• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت منگل کے روز منعقدہ پارلیمانی رہنمائوں کے اجلاس میں سیاسی پارٹیوں کی طرف سے وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے متعلق مجوزہ آئینی ترمیم کے مسودے پر بڑی حد تک اتفاق اور وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی توثیق کے بعد یہ یقینی نظر آتا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری اور صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد اسی ہفتے نافذ العمل ہو جائے گی۔ اچھا ہوتا کہ حکومت کی 5سالہ میعاد کے دوران اس کی اتحادی رہنے والی دو پارٹیوں کے رہنمائوں مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کی بذات خود یا اپنے نمائندوں کے ذریعے پارلیمانی رہنمائوں کے اجلاس میں شرکت کو یقینی بنایا جاتا۔ اجلاس میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شیری رحمٰن، شاہ محمود قریشی، سید نوید قمر، شیریں مزاری، سر تاج عزیز، آفتاب احمد خان شیر پائو، حاجی غلام احمد بلور، الحاج شاہ جی گل آفریدی، صاحب زادہ طارق اللہ، میر حاصل بزنجو، زاہد حامد، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، بیرسٹر ظفر اللہ خان، محمود بشیر ورک، مقبول صدیقی، بلال رحمٰن اور سید غازی گلاب جمال نے شرکت کی۔ مبصرین کے مطابق مجوزہ بل کی تیاری میں قبائلی نوجوانوں کے مطالبات، سر تاج عزیز کمیٹی اور کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کی سفارشات کو سمویا گیا ہے۔ تاہم کوئی چیز بھی حرف آخر نہیں ہوتی۔ اس قانونی مسودے میں بھی مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے مگر آئینی ترمیم کے اس بل کو حتمی شکل دینے میں تاخیر کا نتیجہ یہ ہوتا کہ موجودہ حکومت کی ائینی میعاد کے بعد، جو 31مئی کو ختم ہورہی ہے، نگراں حکومتوں کا قیام عمل میں آجائے گا اور دو ماہ کے انتخابی عمل اور بعدازاں حکومت سازی میں جو وقت صرف ہوگا اس کے لئے یقیناً انتظار کی ضرورت ہوتی جبکہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے بعد دہشت گردوں کی سرگرمیوں سے بری طرح متاثر ہونے والے علاقوں میں حالات کو معمول پر لانے اور سویلین ایڈمنسٹریشن بحال کرنے کے حوالے سے ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ قبائلی علاقوں کا سویلین اسٹرکچر جدید خطوط پر استوار کرنے اور ان علاقوں کے لوگوں کو ملک کے دیگر حصوں کی طرح سیاسی و قانونی حقوق اور ترقی کے مواقع مہیا کرنے کی کوششوں کے حوالے سے فوجی اور سول قیادت نے جس تیزی سے کام کیا اسے سراہا جانا چاہئے۔ مجوزہ بل پر بعض سیاسی حلقوں کے تحفظات دور کرنے کی تدابیر بھی ضروری ہیں۔ قبائلی علاقوں کو قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دینے سمیت سامراجی دور کے ظالمانہ قوانین کی گرفت بتدریج ختم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات شروع کئے جانے چاہئیں۔ اس ضمن میں بعض حلقوں کی رائے، کہ صوبے کے زیرانتظام قبائلی علاقے بھی خیبرپختونخوا میں ضم کئے جائیں گے، منطقی اعتبار سے درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ برطانوی استعماری دور کے ظالمانہ قوانین ’’فاٹا‘‘ اور ’’پاٹا‘‘ دونوں کے عوام کے لئے تکلیف دہ ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف کیا جانا چاہئے کہ دور غلامی کے جابرانہ قوانین کی موجودگی کے باوجود قبائلی علاقوں نے اپنا تہذیبی و ثقافتی تشخص برقرار رکھتے ہوئے اجتماعی رائے کے انتہائی محدود حق کو عوامی بہبود کے لئے استعمال کرنے کی کوششیں کیں۔ اب خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں میں انسانی حقوق اور آزادی کے احترام کا جو نیا دور شروع ہو رہا ہے اسے ان معنوں میں قدامت سے جدت کا سفر کہا جاسکتا ہے کہ صدیوں کی تہذیبی و ثقافتی روایات و اقدار برقرار رکھتے ہوئے ان علاقوں کو جدید دور کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کی ان کوششوں کا اغاز ہوچکا ہے جن میں ان علاقوں کو دینی و جدید علوم کی درس و تدریس، ہنر مندی، صنعت و حرفت اور کاشت و باغبانی کے جدید طریقوں کی موجودگی میں تیزی سے آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ اس ضمن میں یہ احتیاط ملحوظ رکھنا ہوگی کہ قبائلیوں کے اعتماد اور قابل فخر روایات کو ٹھیس نہ پہنچے اور انہیں انصاف اور ترقی کے حقیقی مواقع میسر آئیں۔

تازہ ترین