں میں مصطفیٰ کمال کو دین دشمن قرار دیا جاتا ہے جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے، انہوں نے ہمیشہ اپنی زندگی میں جو قدم بھی اٹھائے اس سے پہلے مذہبی رہنماؤں سے لازمی طور پر مشاورت کی۔ اتاترک نے ترکی کی پہلی قومی اسمبلی کے 23اپریل1920کو افتتاح کے موقع پر حاجی بیرام کی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی، مولود شریف پڑھا اور قومی اسمبلی کی جانب پیدل سفر کے دوران پورے راستے کلمہ شہادت اور تکبیر پڑھتے رہے جبکہ ان کیساتھ ہی سنوپ کے رکنِ پارلیمنٹ حوجہ عبداللہ آفندی نے سر پر سبز رنگ کے غلاف میں لپٹا ہوا قرآن کریم اٹھا رکھا تھا۔ قومی اسمبلی پہنچنے پر انہوں نے اسٹیج پر قران کریم کا نسخہ اور ’’ثقل شریف‘‘ رکھتے ہوئے اجلاس کی کارروائی کا آغاز کیا۔ یہاں پر اتاترک کا ذکر کرنا اسلئے ضروری سمجھا ہے کہ پاکستان اور دنیا میں چند ایک حلقوں کی جانب سے اتاترک کو مذہب دشمن قرار دیا جاتا ہے جبکہ انکے اس عمل سے صاف عیاں ہے کہ وہ بھی اس دور کے دیگر مسلمان ترکوں کی طرح مذہبی روایات (غیر اسلامی نہیں) پر پوری طرح عمل پیرا تھے۔ محرم انجے نے حاجی بیرام کے مزار پر حاضری اور نماز ِ جمعہ ادا کرتے ہوئے دراصل مذہبی حلقوں کی بھی حمایت حاصل کرنیکی کوشش کی ہے جو ہمیشہ ری پبلکن پارٹی سے دور رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ محرم انجے اپنے اس مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں تاہم ایک بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے اگر وہ صدارتی انتخابات میں صدر ایردوان کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہتے ہیں تو پھر لازمی طور پر پارٹی کے آئندہ چیئرمین منتخب ہو جائیں گے۔ جہاں تک سعادت پارٹی کے امیدوار کا تعلق ہے انہوں نے صرف کاغذی کارروائی پوری کرنے اور ’’سعادت پارٹی‘‘ کے ترکی میں اپنا وجود برقرار رکھنے سے آگاہ کرنے کیلئے اپنا نام صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کیا ہے لیکن یہ بات قطعی ہے ان کو پچھلے پارلیمانی انتخابات میں ملنے والے صفر اعشاریہ پانچ فیصد ووٹ سے بھی کم ووٹ پڑیں گے تاہم انکی جماعت ’’اتحادِ ملت‘‘ میں شامل ہونیکی وجہ سے پارلیمنٹ کی چند ایک نشستیں ضرور حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ جہاں تک ’’گڈ پارٹی‘‘ کی صدارتی امیدوار ’’میرال آقشینر‘‘ کا تعلق ہے انکو غیر ملکی میڈیا میں ایردوان کو ٹف ٹائم دینے والی امیدوار کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر وہ عبداللہ گل کے مقابلے میں اپنی امیدواری سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیتیں تو عبداللہ گل حزبِ اختلاف کے مشترکہ امیدوار بن کر آق پارٹی اورHDP کی بھی حمایت حاصل کرکے صدارتی انتخاب میں ہل چل پیدا کرسکتے تھے تاہم اب انتخابات میں صدر ایردوان کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور پہلے ہی رائونڈ میں واضح اکثریت حاصل کرتے ہوئے ایک بار پھر صدر منتخب ہو جائیں گے۔ صدر ایردوان نے اپنی صدارتی مہم کا آغاز کرتے ہوئے عوام کو اس بات کا یقین دلا یاہے کہ جس طرح انہوں نے ماضی میں ترکی میں معجزے رونما (ناممکن پروجیکٹ کو ممکن بنایا) کیے ہیں اور ترکی کو دنیا کی عظیم ترین طاقتوں میں شامل کیا ہے وہ مستقبل میں بھی ترکی کو دنیا کی ایک عظیم قوت بناتے ہوئے ترک عوام کے معیار زندگی کو نہ صرف بلند کریں گے، بلکہ دفاع کے معاملے میں ترکی کا غیر ممالک پر انحصار بالکل ختم کردیں گے، ترکی میں مقامی سطح پر جدید ٹیکنالوجی کے حامل سامان کو تیار کیا جائے گا، مقامی سطح پر گاڑیاں اور طیارے تیار کیے جائیں گے، ترکی کے شہروں کو ثقافتی اور فنون ِ لطیفہ کے مراکز کا روپ دیا جائے گا اور ترکی کے مختلف علاقوں میں نئے نئے کارخانے قائم کرتے ہوئے روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔ صدر ایردوان نے کہا کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ انسانی امداد کرنیوالا ملک ترکی ہے جس سے ترکی کے ایک امن پسند، انسان دوست ملک ہونےکی عکاسی ہوتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین