• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مستقبل کی ہلکی سی جھلک دیکھنا، رجحانات کا مطالعہ کرنااورآنے والے حالات کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں بشرطیکہ اپنی تاریخ پر نگاہ ہو، انسان قومی مزاج کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو اور تھوڑی سی کامن سینس بھی اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہو۔ یہ ساری نعمتیں ہمارے اکثر قاریوں کا دائمی امتیاز ہیں اس لئے مجھے مناسب نہیں لگتاکہ گزشتہ کالموں سے پیراگراف یا سطور لکھ کر ثابت کروں کہ مجھے آنیوالے واقعات و حادثات کا پہلے ہی سے اندازہ تھا۔ غائب کا علم صرف اللہ پاک کے پاس ہے، ہم تو اندازے ہی لگا سکتے ہیں جو درست بھی ثابت ہوتے ہیں اور غلط کبھی ’’نکلتے‘‘ ہیں۔ گزشتہ سال جب قومی اسمبلی الیکشن فارم اور پھر پارلیمنٹ کے حلف نامے میں ختم نبوتﷺ کے حوالے سے تبدیلیاں کررہی تھی تو میں نے واضح طور پر لکھاکہ اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ جب دبائو کے تحت پارلیمنٹ نے وہ تبدیلیاں واپس لے لیں، وزیر قانون کو استعفیٰ دینا پڑا،احتجاجات کا سلسلہ چل نکلا اور اس صورتحال سے عہدابرا ہونے کے لئے لیڈروں کو وضاحتیں پیش کرنا پڑیں تو میں نے دو بارعرض کیا تھا کہ پاکستان کا مسلمان ختم نبوتﷺ اور ناموس رسالتﷺ کے حوالے سے نہایت جذباتی، حساس اور ’’عاشق‘‘ ہے،اس عاشقانہ مزاج کاہلکا سا ٹریلر میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر کی وہ تقریر تھی جو انہوں نے قومی اسمبلی میں کی اور جس کے ’’چھینٹے‘‘ خود ان کے محترم سسر صاحب کے دامن پر بھی پڑے۔ جب عشق رسولﷺ کے تقاضوںکو مجروح کرنے کی جسارت کی جائے تو اس کے دوررس نتائج اور مضمرات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں مذہبی حضرات کی ایک بڑی تعداد میاں نوازشریف کی تخت اقتدار سے محرومی کو اسی حوالے سے دیکھتی ہے۔ اس لئے میاں صاحب پر جامعہ نعیمیہ جیسے باوقاراور مستند ادارے میں سابق طالبعلم کی جانب سے جوتا پھینکنے کی افسوسناک حرکت اسی سلسلے کی اہم کڑی لگتی تھی۔ خواجہ آصف پر سیاہی کا حملہ ہوسکتا ہے مقامی سیاست کا شاخسانہ ہو لیکن احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ بھی اسی واقعے کا شاخسانہ ہے۔ظاہر ہے کہ ہمارے سیاستدان اسے الیکشن کاماحول خراب کرنےکی سازش کہتے ہیں لیکن میرے نزدیک یہ الیکشن کا ماحول خراب کرنےسے قطع نظر سیاسی قیادت کی غلطیوں کا ثمر ہے اور انتخابی مہم میں تحریک لبیک جیسی مذہبی جماعتیں اس ایشیو کو اچھال کر ووٹروں کے جذبات گرمائیں گی اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل اپنی سوشل میڈیا مہم میں الزام لگا رہے ہیں کہ تحریک لبیک جیسی تنظیمیں ہوائی مخلوق کی پیداوار ہیں اور انہوں نے انہیں انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ اس ضمن میں فیض آباد راولپنڈی کے دھرنے کاحوالہ دیا جارہا ہے جسے سیاسی قیادت کی درخواست پرفوج نے ختم کروایا۔ الزام لگانا بھی جمہوریت کاحسن ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس الزام میں کچھ وزن بھی ہو۔ مگر ’’الزامی‘‘ حضرات کو سوچنا چاہئے کہ فوج نے اس وقت مداخلت کی جب سویلین قیادت پوری طرح ناکام ہوگئی تھی۔ دوم یہ دھرنا پنجاب حکومت کی عدم مداخلت کی وجہ سے کامیاب ہوا۔ پنجاب حکومت نے نہ اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی اسے ناکام بنانے کی حکمت عملی بنائی۔ خود پنجاب کے وزیراعلیٰ نے بیان دے کر اپنے آپ کو پارلیمنٹ کی کارروائی سے الگ تھلگ کرلیا تھا اور کرلیا تھا اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت سے اختلافی بیان دے کر اپنے آپ کو عوامی نگاہوں میں سرخرو کرلیا تھا۔ اس لئے تحریک لبیک کے ابھرنے کا سارا کریڈٹ ہوائی مخلوق کو دینا انصاف نہیں۔ کسی حد تک یہ اپنی غلطیوں پرپردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ اگر حکومت انتخابی فارم میں تبدیلیاں کرنے کی غلطی نہ کرتی تو مذہبی شدت پسندوں کوعشق رسولﷺ کے لبادے میں ایسی حرکات کا جواز نہ ملتا۔ میں پھرعرض کر رہا ہوں کہ ابھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا، اس کے مختلف انداز سےمختلف اظہار نظرآتے رہیں گے۔ بہرحال محترم احسن اقبال جیسے صاف ستھرے، مخلص مسلمان اور پڑھے لکھے دانشور وزیر پر قاتلانہ حملہ نہایت افسوسناک اور قابل مذمت حرکت ہے۔ اس رجحان کا راستہ روکنے کےلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر موثر حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔
میں نے چند روز قبل کالم میں لکھا تھا کہ ایک طرف ہمارے معاشرے میں مذہبی شدت پسندی فروغ پا رہی ہے تو دوسری طرف ہمارے سیاستدان نفرت کے بیج بو رہے ہیں۔ انتخابی مہم کے آغاز ہی میں جس طرح مخالفین پر الزامات اور نفرتوں کی بارش کی جارہی ہے، سیاسی کارکنوں کو بھڑکایا جارہا ہے، جماعتی اختلافات کی خلیج کو وسیع کیاجارہاہے اور انتقام کے جذبے کو آگ دکھائی جارہی ہے، اس سے انتخابی ماحول کے خراب ہونے کا پورا امکان موجود ہے۔ میں نے لکھا تھاکہ اس ماحول میں مختلف جماعتوں کے کارکنوں کا آپس میں دست و گریبان ہونا، سرپھٹول کرنا اور مخالفین کے جلسے اکھاڑنا ہماری نفرت اور انتقام کی سیاست کا لازمی نتیجہ نظر آتا ہے۔
میں نے عرض کیا تھا کہ جس طرح کی انتقامی فضا پیداکی جارہی ہے اس میں ایک دوسرے پر فائرنگ اور سیاسی قتل و غارت کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ آپ نے اس اندازے کا چھوٹا سر ٹریلر کراچی میں دیکھ لیا جہاں پی ٹی آئی اور پی پی پی کے کارکنوں نے تحمل، صبر اور سیاسی رواداری کا دامن چھوڑ کر لڑائی مارکٹائی اور دنگا فساد کی رسم نبھائی اور ایسی روایات کی بنیاد رکھ دی جس کے اثرات سارے ملک کی انتخابی مہم پر مرتب ہوں گے۔ فی الحال نفرت اور انتقام کی سیاست کا مظاہرہ محدود پیمانے پر ہوا ہے جوں جوں انتخابی مہم کادائرہ پھیلے گا دوسری جماعتیں بھی اس کی لپیٹ میں آتی جائیں گی اور مسلم لیگ (ن) بھی بہت جلد اس میدان میں کود پڑے گی۔ ان واقعات کو خطرات کا الارم اورعلامتیں سمجھ کرساری سیاسی جماعتوںکو اپنے اپنے گریبان میں جھانکناچاہئے اور انتخابی مہم کی فضا کو سازگار بنانے کے لئے حکمت عملی بنانی چاہئے ورنہ اگر نفرت اور انتقام کی آگ اسی طرح پھیلتی گئی تو نگران حکومت کے عرصہ اقتدار میں توسیع کی پیش گوئی کو سچے ثابت کرنے کا الزام سیاستدانوںپر ہوگا۔ جہاں یہ لازم ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو مشتعل ہونے سے روکیں وہاں یہ بھی لازم ہے کہ الیکشن کمیشن حرکت میں آئے۔ سیاسی جماعتوں کےسربراہان اور اہم سیاسی شخصیات کی کانفرنس بلاکر ایک ضابطہ اخلاق مرتب کرے اور الیکشن کی فضا کو خوشگوار بنانے کےلئے موثر اقدامات کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لیڈروں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں اور انتخابی اشتعال انتخابات کے التوا کا جواز بن جائے۔ فی الحال تھوڑا لکھے کوبہت سمجھیں اور میرے خدشات پر غور کریں۔
نوٹ:۔ رمضان کی آمد آمد ہے۔ زکوٰۃ اور صدقات دیتے ہوئے غوثیہ کالج مظفر گڑھ کے 330یتیم و مستحق بچے بچیوں کو یاد رکھیں جنہیں بی اے تک سو فیصد مفت تعلیم، رہائش، لباس، کتابیں، علاج مہیا کئے جاتے ہیں اور ان کی کردار سازی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ صوم و صلوٰۃ کی عادت کیساتھ قرآن مجید بھی پڑھایا جاتا ہے اور بچیوں کی شادی کا انتظام بھی کیاجاتا ہے۔ انہیں کمپیوٹر اور ووکیشنل ٹریننگ کیلئے فنڈز کی اشد ضرورت ہے۔ رابطہ محمد طارق 0300-3312052 بنک ا کائونٹ :محمد طارق بنک الحبیب مظفرگڑھ۔ اکائونٹ نمبر 0117-0081-002082-01-7
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین