• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں گزشتہ 70سالوں سے ’’جمہوریت‘‘ اور عوامی مینڈیٹ کو جس طرح مسلا، کچلا اور روندا گیا ہے، اسکی مثال دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ملتی ۔اسی وجہ سے یہ ملک اپنے قیام کے صرف 23سال بعد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا اور ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں دولخت ہوگیا۔ یہ دنیا کی تاریخ کا واحد افسوسناک ترین حادثہ ہے ۔ اور دنیا کا کوئی ملک اتنا نا پائیدار ثابت نہیں ہوا کہ وہ اپنے قیام کے ربع صدی سے بھی کم عرصے میں شکست و ریخت کا شکار ہوگیا ہو۔ کیونکہ اس سے کہیں زیادہ عمر تو افراد کے باہمی تعلّقات کی ہوتی ہے جبکہ ملکوں یا قوموں کی عمر تو صدیوں تک محیط ہوتی ہے۔ صرف یہی نہیں بقیہ پاکستان بھی اپنی بقا کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔ پاکستان آج معاشی ، اخلاقی ، داخلی امن وامان اور خارجی تعلقات کے حوالے سے جنوب مغربی ایشیا کا پسماندہ ترین ملک بن گیا ہے۔ یہاں تک کہ اس سے علیحدہ ہونے والا مشرقی بازو یعنی سابقہ مشرقی پاکستان اور حالیہ بنگلہ دیش بھی زندگی کے ہر شعبے میں اس سے آگے نکل گیا ہے۔ اس کے زرِمبادلہ کے ذخائر 33ارب ڈالر سے بھی بڑھ گئے ہیںجو ایٹمی طاقت پاکستان کے ذخائر کے دوگنا سے بھی زیادہ ہیں۔ اس کے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات بھی پاکستان کی نسبت بہت بہتر ہیں۔ اسکی جغرافیائی سرحدوں کو کوئی خطرہ نہیں۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھااور برابروہی غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ جنہوں نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے ۔ہمارے ہاں ہر مسئلے کو طاقت کے بل بوتے پر حل کرنے کی کوشش کرنا عوامی حاکمیت کا مذاق اڑانا اور سیاستدانوں کو مختلف الزامات کے تحت عبرت کا نشان بنا دینا اور عوام کو یہ باور کرانا کہ گو ساری دنیا نے جمہوریت کے ذریعے ترقی کی ہے لیکن پاکستانی جمہوریت کے قابل نہیں ہیں درست رویہ نہیں۔ حالانکہ یہی پاکستانی ترقی یافتہ ممالک میں جاکر ان ممالک کے جمہوری ڈھانچے میں قابلِ رشک ترقی کرتے ہیںلندن کے مئیر صادق، رکن ِ پارلیمنٹ سعیدہ وارثی اور برطانوی وزیرِ داخلہ ساجد جاوید اس کی تازہ مثالیں ہیں۔ ہمارے ہاںیہ کہہ کر جمہوری بساط لپیٹ دی جاتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا معیار ترقی یافتہ جمہوری ممالک جیسا نہیں۔اب کون انہیں سمجھائے کہ جمہوریت ، جمہوری کلچر کے فروغ کے ساتھ میچور ہوتی ہے اور جمہوری کلچر جمہوریت کے تسلسل کے ساتھ میچورہوتا ہے۔ جسے ہمارے ہاں تقریباََ ہر دس سال کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ ابھی تک دنیا میں کوئی ایسی فیکٹری نہیں بنی جہاں میچور یا بالغ جمہوریت تیار کرکے فافذ کی جا سکتی ہو۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہم اکیسویں صدی اور نئے میلینم میں الٹے پائوں داخل ہونے والی واحد قوم تھے۔12اکتوبر 1999کو جب ساری دنیا میں آمریت کو ’’عوامی توہین‘‘ سمجھ کر مسترد کر دیا گیا تھا۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو چوتھی مرتبہ ڈکٹیٹر شپ کی بھٹی میں ڈال دیا اور بزعمِ خود ایسے کارنامے سرانجام دئیے جنہوں نے ملک کو امریکی طفیلی ریاست بنا دیا۔ جس کے بعد یہاں خودکش دھماکوں اور قتل و غارت گری کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس میں 70ہزار جانوں کا ضیاع ہوگیا اور اربوں کا مالی نقصان ۔ اس سے پہلے جنرل پرویز کے پیشرو جنرل ضیاء عالمی طاقتوں کے مفادات کی جنگ کو ’’مقدس جنگ‘‘ قرار دے کر اس تباہی کا سنگِ بنیاد رکھ چکے تھے۔ انہوں نے اپنے ذاتی اقتدار کی خاطر مذہب کا سہارا لیکر فرقہ وارانہ تقسیم کو اتنا گہرا کر دیا کہ ہر شخص ہاتھ میں بندوق تھامے کفّراور غدّاری کے فتوے بانٹنے لگا۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ آمریت کے زمانے میں جو بھی سانحات گزرے اسے بھی سیاستدانوں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔
یہ بھی ایک المیہ ہے کہ بعض قوتیں جس بھی سیاسی رہنما کے خلاف محاذ ِ جنگ کھولتی ہیں وہ انہی کا پروردہ ہوتا ہے۔یہاں میں میاں نواز شریف کی سب سے بڑی ’’سیاسی غلطی‘‘ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس نے انہیں اس حال تک پہنچایا ہے ۔ چلئے میاں صاحب ضیاء الحق کی معرفت سیاست میں تو آگئے لیکن ضیاء الحق کی موت کے بعد نوے کی دہائی میں ان کے پاس موقع تھا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ مل کر جمہوریت کو مضبوط کرتے لیکن انہوں نے اقتدار میں آنے کے لیے حقیقی جمہوری قوتوں کا راستہ روکا اوربے شمار سازشیں کیں جسکے نتیجے میں پاکستان میں رہی سہی جمہوریت بھی ختم ہوگئی ۔ جو بالآخر انہیں بھی لے ڈوبی ۔ کاش نئے آنے والے اس ’’سنگین غلطی‘‘ سے سبق سیکھیں اور سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی نہ بننے دیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین