• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر آپ کے نام سے پہلے لفظ سید اور آخر میں شاہ لگا ہو، اگر آپ کے ذہن پر تصوف کا چھینٹا پڑا ہو اور اگر آپ میں چھپی ہوئی تخلیقی صلاحیتیں باہرآنے کو بے چین ہوں تو بہت امکان ہے کہ آپ سردھنا کے سیّد محمد جاں فشاں خان کی اولاد ہوں اور ادریس شاہ جیسے صوفی اور سید نصیر الدین شاہ جیسے اداکارکے چچیرے بھائی ہوں۔آج کتنے ہی سیّدوں اور شاہوں کو خبر بھی نہ ہوگی کہ یہ جاں فشاں کون تھے جن کے چمن کے اتنے گل بوٹے ہر طرف بہار دکھا رہے ہیں کہ ان کا نام جاں فشاں نہیں بلکہ گُل فشاں خان ہونا چاہئے تھا۔ان کی چو تھی اور پانچویں نسل آج دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اورسب کے سب با صلاحیت اور ہنر مند ہیں۔ میری ان تحریروں میں سردھنا، بیگم سمرواوراور شاہ صاحب کے نام اتنی کثرت سے آتے رہے ہیں کہ ان کی ذراسی تشریح ہوجانی چاہئے۔ سردھنا یو پی کے قلب میں ، گنگا اور جمنا کے بیچ واقع میرٹھ کے نواح میں آباد ہے اور بیگم سمرو کے تعمیر کئے ہوئے شاندار کلیسا کی وجہ سے مشہور ہے۔ مہابھارت کے زمانے کے کورو اور پانڈو میں سے کورو کاصدر مقام اس کے قریب تھا اور پانڈو برادران نے اپنی تاریخی جنگ پر جانے سے پہلے یہیں مہادیو مندر میں اپنی آخری عبادت کی تھی۔ پھر انیسویں صدی میں یہی سردھنا بیگم سمرو کا دارالحکومت بنا۔ یہ خاتون میرٹھ کے قریب کتیانہ میں پیدا ہوئی تھیں، اس وقت ان کا نام فرزانہ تھا۔ ابھی نو عمر تھیں کہ ایک یورپی فوجی سے شادی ہو گئی جو سمرو کے نام سے مشہور تھااور جونہ صرف ایک بڑی طاقت ور اور منظّم فوج کا بلکہ سردھنا جیسی مال دار جاگیر کا مالک تھا۔ فرزانہ ، جنہیں بادشاہ دلّی نے زیب النسا ء کا خطاب دیا تھا ، بیگم سمرو کہلائیں ۔شوہر کے انتقال پر وہ سردھنا کی مالک اور ایک مستعد اور تربیت یافتہ فوج کی کمان دار بن گئیں۔کبھی وہ بادشاہ کو بچانے کے لئے اورکبھی سرکار انگلشیہ کی مدد کے لئے میدانِ جنگ میں اتریں اور اپنے ڈولے میں بیٹھ کر ایسی جنگ کی کہ دشمن کے دانت کھٹّے کردئیے۔ وہ مرگئیں اور سردھنا کو بے آسرا چھوڑ گئیں۔ادھر مغلوں کا سورج ڈوب رہا تھا اورسرزمین ہندوستان پر انگریزوں کے سائے لمبے ہوتے جارہے تھے۔ انہیں ڈر تھا کہ روس افغانستان کے راستے ہندوستان پر نہ چڑھ دوڑے۔اُن کی راہ روکنے کے خیال سے انگریز اپنی بہت بڑی فوج لے کر کابل جاپہنچے۔ افغانیوں نے پہلے کسی کو اپنے علاقے میں آنے دیا تھا جو انگریزوں کا خیر مقدم کرتے؟ان کے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر انگریزوں کو اپنی حماقت کا احساس ہوا اور انہوں نے خیریت اسی میں جانی کہ وہا ں سے نکل چلیںمگر بہت دیر ہو چکی تھی۔ ان کا پسپا ہونا غضب ہوگیا۔ افغانی سارے درّوں اور تنگ گھاٹیوں پر گھات لگا کر بیٹھ گئے اور پسپا ہوتے ہوئے سولہ ہزار پانچ سو فوجیوں اور لشکریوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا۔ صرف ایک ڈاکٹر ولیم برائیڈن کو زندہ چھوڑ دیا تاکہ وہ جلال آباد جاکر قتل عام کی خبر کو بھی عام کرے۔ اس قیامت کی گھڑی میں صرف پغمان کے رئیس سید محمد شاہ تھے جو انگریزوں اور ان کے پالتو حکمراں شاہ شجاع کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ۔ بعد میں شاہ شجاع نے انہیں جاں فشاں خان کا خطاب دیا اور انگریزوں نے کہا کہ ’’نواب جاں فشاں بہادر اور ان کے کنبے نے اپنا سب کچھ، اپنے دوست، عزیز، اپنی املاک یہاں تک کہ اپنا ملک ، اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس خطّہ زمین پر انسان کو جو کچھ بھی عزیز ہوتا ہے،وہ سب ہماری خاطر قربان کردیا‘‘۔ اس طرح کے توصیفی کلمات کہتے ہوئے کمپنی بہادر نے سردھنا کی جاگیر شاہ صاحب کو سونپ دی۔ پہلے ان کے کنبے کو ایک ہزار روپے ماہانہ پنشن دی گئی۔ پھر انہوں نے ہر جنگ میں یہاں تک کہ اٹھارہ سو ستاون میں بھی انگریزوں سے اپنی وفا داری نبھائی۔ اس کے صلے میں دس ہزار روپے سالانہ مالیت کی جاگیر بھی جاں فشاں خاں کے سپرد کردی گئی۔ وہ غدر کے بعد سات سال زندہ رہے۔ ان کے بعد ان کے تین بیٹے جانشین ہوئے۔
پھر یہ ہوا کہ شاہانہ ٹھاٹ باٹ کی لعنت اپنے دانت نکوسے وارد ہوگئی۔ قرضے پر قرضے چڑھنے شروع ہوئے۔ جاگیر عدالت کی تحویل میں چلی گئی اور بیسویں صدی کے پہلے برس میں یہ قرضے دس لاکھ روپے تک پہنچ گئے جو حکومت سے ادھار لے کر چکائے گئے۔اُسی صدی کے خاتمے سے پہلے میں اپنی سیاحت کا جھولا اٹھائے سردھنا پہنچااور جو منظر دیکھے میرا دل ہی جانتا ہے۔
پہلے تو بیگم سمرو کے گرجا گھر کی سیر کی۔ وہ شوہر کے مرنے کے بعد مسیحی ہوگئی تھیں۔ انہوں نے سردھنا میں اٹلی کی طرز پر کلیسا تعمیر کیا جس کو یوں آراستہ کیا گیا ہے جیسے کسی چھتنار درخت کے ایک ایک پتّے ، ایک ایک بوٹے کو پیار سے سنوارا گیا ہو۔ سارے علاقے پر یہی کلیسا، بیگم سمرو کا یورپی طرز کا محل ، مقامی لڑکیوں کے لئے چرچ کے اسکول کی عمارت اور اسی طرح پادریوں کی تربیت گاہ چھائی ہوئی ہے۔ عمارت کے گردنہایت نفیس باغ لگا ہے جس میں مجسمے کھڑے ہیں۔ اُن میں ایک اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ حضرت عیسیٰ کا مجسمہ ہے جو یوں لگتا ہے جیسے وہ دونو ں بازو پھیلائے سامنے موجود کسی بہت بڑے مجمع کو دعا دے رہے ہوں۔ جس سنگِ سیاہ کے بڑے چبوترے پر مجسمہ کھڑا ہے اس پر ہندی ، انگریزی اور اردو میں لکھا ہے۔’’ یسوع ہم پر رحم کر ‘‘۔چبوترہ اور مجسمہ اتنا اونچا ہے کہ یسوع چاہیں بھی تو جھک کر یہ عبارت پڑھ نہیں سکتے۔
یہ سیر کرتے کرتے دوپہر کے کھانے کا وقت ہوگیا۔ میرے میزبان بولے کہ یہاں کمرہ نواباں میں میرے عزیز رہتے ہیں، ان کے ہاں چل کر کھالیا جائے۔اب ہماری جیپ نما کار سردھنا کی گلیوں میں چلی۔ گلیاں بس اتنی ہی چوڑی تھیں جتنی چوڑی ہماری کار تھی۔ البتہ گلیاں پختہ تھیں جن کی دونوں جانب نالیاں بہہ رہی تھیں اورگلیوں میں جومنظر تھا وہ کوئی میرے دل سے پوچھے۔چونکہ گھر تنگ اور بچے بے شمار تھے، ماؤں نے بچوں کو کھیلنے کے لئے باہر گلیوں میں نکال دیا تھا اور وہا ں جتنے انسان کے بچّے اتنے ہی کتّوں کے پِلّے آپس میں گتھم گتھا ہو رہے تھے۔ بچّے نیم برہنہ اور پِلّے نالیوں کی کیچڑ میں لت پت۔ ہماری کار کا ہارن نہ یہ سُن رہے تھے نہ وہ۔ بڑی مشکل سے اپنے سے زیادہ اُن کو بچاتے ہوئے ہم ایک بڑے سے آہنی گیٹ تک پہنچے۔ یہ کمرہ نواباں کا صدر دروازہ تھا۔ اونچی فصیلوں کے اندر کیا ہے، کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ ہم نے دستک دی تو کسی نے آکر دروازہ کھولا اور ہمیں خوش آمدید کہا۔ مگر وہاں تو خوش ہونے والا منظرکبھی کا اوجھل ہو چکا تھا۔وہاں بیگم سمرو کے رؤسا اور امرا ء کی حویلیوں کے کھنڈ ر یوں کھڑے تھے جیسے اب گرے اور تب گرے۔ وہاں مظہر امام شاہ ہمارے میزبان تھے۔ وہ ہمیں ساتھ لے کر چلے۔ بیگم سمرو کا ذاتی غسل خانہ دکھایا، ان کے درباریوں کے مکان دکھائے، ان مکانوں کی دیواروں میں وہ طاق دکھائے جن میں لڑکیوں نے آج بھی گڑیا کے گھر بنا رکھے تھے۔ایسی ہی طاقوں بھری گڑیاں چھوڑ کر لڑکیاں بدیس بیاہی جاتی تھیں۔ خود مکانوں کے بارے میں کیا کہوں کہ ایسے در اور دریچے، ایسی محر ابیں اور ایسے جھروکے، ایسے چوبی دروازے اور رنگین شیشوں کے روشن دان، دیواروں پر بنے نقش و نگارجن کی ایک ایک پتّی مصوری کا شاہکار،دیکھا ہی کیجئے۔ (یہاں بتاتا چلوں کہ امریکہ کی یونیورسٹی آف منی سوٹا کے آرٹ ہسٹری کے شعبے میں اسلامی فن تعمیر کی تعلیم ہوتی ہے جس میں بیگم سمرو کے آرٹ اور فن تعمیر کا مضمون بھی شامل ہے)۔مگر یہ سب کھنڈر ہو چکا تھا۔ لوگ ان ہی بوسیدہ چھتوں کے نیچے جی رہے تھے۔ ہر طرف الگنی پر پھیلے ہوئے کپڑے تھے اور وہیں دیوار سے ٹیک لگائے ایک بانس کھڑا تھا جس کی چوٹی پر جھاڑیاں سی بندھی تھیں۔ یہ کٹی ہوئی پتنگیں لوٹنے کا سازوسامان تھا۔ پھر کچھ نسبتاً نئے مکان بھی دیکھے۔ میزبان نے کہا کہ یہ دیکھئے، نصیر الدین شاہ کا گھر۔ پھر ایک نہایت مہذب خاتون کا گھر دیکھا جس میں رہ کر وہ اپنی کھیتی باڑی اور مویشیوںکی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ ان کا ایک بازو کلائی پر سے کٹا ہوا تھا۔ میں نے چونک کر پوچھا کہ یہ کیا ہوا۔ بولیں’’کچھ نہیں۔ جانوروں کا چارہ کاٹ رہی تھی، ہاتھ مشین میں آگیا۔‘‘ ان کا سر ڈھانپ کر بیٹھنا دیکھ کر اور ’کچھ نہیں‘ کہناسُن کر میں نے اپنی نشست سے اٹھ کر انہیں، اور سچ پوچھئے تو اپنے معاشرے کی عورت کو سلام کیا۔ یہی ایک یاد تھی جو میں نے یوں محفوظ کرلی جیسے بچپن میں کسی جگنو کودونوں ہتھیلیوں میں چھپا لیا کرتے تھے۔
تازہ ترین