• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توانائی کا بحران ملک کو در پیش تمام تر مسائل میں فی الحال سر فہرست ہے۔ غیرمعمولی گرمی کی تازہ لہرنے اچھی طرح یاد دہانی کرادی ہے کہ اِس بحران سے نمٹنے کے لئے گزشتہ پانچ برسوں میں حکومت کی جانب سے کیا گیا ہر دعویٰ بے بنیاد تھا۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ اِس پورے عرصے میں در حقیقت غلط بیانی سے کام لیا جاتا رہا ہے۔ لہٰذا بحیثیت ووٹر قوم کے ہر بالغ فرد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں آزمائش میں پورا نہ اترنے والوں کو مسترد کرکے دوسروں کو موقع فراہم کرے۔ البتہ ماضی کے تجربات کے تناظر میں اب عوام کے پاس چُننے کے لئے زیادہ کچھ ہے بھی نہیں!
پاکستان پیپلز پارٹی کا گزشتہ دور حکومت خاص طور پر بجلی کے بحران پرملتے جلتے دعوئوں سے بھرا پڑا ہے۔ سندھ میں آج بھی پیپلز پارٹی بلا شرکت غیرے تنہا حکمران ہے لیکن صوبے بھر میں بجلی و پانی کی فراہمی کی صورتحال انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ اِن حالات میں عمومی طور پر پورے ملک اور خصوصی طور پر پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دینے یا نہ دینے کے حوالے سے ایک طرف خیبر پختونخوا میں گزشتہ پانچ برسوں میں پارٹی کی کارکردگی کو مدّنظر رکھا جاسکتا ہے اور دوسری طرف پنجاب اور دیگر صوبوں سے متعلق پارٹی کے مجوزہ ترقیاتی منصوبوں کا تجزیہ اَہم ہو سکتا ہے۔
گزشتہ دنوں پارٹی نے اپنے برسرِاقتدار آنے کی صورت میں پہلے سو دنوں کا ایجنڈا پیش کیا جس پر ملک کے مختلف حلقوں کی جانب سے متفرق رد عمل دیکھنے میں آیا۔ ایجنڈے میں درج چند اقدامات بظاہر ’’ابتدائی سو دنوں‘‘ کے حوالے سے غیر حقیقی معلوم ہوتے ہیں لیکن فہرست میں زراعت پر تحقیق و اصلاحات، نیب کی خود مختاری، اِقتصادی سفارت کاری، فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام، جنوبی پنجاب پر مشتمل نئے صوبے کا قیام، ٹیکس اصلاحات اور پاکستان اسٹیل کی بحالی یقیناً وہ معاملات ہیں جو برسوں سے توجہ طلب رہے ہیں۔ لہٰذا اگر پی ٹی آئی، اِقتدار میں آنے کی صورت میں، مذکورہ معاملات پر سنجیدہ اقدامات کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو ملک بلا شبہ ترقی کے اگلے دور میں قدم رکھ سکتا ہے۔ البتہ سیاسی فقرے بازیوں کی مایوس کن تاریخ کے تناظر میںپی ٹی آئی کے لئے ضروری ہے کہ وہ عوام پر ثابت کرے کہ یہ ساری باتیں محض انتخابی مہم کا حصہ نہیں ہیں۔
جہاں تک زرعی اصلاحات اور تحقیق کا معاملہ ہے، یقیناً اِس شعبے میں بہتری قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اگرچہ ٹیکس سے متعلق اصلاحات بھی اہم معاملہ ہیں لیکن ایجنڈے سے متعلق جہانگیر ترین اور اسد عمر کی متعلقہ تقاریر میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ٹیکس اور زراعت میں اصلاحات کے عمل میں زرعی ٹیکس متعارف کرانے پر اِن کی پارٹی کا کتنا زور ہوگا۔
ملک کی مجموعی پیداوار کا بڑا حصہ زراعت کے شعبے سے منسلک ہے لیکن اِس شعبے کو آج تک نامعلوم وجوہات کے سبب ٹیکس کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ معمہ ہے جسے گزشتہ سات دہائیوں میں کوئی منتخب یا غیر منتخب حکومت حل نہیں کرسکی۔ اِقتدار میں آنے کی صورت میں پی ٹی آئی کے پاس یہ ثابت کرنے کا سنہری موقع ہو گا کہ پارٹی کا جاگیرداروں اور معاملات کو جوں کا توں رکھنے والی قوتوں کے مفادات سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
ابتدائی سو دنوں کے دیگر ایجنڈوں میں بلوچستان کے داخلی معاملات کا مستقل حل اور وفاق میں بہتر گورننس بھی شامل ہیں۔ اِن حساس معاملات کا فوری حل تلاش کرلینا اِقتدار میں موجود کسی تجربہ کار سیاسی پارٹی کے لئے بھی آسان کام نہیں۔ بحیثیت اپوزیشن اب پی ٹی آئی اگرچہ ایک تجربے کار جماعت بن چکی ہے لیکن برسراقتدار پارٹی کے طور پر اس کا تجربہ خیبر پختونخوا میں اپنی موجودہ حکومت کے گزشتہ پانچ سالہ اقتدار تک محدود ہے۔ لہٰذا اِن معاملات پر قابل عمل حل تلاش کرنے کے لئے سیاسی روا داری، تحمل اور اتفاق رائے کا عمل دخل پی ٹی آئی کی بر سر اقتدار حکومت کی کامیابی کے لئے اہم ہوسکتا ہے۔ کام مشکل ہے لیکن سنجیدگی اور سیاسی شعور کے ذریعے یہ سب کچھ ممکن ہے۔ دوسری جانب، ایجنڈے میں شامل کراچی میں ٹرانسپورٹ کے بہتر نظام کے قیام، اوورسیز پاکستانیوں کے لئے انوسٹمنٹ کے مواقعے مہیا کرنا اور سی پیک پر عمل درآمد کے معاملات میں ملکی مفاد کو ترجیح دینا بھی پی ٹی آئی حکومت کی کامیابی کی ضمانت ہو سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے مذکورہ ایجنڈے پر اعلان کے لئے منعقدہ تقریب میں خاص رہ نمائوں کی جانب سے خاص شعبوں پر تفصیلات پیش کرنا بھی ایک دلچسپ پہلو رہا! شاہ محمودقریشی کی جانب سے داخلہ پالیسی اور شیریں مزاری کی جانب سے خارجہ پالیسی پرتفصیلی تقاریر پر چند حلقے اِن دونوں رہنمائوں کے مستقبل پر تجزیوں میں مصروف ہیں۔ خیال ہے کہ اِن رہنمائوں کو تقاریر کے موضوعات کے اعتبار سے پورٹ فولیو دیا جاسکتا ہے۔ خیال رہے کہ اسد عمر نے اِس موقع پر معیشت کے خدوخال بھی بیان کئے تھے۔ دوسری جانب یہ سوال بھی بنتا ہے نااہل قرار دیئے جانے والے جہانگیر ترین کی زرعی اصلاحات کے معاملات پر تقریر، سنجیدگی سے لی جاسکتی ہے یا نہیں!
پہلے سو دنوں میں ہائوزنگ کے معاملات میں بہتری کے لئے 50لاکھ فلیٹس تیار کئے جانے کی بات بھی بظاہر غیرسنجیدہ دکھائی دیتی ہے، یا پھر یہ صحیح طور پر بیان نہیں کی گئی۔ سو دنوں میں 50لاکھ فلیٹس کی تیاری کا مطلب روزانہ پچاس ہزار اور ہر گھنٹے میں دو ہزار سے زائد فلیٹس کی تیاری ہے۔ اگر یہ ایک سنجیدہ اعلان ہے تو سمجھ سے بالا تر ہے۔ کیوں کہ ہر گھنٹے میں دو ہزار سے زائد فلیٹس کی تیاری کے لئے غیر معمولی تعداد میں افرادی قوت، سازو سامان اور انفراسٹرکچر کہاں سے دستیاب ہوں گے!
اسد عمر نے اپنے خطاب میں نوکریوں کے ایک کروڑ مواقع فراہم کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ یہ ایک وضاحت طلب بیان ہے کیوں کہ نئے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل اور پرانے منصوبوں کے بہتر نتائج کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر صنعت کاری کے بغیر ایک کروڑ تو کیا ملازمت کے ایک لاکھ مواقع فراہم کرنا بھی ملک کی معیشت کے لئے عذاب ثابت ہو سکتا ہے۔ اسد عمر کو ذاتی طور پر جانتے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ اِن کے بیان کو غلط سمجھا گیا ہے! لیکن یہ صورتحال چاہے اندازِ بیان میں کسی ابہام کے سبب پیدا ہوئی ہو یا پھر یا میڈیا رپورٹنگ کے عمل میں کسی جھول کی وجہ سے، اِس پر فوری وضاحت بہرحال ضروری ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین