دُنیا بھر کے تعمیرات کے ماہرین کا مؤقف ہے کہ اگر فلک بوس عمارتوں میں ردھم نہ ہوتا تو کئی عمارتیں وقت سے پہلے ہی زمین بوس ہو جاتیں اسی لئے سقراط نے بھی تعمیرات میں توازن، سمت اور تناسب پر زور دیا تھا۔ دائرہ، مثلث، مربع، مستطیل، اقلیدس (جیومیٹری) کی ایسی اشکال ہیں جو بظاہر تجدیدی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن ان میں ریاضی کی موسیقی جسے موسیقار اپنے گانوں اور راگوں میںبھی استعمال کرتے ہیں بلکہ کائنات ردھم پر کھڑی ہے سائنس دان کہتے ہیں۔ اگر جس ردھم اور توازن پر چاند تارے زمین اور کائنات ایک دوسرے کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ان میں اگر مالیکول برابر بھی فرق آجائے تو کائنات درہم برہم ہو جائے۔ کیونکہ ریاضی میں بھی موسیقی کے سر چھپے ہوتے ہیں اس لئے بعض جمالیاتی تعمیراتی اسٹرکچر مثلاً سڈنی کا ’’اوپرا ہائوس‘‘ محو رقص نظر آتا ہے۔ ثابت ہوا کہ ردھم پرکائنات قائم ہے۔
اسٹرکچرل انجینئر اقلیدس اور ریاضی کا شاعر ہوتا ہے
ماہرین تعمیراتی تاریخ اقوام عالم میں لکھتے ہیں اور یہ رائے ان کی متفقہ ہے کہ اسٹرکچرل انجینئر اقلیدس (جیومیٹری) اور ریاضی کا شاعر ہوتا ہے۔ اسٹرکچرل انجینئرنگ، سول انجینئرنگ کا ایسا شعبہ ہے جو ایسے ڈیزائن کا تجزیہ کرتا ہے جو وزن کی مزاحمت کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ وزن کو سپورٹ دیتا ہے۔ وزن بے وزن ہو عمارت کا اسٹرکچر مزاحمت کرتا ہے اور اسٹرکچرل انجینئر اسے توازن میں لاتا ہے۔ اسٹرکچرل انجینئرنگ کو سول انجینئرنگ کا شعبہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کی الگ حیثیت کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسٹرکچرل انجینئر زیادہ تر عمارتوں کے ڈیزائن کی تشکیل کرتے ہیں۔ عمارتوں کے علاوہ بھی اسٹرکچرز بناتے ہیں۔ مثلاً مشینری، میڈیکل ساز و سامان اور وہیکلز وغیرہ یا کوئی پروڈکٹ یا آئٹم جہاں اسٹرکچرل وقار خطرے میں ہو یا تحفظ کا مسئلہ پیدا ہو جائے اس وقت صرف اسٹرکچرل انجینئر ہی یقین دلا سکتا ہے کہ ڈیزائن کتنا پائیدار اور محفوظ ہے مزیدیہ کہ ڈیزائن کی مبادیات کیا ہیں۔ یہ یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ عمارت کتنے عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہے تاکہ رہائش پذیر لوگوں کو عمارت میں رہنے میں کوئی تکلیف محسوس نہ ہو۔
اسٹرکچرل انجینئر کا نظریہ فزیکل لاء اور تجرباتی علم پر مبنی ہوتا ہے
اسٹرکچرل انجینئرنگ کا نظریہ فزیکل لاء اور تجرباتی علم پر مبنی ہوتا ہے یعنی مختلف لینڈ اسکیپ اور میٹریل کی کیا کارکردگی اور سروس کس نوعیت کی ہوتی ہے اور کتنی پائیدار ہوتی ہے۔ اب تو دُنیا میں ڈیجیٹل تعمیرات کا اجراء بھی ہو گیا ہے اور عجیب و غریب زاویئے والی تعمیرات ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ لیکن اس کے معنی ہر گز نہیں کہ قدیم زمانے کے لوگ بغیر یونیورسٹیوں کے بادشاہوں کے درباروں میں معمار بیٹھے ہوتے تھے جو اپنی دانائی اور وژن سے تاج محل اور اہرام مصر جیسے عجوبات بنا چکے ہیں۔ لوگ یہ نہ سمجھیں قدیم زمانے میں ہنرمندی کم تھی اندازہ کیجئے ایسے مصور گزرے ہیں جو اجنتاکی غاروں میں رہ کر اندھیروں میں ایسی پینٹنگ کے شاہکار بنا چکے ہیں۔ جسے دیکھنے کیلئے دنیا بھر سے فن کار اور فن کے دلدادہ سیاحت کی غرض سے جاتے ہیں۔ اسٹرکچرل انجینئر صرف عمارت کے ڈیزائن، ردھم، توازن، تناسب سمت اور تحفظ کا ضامن ہی نہیں ہوتا بلکہ عمارت پر فنڈز کے استعمال کو بھی بڑی دانائی اور تخمینہ کاری سے استعمال کرتا ہے۔ میٹریلز استعمال کرنے کا اس کا اپنا ہی سلیقہ اور انوکھا طریقہ کار ہوتا ہے۔
قدیم دانش گولڈن اسپائرل پرمبنی تھیOLDEN SPIRALپراور تعمیرات
جب یورپ میں تاریک دور کا خاتمہ ہوا تو اقلیدس کی ایک قدیم مگر دانش پر مبنی نظری تجدید کو حقیقت میں بدلنے کیلئے کام ہوا اسے گولڈن اسپائرل کہتے ہیں یہ کائنات کے اندر گھونگھوں، پھولوں، پنکھڑیوں، پتیوں، ریت، کہکشائوں سے لے کر موسیقی اور مصوروں کے رنگوں میں رقصاں نظر آتا ہے۔ یہ تعمیرات میںبھی ردھم اور تناسب کو قائم رکھتا ہے۔ عصر حاضر میں 3Dوغیرہ میں بھی اسی سے اخذ کردہ عجوبات نظر آتے ہیں۔ تاہم اس تناسب کو دو پر تقسیم نہیں کر سکتے۔ اس کی ریاضی میں عددی شکل 22/2کے تناسب کو ظاہر کرتی ہے۔ اس تناسب کا موجد فیبوناچی (Fibonacci) ہے یہ اعداد کی اقلیدس اسی کی دریافت ہے۔ بڑے آرکیٹیکٹس اور مصوروں نے اسی تناسب کو اپنی شاہکار پینٹنگ اور عمارتی ڈیزائن میں سھی سمویا، ان مصوروں میں رافیل، مائیکل اینچلو، لیوناڈوینچی قابل ذکر ہیں۔ فیبوناچی کے اعداداسٹرکچرل انجینئر کا مرکزی خیال ہیں۔
اسٹرکچرل انجینئر اور آرکیٹیکٹ کو پہلے ماسٹر بلڈرز کہتے تھے
کسی بھی عمارت میں شہتیر (Beams)ہوں یا ستون (Columns) ہوں یا پھر فرش بنانے سے مذکورہ معمار ابتدا کریں جسے تکنیکی زبان میں انٹری لیول بھی کہتے ہیں۔ تجربہ کار انجینئرز اور آرکیٹیکٹس پورے تعمیراتی عمل کی ذمہ داری خود لیتے ہیں۔ تاریخ کا مشاہدہ کریں تو اسٹرکچرل انجینئرنگ فطری طور پر بعض انسانوں کے ذہن میں موجود تھی۔ یہ صنعتی انقلاب کے بعد زیادہ ہمہ گیر شعبہ ہو گیا۔ جب آرکیٹیکچر کا فن اُبھر کر سامنے آیا۔ قدیم زمانے میں یہ دونوں شعبے یکجائی کی صورت میں تھے دونوں کی آمیزیش کو ماسٹر بلڈرز کہتے تھے۔ جب اسٹرکچرل انجینئرنگ کا نظری ادراک کتابوں کی شکل میں آیا تو19 ویں صدی کے اوّاخر اور 20ویں صدی کے آغاز میں پروفیشنل اسٹرکچرل انجینئر وجود میں آیا تب آرکیٹیکچر کا شعبہ الگ ہو گیا۔ اسٹرکچرل انجینئرنگ کا آج جو رول ہے۔ اس میں اہمیت کا حامل Staticاور Dynamicلوڈنگ ہے ان کے اُردو زبان میں متبادل الفاظ نہیں ہیں۔
اسٹرکچرل انجینئرنگ کا تاریخی جائزہ
اسٹرکچرل انجینئرنگ کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو یہ کوئی2700قبل از مسیح سے اس کا سلسلہ ملتا ہے جب اہرام مصر فرعون نے تعمیر کرائے پہلے انجینئر کا نام اِمہٹوپ(Imhotep)تھا جس نے اہرام مصر تعمیر کئے۔ اہرام مصر مخروطی طرز تعمیر قدیم تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں جو نہایت پائیدار اور مضبوط ہیں۔ جنہیں دُنیا صدیوں سے دیکھنے آتی ہے۔ ان میں جسامت اور وزن کا انوکھا توازن ہے۔ ان کے وزن اور جسامت کو گھٹایا یا بڑھایا نہیں جا سکتا ازمنہ وسطیٰ کی تاریخ میں زیادہ تر آرکیٹیکچرل ڈیزائن اور تعمیرات دست کاروں کی ہے جن میں راج مستری اور ترکھان بھی شامل تھے۔ ترکھان تو عظیم پینٹر پکاسوکی طرح کیوبک آرٹ کے نمونے فرنیچر اور دیگر لکڑی کی اشکال میں آج تک تخلیق کر رہے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں انہیں وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا جس کے وہ مستحق ہیں۔ معمار تو قبل از مسیح کے دور سے موجود تھے۔ تاہم اسٹرکچرل انجینئر کے پیشے کا آغاز صنعتی دور کے بعد ہوا۔ اس دور میں کنکریٹ کو از سر نو دریافت کیا گیا۔ صنعتی انقلاب سے اب تک اسٹرکچرل انجینئر میں ترقی کا ارتقاء جاری و ساری ہے۔