• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برادرم احسن اقبال معجزانہ طور پر قاتلانہ حملے میں بچ گئے۔ قدرت کی اِس عطا پر پوری قوم کو سجدۂ شکر بجا لانا چاہیے۔ مجھے اُن کے بڑے بیٹے حافظ احمد اقبال بتا رہے تھے کہ ملزم نے سات فٹ کے فاصلے سے فائر کیا اور اس سے چند سیکنڈ پہلے کسی نے میرے والد صاحب کو موبائل فون دیا۔ فون سنتے ہوئے گولی کہنی کی ہڈی سے ٹکرائی جو اپنی ساخت میں بڑی مضبوط ہوتی ہے۔ اِس طرح موبائل فون ایک بڑی ڈھال ثابت ہوا، ورنہ گولی سینے یا دماغ میں پیوست ہو جاتی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ چند لمحوں میں ایک معجزہ رونما ہوا اَور والد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے حیاتِ نو عطا کی۔ وہ بفضلِ خدا تیزی سے شفایاب ہو رہے ہیں اور اُن کے حوصلے بلند ہیں۔ اُن کا عزم ہے کہ ہم پاکستان کو عظیم تر ملک بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھیں گے اور آزمائشوں سے سرخرو ہو کر نکلیں گے۔
بے شک یہ امر قابلِ ستائش ہے کہ تمام سیاسی قائدین نے قاتلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ قومی اداروں کے سربراہوں نے اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ انتہا پسندی کا سر کچل کر دم لیں گے۔ عالمی حلقوں میں بھی وزیرِداخلہ پر قاتلانہ حملے کے بارے میں گہری تشویش پائی جاتی ہے جو اِس اہم ضرورت کا احساس دلاتی ہے کہ انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے ذہن سازی کو اوّلین اہمیت دینا ہو گی۔ بلاشبہ فوج اور عوام کی بے مثال قربانیوں سے دہشت گردی کا بڑی حد تک خاتمہ ہو چلا ہے، مگر نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عملدرآمد نہ ہونے کے باعث آج بھی فتنے بھڑک رہے اور خوفناک مناظر ایک غیر یقینی صورتِ حال پیدا کر رہے ہیں۔ ان فتنوں میں وہ مذہبی جنون بھی شامل ہے جس کا اللہ کے دین سے کوئی تعلق نہیں، اور خودنمائی کا وہ خبط بھی جو سوسائٹی کو طبقات میں تقسیم کر دیتا ہے۔ ان میں سب سے مہلک فتنہ خود کو عقلِ کُل سمجھ لینا اور دوسروں کو عقل و شعور اور اخلاق و مذہب سے نابلد خیال کرنا ہے۔ گزشتہ دو تین عشروں میں ایک پرانے فتنے نے بڑی قوت کے ساتھ سر اُٹھایا ہے، وہ ہے دولت اور اقتدار کی لامحدود ہوس۔ یہ فتنہ ایک چھوٹے سے طبقے میں اس قدر سرایت کر گیا ہے کہ وہ ہرقدر کو دولت کے ترازو میں تولتا ہے اور ہر بڑا فیصلہ اسی پیمانے سے کرتا ہے۔
وزیرِداخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے میں کئی اہم پہلو پنہاں ہیں۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ انہی کو بار بار نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔ وزیرِداخلہ تو وہ دس ماہ پہلے ہی بنے ہیں، اُن کی پانچ سالہ حکومتی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ سی پیک پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہے۔ وہ شب و روز اس منصوبے پر کام کرتے اور چین اور پاکستان کی دوستی کو معاشی حقیقتوں میں ڈھالتے رہے۔ وزیرِ منصوبہ بندی کی حیثیت سے انہوں نے پورے ملک میں مذاکروں کا اہتمام کیا اور اپنی غیر معمولی فہم وفراست سے اعتراضات اور شکوک و شبہات کے زہر میں بجھے ہوئے کانٹے چنتے رہے۔ انفرااسٹرکچر اور مواصلات کا یہ بین البر اعظمی منصوبہ جو پورے خطے کے لیے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے، اسے ناکام بنانے کے لیے امریکہ اور بھارت طرح طرح کے شوشے چھوڑتے اور ذہنوں میں اضطراب پیدا کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں، لیکن احسن اقبال کی مخلصانہ جدوجہد اور فوجی قیادت کی بلند نگاہی اور تنظیمی صلاحیت سے پائیدار ترقی کے سنگ ہائے میل ثبت ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی دشمن قوتیں اس تناظر میں احسن اقبال کو راستے سے ہٹانے کے درپے معلوم ہوتی ہیں، کیونکہ اُنہیں دلیل سے مسخر نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ امریکہ کی ایک بلند پایہ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ہیں، معیشت پر گہری نگاہ اور اپنا مافی الضمیر بیان کرنے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ اُن کی قابلیت، خاندانی نجابت اور غیر معمولی متانت کی ایک دنیا معترف ہے۔ اعتزاز احسن جو اپنی ذات میں ایک بلاخیز دانشور ہیں، اُنہوں نے بھی احسن اقبال کا ذکر بہت اچھے الفاظ میں کیا ہے۔ اِسی کو سیاسی کلچر کہتے ہیں جس میں باہمی احترام کے رشتے ٹوٹنے نہیں پاتے۔
قاتلانہ حملے کے مبینہ ملزم نے پولیس کو جو اعترافی بیان دیا ہے اور اس کے حوالے سے سوشل میڈیا میں جو کہانیاں گردش کر رہی ہیں، اُن سے خوف آتا ہے کہ مذہبی ہیجان بڑھتا ہی نہ چلا جائے۔ احسن اقبال کے بارے میں اِس تاثر کو ہوا دینا کہ وہ ختمِ نبوت کے حلف میں کسی تبدیلی کے ذمہ دار ہیں، سراسر لغو بات ہے۔ وہ ایک دیندار گھرانے کے چشم و چراغ ہیں اور اُن کی والدہ ماجدہ آپا نثار فاطمہ نے میری چھوٹی بہن عجوبہ بیگم کے ساتھ مولانا اصلاحی سے کئی سال تفسیرِ قرآن کے رموز حاصل کیے۔ نثار فاطمہ صاحبہ قومی اسمبلی کی رُکن منتخب ہوئیں، تو اُنہوں نے اسلامی قوانین کے نفاذ اور حرمت ِرسولؐ کو قانونی تحفظ دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اُن کے فرزندِ ارجمند ختمِ نبوت کے حلف نامے میں کسی ردوبدل کے کیسے مرتکب ہو سکتے ہیں؟ آئین میں وہی حلف نامہ اُسی شان سے موجود ہے جو جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں شامل کیا گیا تھا۔
اِس گفتگو کو بھی بند ہو جانا چاہیے کہ جو وزیرِداخلہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتا، وہ عوام کو تحفظ کیونکر فراہم کر سکے گا۔ حملے بھی ہوتے رہتے ہیں اور کاروبارِ مملکت بھی چلتے رہتے ہیں۔ وزیرِاعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں شہید کیے گئے، تو اس وقت اس نوع کے سوالات نہیں اٹھے تھے۔ جنرل ضیاء الحق فضائی حادثے میں ہلاک ہوئے، تو کسی نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ وہ دس سال تک پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کیسے کرتے رہے، چنانچہ یہ راگ الاپتے رہنا کہ وزیرِ داخلہ اہلِ وطن کی حفاظت نہیں کر سکیں گے، کم فہمی یا بدنیتی کا شاخسانہ ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ حملہ انتخابات کے انعقاد سے ڈھائی تین مہینے پہلے کیوں ہوا۔ کیا یہ انتخابات کے التوا کی سازش ہے یا اس کا مقصد ملک میں طوائف الملوکی اور خونریزی کو ہوا دینا ہے؟ بیشتر سیاسی زعما جس تنگ نظری سے کام لے رہے ہیں، اس کے نتیجے میں قومی وحدت پارہ پارہ ہو سکتی ہے۔ وہ عناصر جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ قومی سیاسی جماعتوں میں پھوٹ ڈال کر وہ اپنے مقاصد حاصل کرلیں گے، شدید غلط فہمی اور خودفریبی کا شکار ہیں۔ قومی سیاسی جماعتوں کے اندر گروپ بندی کا نتیجہ یہ برآمد ہو گا کہ انتہا پسند چھوٹی چھوٹی جماعتیں طاقت پکڑتی جائیں گی اور بالآخر حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ کراچی کے حکیم سعید گراؤنڈ میں پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کے مابین تشدد نے جس خوفناک صورت میں سر اُٹھایا ہے، اس میں بربادی کے تمام عناصر پائے جاتے ہیں۔ دنیا کی طاقت ور 75شخصیات میں ہمارے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شامل ہیں، انہوں نے خطرے کی نشان دہی کرتے ہوئے اس کا حل بھی تجویز کیا ہے۔ کوئٹہ میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چند عناصر نوجوانوں میں نفرت پھیلانا چاہتے ہیں۔ یہ زخموں پر مرہم رکھنے اور پختہ عہد کرنے کا وقت ہے کہ ہم سب قانون کی پاسداری کریں گے اور آئینی حدود میں رہیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اِس عہد پر پوری ثابت قدمی سے عمل کیا گیا، تو دشمنوں کے ارادے بھی ناکام رہیں گے اور جمہوری اور ترقیاتی سفر عوام کے تعاون سے بے حساب کامیابیوں سے سرفراز ہو گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین