• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ تعالیٰ لاج رکھنے والا ہے

کئی برس پرانے اس واقعے میں میرے لیے حیرانی اور خوشی کے تاثرات کے ساتھ ایک ایسا سبق بھی ہے، جیسے تازیست بھلانا ممکن نہیں۔ میرا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے، جن کی سرشت میں حرام کی کمائی کا تصوّر تک نہیں۔ جب مجھے پولیس کی ملازمت ملی، تو لوگ کہتے تھے کہ اوپرکی کمائی کے بغیر محض تَن خواہ سے گھر کیسے چلائو گے، لیکن، الحمدللہ میں نے سادگی اور کفایت شعاری کو اصول بنا کر اپنی زندگی میں رشوت کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا۔ میں ماتحت رینک کا پولیس افسر تھا۔ 

حرام کی کمائی اور رشوت نہ لینے پر سینئرز میری عزت کرتے تھے، میں بھی ان کا ہر حکم بلاچوں چرا مانتا اور کبھی غیرقانونی حربے استعمال کرکے کسی شہری کو پریشان نہیں کرتا تھا، بلکہ میری کوشش یہی ہوتی تھی کہ ہر شہری کی حتی المقدور مدد اپنا فرض سمجھ کرکروں۔ ایک بار ایک مقروض شخص کو مقررہ وقت پر قرض کی ادائیگی نہ کرنے پر جس طرح ذلیل اور رسوا ہوتے دیکھا، تو دل میں تہیّہ کرلیا کہ چاہے حالات کیسے بھی ہوں، کبھی کسی سے ایک پیسا بھی اُدھار نہیں لوں گا۔ 

ہمیشہ اپنی تَن خواہ ہی سے اخراجات پوری کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس بات سے تو سب ہی واقف ہوں گے کہ رشوت خور پولیس افسران کی نظر میں مجھ جیسے لوگ خار بن کر چبھتے ہیں اور جب وہ ناقابلِ برداشت ہوجاتے ہیں، تو ان کا اِدھر اُدھر تبادلہ کروادیا جاتا ہے۔ چناں چہ بہ ظاہر میری عزت کرنے والے افسران نے بالآخرمیرا ہیڈکوارٹر سے تبادلہ کرواکے ایک مقامی تھانے میں تعیناتی کروادی، تو میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ’’اے میرے رب! میں تیرے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چل رہا ہوں، مجھے سرخ رو کرنا۔‘‘ اپنے طور پر اطمینانِ قلب کے بعد میں نے ڈیوٹی جوائن کرلی۔

میں مسلسل بارہ گھنٹے بھوک پیاس کی پروا کیے بغیر ایمان داری اور تَن دہی سے ڈیوٹی انجام دیتا تھا۔ جب زیادہ بھوک ستاتی، تو تھانے کے قریب فٹ پاتھ پر ایک چھوٹے سے سستے ہوٹل سے دال یا سبزی کھا لیا کرتا۔ کبھی پیسے کم ہوتے، تو کھانے کی مقدار گھٹالیتا ، مبادا اُدھار نہ کرنا پڑجائے۔ ملازمت کے شروع کے دنوں میں اپنی بچت سے میں نے نئی موٹر سائیکل خریدلی تھی۔ چند ماہ بعد میری والدہ بیمار پڑیں، تو مجھے ان کی بیماری کے اخراجات پورے کرنے کے لیے موٹر سائیکل بھی بیچنی پڑگئی۔ والدہ کی صحت یابی کے بعد میں نے ایک پرانی موٹر سائیکل خرید کر اس پر اکتفا کرلیا ۔ الحمدللہ کسی تنگی کے بغیر میرا ٹھیک ٹھاک گزارا ہورہا تھا کہ ایک دن میری اس اصولی زندگی پر آزمائش کا وقت آگیا۔ مہینے کی انتیس تاریخ تھی، صبح ڈیوٹی پر جانے کے لیےتیار ہو کر اپنے بٹوے کا جائزہ لیا، تو اس میں صرف پانچ روپے پڑے تھے، جب کہ تن خواہ ملنے میں دو دن باقی تھے۔ اپنے کمرے میں رکھی الماری کی دراز کھولی، جس میں اکثر ریزگاری ڈال کر ضرورتاً نکال لیا کرتا تھا، تو وہاں بھی اتفاق سے چند سکّوں کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ 

مجھ پر گھبراہٹ طاری ہوگئی۔ سوچا کہ اپنے تھانے کے ہیڈ محررّسے، جو تنخواہیں دیتا تھا، کہہ کر کچھ رقم اُدھار لے لوںکہ چھٹی پر جانے والے ملازمین کی تنخواہوں کی رقوم اس کے پاس ہمہ وقت موجود رہتی تھیں اور وہ ان میں سے مطلوبہ رقم اُدھار دے کر پہلی تاریخ کی تن خواہ میں سے منہا کرلیتا تھا، تقریباً سب ہی ملازمین کا اس سے یہ ادھار چلتا رہتا تھا۔ مگر میں اُدھار کے نام سے بِدکتا تھا۔ کبھی اس سے اُدھار نہیں لیا تھا۔ موٹر سائیکل کا پیٹرول چیک کیا، تو وہ بھی بہت کم تھا، جس سے بہ مشکل تھانے تک ہی پہنچا جاسکتا تھا۔ اگرچہ آج کل سے بہتر زمانہ تھا، مگر اتنا بھی سستا نہیں تھا کہ پانچ روپے کا پیٹرول کوئی دے دیتا اور وہ سارا دن چلتا، خیر، اللہ کا نام لے کر پانچ روپے لے کر میں تھانے تک پہنچ گیا، کسی سے کچھ مانگنے کی عادت نہیں تھی، اس لیے خاموشی سے قریبی ہوٹل سے پانچ روپے کے چائے، پاپے کا ناشتا کرکے اللہ پر توکّل کرلیا۔ 

بارہ بجے بھوک ستانے لگی، تو دل نے مشورہ دیا کہ دو دن ہی کی تو بات ہے، ہیڈ محرر یا کسی سینئر افسر سے کچھ رقم اُدھار مانگ لو، دو روز بعد تن خواہ ملنے پر چکادینا۔ یہ سوچ کر کئی بار ہیڈ محررّ کے کمرے کی جانب قدم بڑھائے، مگر واپس آگیا کہ جب اللہ پر توکّل کیا ہے، تو بندوں کا احسان کیوں اٹھائوں۔ بہرحال، اسی طرح بھوکا پیاسا سارا دن اپنی ڈیوٹی انجام دیتا رہا۔ مغرب کے وقت مجھے ایس ایچ او صاحب نے اپنے کمرے میں بلا کر کہا کہ ’’یہ ایک اہم اور ارجنٹ لیٹر ہے، جو ایس پی کے پی اے کو پہنچانا ہے۔ مجھے تم پر پورا بھروسا ہے کہ اس رپورٹ کو رازداری سے ان تک پہنچادوگے، لہٰذا یہ لیٹر لے کر فوراً روانہ ہوجائو۔‘‘

میں بھوک کی شدت سے بدحال اور تھکا ہارا تھا، ایس پی کا دفتر تھانے سے چھے سات کلو میٹر دور تھا۔ کوئی سرکاری گاڑی بھی دستیاب نہیں تھی۔ میں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے لیٹر تو لے لیا، مگر دماغ حاضر نہیں تھا، یہ جانتا تھا کہ موٹر سائیکل میں پیٹرول برائے نام ہے، وہاں تک کیسے پہنچوں گا۔ مگر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اپنے حاکم کا جائز حکم ماننا ماتحت کا فرض ہے۔سو، چپ چاپ موٹر سائیکل پر آکر بیٹھ گیا، لیکن ڈر یہ تھا کہ اگر یہ اسٹارٹ نہ ہوئی یا راستے میں بند ہوگئی، تب کیا ہوگا۔ 

بہرحال، ڈرتے ڈرتے اسٹارٹ کی، تو دو تین بار کی کوشش میں اسٹارٹ ہوگئی۔ پھر میں نے دل میں تہیّہ کیا کہ اگر میرا رب مجھے آزما رہا ہے، تو پھر یہی سہی، میں بھی کسی بندے سے مدد نہیں مانگوں گا۔ اسے ہی میری مدد کرنی ہوگی اور ایک دن کیا، چار روز بھی اس نے میری نہ سنی تو بھوکا ہی رہوں گا۔ بہرحال، موٹر سائیکل نے مجھے خیریت سے ایس پی کے آفس پہنچادیا۔ ایس پی صاحب آفس میں نہیں تھے، جب کہ پی اے، عشاء کی نماز پڑھنے گیا ہوا تھا۔ چپڑاسی نے مجھے ایس پی صاحب کے کمرے میں بٹھادیا۔ میں اس سے جائے نماز لے کر وہیں سجدہ ریز ہوگیا۔ 

نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیئے اور اپنے طور پر ضدی بچّے کی طرح اللہ تعالیٰ سے گلے شکوے کرنے لگا ’’میرے رب! میں نے ہمیشہ تیری رضا کا راستہ چنا، کبھی رشوت لی، نہ تیرے بندوں کی مدد سے منہ موڑا، پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ میری جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہیں اور میں صبح سے بھوکاپیاسا ڈیوٹی انجام دے رہا ہوں، میری التجا ہے کہ تو ہی دے گا، تو کھائوں گا، ورنہ بھوکا ہی مرجائوں گا۔‘‘

اپنا دِل ہلکا کر کے میں کرسی پر بیٹھ گیا، آنتیں قل ہو اللہ پڑھ رہی تھیں، یکایک ذہن میں پتا نہیں کیوں یہ خیال آیا کہ ایک بار بٹوے کو چیک کروں، شاید اس کے کسی خانے میں سے پانچ دس روپے نکل آئیں۔ اگرچہ صبح بٹوا چیک کرچکا تھا، پھر بھی دل کی تسلّی کے لیے نکالا، لیکن سوائے چند کارڈز کے وہ تو خالی ہی تھا، لہٰذا مایوسی کے عالم میں اسے بند کرکے جیب میں رکھنے ہی والا تھا کہ اندروالی سائیڈ پر کاغذ کا ایک کونا سا نظر آیا، اسے کھینچا، تو وہ تہہ دار ہزار کا نوٹ تھا۔ نوٹ کی تہیں کھولیں، اس کے اندر پانچ سو روپے کا نوٹ بھی لپٹا ہوا تھا، یعنی جو بٹوا میں صبح سےخالی اٹھائے پھر رہا تھا، اس کی اندرونی تہہ میں پندرہ سو روپے موجود تھے۔ 

اب سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ نوٹ کیسے اور کہاں سے آئے، یہ سوچ کر مجھ پر ہیبت سی طاری ہوگئی، کیا اللہ تعالیٰ نے مجھ گناہ گار پر اپنا خصوصی کرم کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ اس پر توکّل کیا جائے، تو پھل ہمیشہ میٹھا ہی ہوتا ہے۔ میں نے کبھی بٹوے کے خانے میں اس طرح پیسے نہیں رکھے، پھر یہ پیسے کہاں سے آئے؟

ان ہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ ایس پی صاحب کا پی اے آگیا، میں نے فوری طور پر اسے لیٹر تھمایا، اور موٹر سائیکل اسٹارٹ کرکے قریبی پیٹرول پمپ پہنچ گیا۔ پیٹرول بھروا کر ایک نسبتاً بہتر ہوٹل سے ڈٹ کر کھانا کھایا، بقیہ رقم، دو تین روز گزارنے کے لیے کافی تھے، مگر دل میں یہ کھُدبد تھی کہ یہ ماجرا کیا ہے، میرے ذہن میں دوبارہ بٹوے کو چیک کرنے کا خیال آنا اور اس میں پندرہ سو روپے کی رقم کا ہونا، یقیناً کرامت ہی تو تھی۔ بہرحال، میں نے اسے قدرت کی مدد سمجھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور چند روزکی چھٹی لے کر گھر روانہ ہو گیا۔ والدہ میری اس غیر متوقع آمد پر میری پسند کے کھانے بنا بناکر اپنی ممتا مجھ پر نچھاور کرنے لگیں۔ 

میں نے دوسرے روز کھانا کھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی اس غیبی مدد کا واقعہ انہیں سنایا، تو وہ رونے لگیں کہ پردیس میں مجھ پر ایسی تنگ دستی بھی آئی تھی۔ پھر آنسو پونچھتے ہوئے کہنے لگیں۔’’بیٹا، جب تم نے میری بیماری میں علاج کے لیے اپنی موٹر سائیکل بیچی تھی، تو علاج سے بچے ہوئے پندرہ سو روپے مجھے دیتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ میں اس سے پھل اور اچھی غذا خرید کر کھائوں، لیکن میں نے وہ پیسے آنکھ بچاکر تمہارے بٹوے کے ادھڑے ہوئے حصّے کی اندرونی تہہ میں چھپا کے رکھ دیئے تھے تاکہ ضرورت پڑنے پر تمہارے کام آجائیں، اللہ تعالیٰ نے میری نیّت قبول کرکے، ضرورت کے وقت تمہاری مدد فرما دی، یہ میرے رب کا مجھ پر احسان ہے کہ تمہیں کسی کے ا ٓگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑا۔‘‘ماں کے اس انکشاف پر میرا تجسّس کم ہوگیا، میں نے کہا ’’ماں! اسے میں کرامت سمجھا تھا اور خوش ہورہا تھا کہ یہ اس کی میرے لیے غیبی امداد تھی۔‘‘ ماں نے جواب دیا ’’ہم گناہ گاروں کے لیے ہمارا رب اسی طرح غیبی امداد کرتا ہے کہ تمہاری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، تم روزانہ اپنا بٹوا چیک کرتے ہو، مگر اس پردے نے اُس وقت تک ان پیسوں کی حفاظت کی جب تک تمہیں ان کی اشد ضرورت نہیں پڑگئی۔ تمہاری نماز کے بعد دعا نے یہ پردہ ہٹادیا اور تمہارے ذہن میں بٹوا دوبارہ چیک کرنے کا خیال ڈال کر تمہاری مدد فرمائی۔ اسے کیا تم کرامت یاغیبی امداد نہیں سمجھتے؟‘‘بلاشبہ، میری ماں سچّی ہے اورواقعی، آج کے دَور میںبھی ایسی کرامات ہوتی ہیں کہ جن سے ایمان میں مزیدپختگی آتی ہے۔

(خالد،کراچی)

تازہ ترین
تازہ ترین