• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچپن میں ایک کہانی سنتے تھے کہ ایک شخص بازار جاتا ہے اور انڈوں کی ٹوکری خرید کر اسے سر پر رکھ کر گھر کا رخ کرتا ہے ، راستے میں خیالوں کی دنیا میں جا پہنچتا ہے، سوچتا ہے کہ ان انڈوں کو فروخت کرکے منافع سے موصول شدہ رقم سے ایک مرغی خرید لونگا، جو انڈے دے گی، انڈوں سے چوزے نکلیں گے اور پھر اس طرح کافی ساری مرغیاں ہوجائیں گی جنہیں بیچ کر ایک بکری خرید لونگا، جو بچے جنے گی، دودھ بھی فروخت کرونگا، یوں بڑھتے بڑھتے ایک ریوڑ بن جائے گا، یہ ساری بکریاں  فروخت کرکے گائے لے لونگا، یوں ایک عرصے بعد اتنے مویشی ہوجائیں گے کہ میں ایک ٹیکسی خریدلونگا، ٹیکسی چلاتے چلاتے، میں شادی کرنے کے قابل ہوجائو ں گا، شادی کے بعد ایک پیارا پیارا بچہ پیدا ہوگا، پھر وہ اتنا بڑا ہوجائے گا کہ جب میں ٹیکسی چلانے کے بعد تھکا ہارا گھر لوٹ آئونگا ، تو دروازے کے پاس یہ کھڑا میرا لختِ جگر بھاگتا ہوا، میرے پاس آئے گا، اپنی بانسری والی سروں کی زبان میں پکارے گا، بابا جان... بابا جان.....جس پر میں ہاتھ وا کرتے ہوئے فرطِ جذبات سے پکاراٹھوں گا، میں تیرے قربان... اور اسے سینے سے لگا لونگا.....مگروائے افسوس .....جب وہ سر پر رکھی ٹوکری سے جیسے ہی ہاتھ چھڑا کربچے کو تیرے قربان کہنے کے لیے ہاتھ فراخ کرتا ہے تو ٹوکری دھڑام سے نیچے آ گرتی ہے... اتنے میں قریب سے گزرتے ہوئے دوسرا شخص کہتا ہےکیا ہوا؟ پہلے والا شخص ٹوٹے ہوئے انڈوں کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ میرے خوابوں کا شیش محل کرچی کرچی ہوکر بکھر گیا ہے، اور تم کہتے ہو کہ کیا ہوا!!
اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی اکثر وزارتِ عظمیٰ کے امیدواروں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ پھر عمران خان کے خوابوں کا نشیمن تو ’کم از کم‘ دو مرتبہ تہہ خاک ہوچکا۔ جاننے والے بتاتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں تو عمران خان صاحب باقاعدہ اور سلیقے سے (ان دنوں کی طرح) شیروانی بھی سلوا چکے تھے اور جب جی ایچ کیو میں اس تاج کے اہل رجلِ رشید بطلِ زمین کا فیصلہ ہورہا تھا تو کپتان صاحب بن سنور کر خوشخبری کے منتظر تھے کہ قرعہ فال جبل شاہ (جناب ظفراللہ جمالی )کے نام نکل آیا۔ دوسری مرتبہ 2013کے انتخابات کے حقیقی نتائج کا موقع بتایا جاتا ہے، جب کچھ کا کچھ ہوگیا۔ خدا نہ کرے کہ اب ایسا ہو!اور نہ ہی ہم نے یہ کہانی اس خاطر سنائی کہ خدانخواستہ پھر کہیں ایسے خدشات منڈ لارہے ہیں۔ عرض کرنا یہ تھا کہ یہ جو میاں نواز شریف نعرہ زن ہیں کہ ووٹ کو عزت دو....تو شاید انہیں دیر سے سہی مگر یہ خیال تو آیا کہ پاکستان میں آج تک وہی نہیں ہوا جو ووٹ دینے والے عوام نے سوچا....باالفاظ دیگر ووٹ کی حرمت کئی طرح سے پامال ہوتی رہی ہے۔ ایک تو اسی صورت میں جس کی جانب میاں صاحب کا اشارہ ہے۔ بنابریںووٹ کی پامالی متعدد طریقوں سے خود سیاستدان بھی کرتے رہے ہیں۔ عوام ایک مقصد یعنی عوامی و قومی حیات سدھارنے کے لئے ووٹ دیتے ہیں۔ لیکن سیاستدان اقتدار میں آکر اپنی گروہی ، جماعتی و طبقاتی زندگی کو دوام دینے کی خاطر سرگرم ہوجاتے ہیں۔ اکثر نام نہاد سیاستدانوں کا تو یہ وتیرہ ہے کہ وہ جس جماعت کے نام پر عوام سے ووٹ لیتے ہیں، منتخب ہونے کے بعدوہ اس نشست کو جب چاہتے ہیں مال بنانے اور کرسی ہتھیانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جس کے لیے معروف اصطلاح لوٹا کریسی مستعمل ہے۔ ایسے عالم میںجب خود سیاستدان ووٹ کے تقدس کا خیال نہیں رکھتے تو دوسروں کو بھی اس ووٹ کے استحصال کا موقع مل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والے کسی بھی انتخاب کو شفاف قرار نہیں دیا جاسکا۔ 1970کے انتخابات کو آج تک شفاف ترین کہا جاتا ہے لیکن ان انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرکے ان انتخابات کی شفافیت کو بھی داغدار کیا گیا۔ سیاستدانوں کو بار ہا ایسے مواقع ملے کہ وہ ووٹ کو پائیدار عزت کی خاطر فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے تھے، لیکن ایسے مواقع کو انہوں نے جعلی مینڈیٹ حاصل کرنے کی خا طر گنوا دیا۔ یوں آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سیاسی طورپر کوئی یقینی صورت حال پیدا ہو۔ معروضی حالات کے تناظر میں اگرچہ واضح ہے کہ انتخابی نتائج کیا ہوسکتے ہیں، لیکن مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے چونکہ وہی کچھ کیا جارہا ہے جو اس ملک کی روایت ہے، لہٰذا غیر یقینی پھر بھی موجود ہے۔
آپ بھی ہماری طرح یہ سنتے ہوں گے کہ نہ جانے تحریک انصاف کو اکثریت مل جانے کے بعد عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ کا قلمدان سپرد ہوسکے گا یا نہیں! موجودہ صورت حال یہ ہے کہ وہ موسمی پرندے جن کی وجہ سے سیاست خدمت کی بجائے نہ جانے کیا کیا ناپسندیدہ چیزوں سے موسوم ہوچکی ہے، آئے روز اُڑ کر تحریک انصاف کی رکابی کے گرد جمع ہورہے ہیں ۔خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کا دور دور تک کوئی مد مقابل نہیں ، سندھ میں بھی یہ جماعت کچھ کارکردگی کی حامل ہوسکتی ہے۔ پنجاب پر قبضے کا پلان بھی کہا جاتا ہے کہ قومی اسمبلی کی سطح پر حتمی شکل اختیار کرنے والا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلم لیگ کو ’ناپسندیدہ‘ قرار دیئے جانے کے بعد تحریک انصاف ہی کا سورج ابھرتا ہوا نظرآرہا ہے، لیکن جیسا کہ کہا گیا کہ اس کے باوجود عمران خان کے حوالے سے  غیر یقینی ہے...! کوئی کسی ملک کی جانب سے کلیئرنس نہ ملنے کی بات کرتا ہے۔ کوئی کہتا ہے  کہ اگر سینٹ میں ایک نشست کے بل بوتے پر کوئی چیئرمین بن سکتا ہے تو قومی اسمبلی میں کیا سے کیا ’کیوں‘ نہیں ہوسکتا!
مزید یہ کہ اگرچہ موجودہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کرچکی ہے ،اور عام انتخابات کے لئے تمام تیاریاں بھی دیکھنے میں آرہی ہیں، اس کے باوجود بعض لوگوں کو یہ وہم لاحق ہے کہ آیا انتخابات وقت پر ہونگے بھی یا نہیں؟ کاش سیاستدان کبھی اس جانب بھی نظرِ کرم کرلیں کہ وطن عزیز میں بظاہر سب کچھ ٹھیک نظر آنے کے باوجود غیر یقینی کیوں ہمیشہ برقرار رہتی ہے!!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین