• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یمنی باغیوں کو پاکستانی اسلحہ فرم کی جانب سے اسلحے کی فروخت کا امریکی الزام ثابت نہ ہوسکا

اسلام آباد(شاہد اسلم)یمنی باغیوں کو پاکستانی اسلحہ فرم کی جانب سے اسلحے کی فروخت کا امریکی الزام ثابت نہ ہوسکا۔ گروپ کے مالک کا کہنا تھا کہ تحقیقات میں ہماری بے گناہی ثابت ہوچکی ‘لاہور میں شروع سے اسلحے کا کاروبار شفاف انداز سے چلارہے ہیں۔تفصیلات کے مطابق،پاکستانی حکام نے یمنی باغیوں کوپاکستانی اسلحہ فرم کی جانب سے مبینہ اسلحہ کی برآمد سے متعلق حساس نوعیت کی انکوائری کو بند کردیا ہے، کیوں اس سے متعلق کوئی ثبوت سامنے نہیں آسکے تھے۔دی نیو ز کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق، امریکی شکایت پر شروع کی جانے والی تحقیقات اس شرط پر بند کردی گئی ہیں کہ اگر بعد ازاں کوئی ٹھوس ثبوت سامنے آیا تو تحقیقات دوبارہ شروع کردی جائیں گی ۔ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ مارچ 2017میں امریکا نے لاہور میں واقع پاکستانی اسلحہ فرم پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ یمنی باغیوں کو اسلحہ برآمد کررہی ہے۔امریکی سفارت خانے کے عہدیدار نے وزارت خارجہ امور اسلام آباد کے عہدیدار سے ملاقات میں غیر دستخط شدہ دستاویز کے ذریعے پاکستانی حکام کو آگاہ کیا تھا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق پاکستانی فرم ـہزار سے زائد اےکے۔105رائفلز روسی فرم ’’کلاشنکوف کنسرنس‘‘ اور ٹولا کارٹریج اکتوبر 2016 میںدرآمد کرنا چاہتا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اس اسلحہ کو جبوتی بھجوایا جانا تھا ، تاکہ وہاں سے یمن بھجوایا جاسکے اور گروپ یمن کے اسمگلر کے نمائندے کے طور پر کام کررہا تھا کیوں کہ یہ فرم ماضی میں بھی ان کے ساتھ کام کرتی رہی ہے۔عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہم اس طرح کی منتقلی کی مخالفت کرتے ہیں کیوں کہ ہمارا ماننا ہے کہ اس کا مقصد خطے میں مزید افراتفری پھیلاناہےاور خطے میں جاری تشدد کو فروغ دینا ہے۔امریکی حکام نے پاکستانی حکام کو آگاہ کیا تھا کہ یہ اسلحہ یمن بھجوائے جانے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2216(2015)کی خلاف ورزی ہوتی ہے، جس کے ذریعے حوثی رہنما عبدالمالک الحوثی ، دو فوجی کمانڈرز، سابق صدر صالح اور ا ن کے بیٹے اور جو بھی ان کے لیے کام کررہے تھے یا یمن میں ان کی ہدایت پر عمل کررہے تھے ، ان پر ہتھیاروں کی پابندی عائد کی گئی تھی۔امریکی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ کلاشنکوف کنسرنس سے ہتھیار خرید کر پاکستانی حکام اپنے اوپر ان پابندیوں کا اطلاق کررہے ہیں جو ایسے اداروں کو مادی امداد فراہم کرنے سے لگ سکتی ہیں جن پر ایگزیکٹیو آرڈر 13661کے تحت پابندی عائد کی گئی ہے۔امریکی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے آپ سے اس متعلق فوری تحقیقات کی درخواست کی تھی اور بات کی یقین دہانی کا کہا تھا کہ حوثی فورسز اور صدر صالح کی حامی فورسز تک اسلحہ یا کسی بھی فوجی سامان کی رسائی ممکن نہ ہونے دی جائے ۔معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے سیکریٹری خارجہ نے مارچ 2017میں فوری اجلاس طلب کیا تھا اور متعلقہ حکام سے اس مسئلے پر تفصیلی بات چیت کی گئی تھی۔انہوںنے اس جانب توجہ مبذول کرائی تھی کہ پاکستانی فرم کے اس معاملے میں ملوث ہونے کے سبب سیکوریٹی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی ہوگی ، جس سے ملک کے تشخص پر عالمی سطح پر اور خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات میں برا اثر پڑے گا۔سیکریٹری خارجہ نے اس مسئلے پر شفاف تحقیقات کا حکم دے کر رپورٹ طلب کی تھی۔اسی طرح انہوں نے اس طرح کی سرگرمی کے تدارک کے اقدامات کا بھی حکم دیا تھا ۔اس اجلاس میں ہونے والی کارروائی سے متعلق رپورٹ کی نقل سیکریٹری وزارت دفاعی پیداوار لیفٹیننٹ جنرل سید محمد اویس ، سیکریٹری وزارت داخلہ عارف احمد خان ، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور پی ایس او برائے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی بریگیڈیئر محمد عقیل کو بھی بھجوائی گئی تھی۔ذرائع کے مطابق، وزارت داخلہ کے ماتحت محکمے کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ فرم کے اسٹاک/فروخت رجسٹر کی جانچ پڑتال سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس طرح کا کوئی اسلحہ یا معاہدے کا اس میں اندراج نہیں ہوا ہے۔مزید یہ کہ تحقیقات ایک سال سے زائد عرصے جاری رہی، جس میں یہ بات سامنے آئی کہ جن افراد پر الزام عائد کیے گئے ان کے بینک اکائونٹ کے جائزوں سے ، ان کی سفری تفصیلات ، لیپ ٹاپ اور ای میل کے فارینزک جائزے پوچھ گچھ سے کسی قسم کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔
تازہ ترین