میر حسین علی امام
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کی آخری اُمید، ریاست حیدر آباد دکن تھا،جہاں شمالی ہند سے جدا مختلف حکومتیں قائم رہیں۔ مثلاً قطب شاہی، بہمنی سلطنت وغیرہ۔ ان سلاطین نے علم و ادب کی ہمیشہ سرپرستی کی قطب شاہی سلطنت کے بعد دکن کےمغل فرمانروا، اورنگ زیب عالمگیر کی سلطنت میں شامل ہوگیا لیکن 1707ء میں اورنگ زیب کی وفات کے بعد دہلی کی سلطنت کا شیرازہ بکھرنا شروع ہوا اور 1724ء میں دکن کے صوبے دار آصف جاہ اول نے دکن میں آصفیہ سلطنت کی بنیاد ڈالی۔
آصف جاہ اول میر قمر الدین ایک اچھے سپہ سالار تھے۔ آپ نے دکن میں نظم و نسق قائم کیا۔ ان کے بیٹے میر نظام علی خان نے سلطنت کی توسیع کی۔ انگریزوں سے معاہدے کیے۔ ان کی شہرت کی وجہ سے یہ خاندان نظام دکن کے نام سے بھی مشہور ہوا۔
میر محبوب علی خان، اس خاندان کے چھٹے حکمران تھے۔ اُنہوں نے فارسی کے بجائے اردو کو سرکاری زبان بنایا اور حیدر آباد کا اپنا سکہ جاری کیا۔ آپ نے 50 سال سے زیادہ حکومت کی اور نظام تعلیم کےلیے کالج، مدرسےاور دارالعلوم وغیرہ قائم کرکے جدید علوم اور اسلامی علوم کی خدمت کی۔ سرسید کی تحریک میں بھی انہوں نے مدرسہ علی گڑھ جو بعد میں ایم اے او کالج اور پھر علی گڑھ یونیورسٹی بنی ،اس میںہمیشہ علی گڑھ کی سرپرستی کی۔ 28؍اگست1911ء کو میر محبوب علی خان کے بیٹے میر عثمان علی خان آخری اور ساتویں بادشاہ مقرر ہوئے۔ آپ کا عہد برصغیر اور حیدرآباد کا زریں عہد تھا۔ آپ نے جلیل مانکا پوری، داغ دہلوی، نظم طباطبائی، جوش ملیح آبادی، عبدالحلیم شرر، غرض علوم و فنون کے تمام ستاروں کو اپنے دربار میں جگہ دی۔ 28؍ اگست 1917ء کو جامعہ عثمانیہ کے چارٹر پر دستخط کیے۔ برصغیر میں، اردو کی پہلی یونیورسٹی قائم ہوئی۔ 1919ء میں نئی عمارت موجودہ عمارت مکمل ہوئی ،بعدازاں اس کاافتتاح ہوا۔ مناظر احسن گیلانی، حضرت عبدالقدیر صدیقی، عبدالحکیم وغیرہ اس میں شامل ہوئے۔ انگریزی سے سائنسی، معاشی، سماجی علوم کے لیے دارا لترجمہ کا قیام عمل میں آیا، تقریباً 400 سے زائد اہم قیمتی جدید علوم پر کتابوں کو اردو میں منتقل کیا گیا اور مامون الرشید کے دارالحکمت کی یاد تازہ کی گئی۔ آصفیہ کتب خانہ تعمیر کیا گیا۔ جامعہ نظامیہ درس نظامی کی درس گاہ قائم کی گئی۔ نظامیہ طبیہ کالج قائم کیا گیا اور مشرقی طب کو فروغ دیاگیا۔ جامعہ عثمانیہ میں انٹر، بی اے کے بعد ایم اے، ایل ایل بی، انجینئرنگ، میڈیکل کی بھی تعلیم ہونے لگی۔
جامعہ عثمانیہ کو قائم ہوئےسو سال ہوگئے، لیکن اس کی صد سالہ جشن کے حوالے سے معاشرہ میں خاموشی طاری ہے! اس کے 75سالہ پلاٹینم جوبلی تقریبات میں ہم بھی شریک تھے۔
میر عثمان علی خان نے پورے برصغیر کے اسلامی، تعلیمی اور سماجی اداروں کی سرپرستی کی۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی،جب علی گڑھ یونیورسٹی بنی تو اُن کواس کا پہلا چانسلر منتخب کیا گیا۔ سلطان العلوم کی ڈگری عطا کی گئی۔ 1920ء میں علی گڑھ یونیورسٹی بنی تھی۔ اولڈ بوائز علی گڑھ والے جب علی گڑھ کی صد سالہ سالگرہ 2020ء میں منائیں تو حیدرآباد کے اس درویش، سخی سلطان العلوم میر عثمان علی خان کو بھی یاد رکھیں۔
میر عثمان علی خان نے مدینہ میں مسجد نبوی، خانہ کعبہ میں پہلے جنریٹر نصب آلہ بجلی فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ ملک میں رباط سرائے بنائی، جس میں برصغیر کے حاجیوں کے قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔ حیدرآباد میں ایک ہوٹل، بلڈنگ مدینہ مینشن بنائی اورایک ٹرسٹ بنایا، اس کی آمدنی سے مکہ، مدینہ اور حاجیوں کے اخراجات پورے ہوتے تھے۔ 1919ء میں تحریک فلائٹ شروع ہوئی۔ مولانا شوکت علی کے کہنے پر میرمحبوب علی نے معزول خلیفہ ترکی سلطان عبدالحمید کی صاحبزادیوں کی شادیاں اپنے بیٹوں سے کیں اور سلطان کا بھی وظیفہ مقرر کیا۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستان کو 20 کروڑ روپے کا عطیہ دیا، تاکہ یہاں کے اخراجات سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا ہوں۔ حیدر آباد کےعوام اور حیدرآباد ٹرسٹ کے لیے بھی معقول رقم عطا کی، جس سےمہاجروں کی آبادکاری اور روزگار آسان ہوا۔12 ستمبر 1948ء کو انڈیا نے ریاست پر حملہ کیا اور17ستمبر کو قبضہ کیا۔ 26فروری 1967ء کو آپ کا انتقال ہوا۔
آپ کے جنازے میںتقریباً پورا حیدر آباد شامل ہوا۔ انگریز اخبارات کے صحافی حیراں رہ گئے اور سرخی لگائی کہ اس ملک میں جمہوریت کیسے آسکتی ہے، جس میں 25 سال گزرنے کے باوجود بادشاہ کو یاد کیا جاتا اوراس کا احترام کیا جاتا ہو۔ ایسے موقع پر مجھے نواب بہادر یار جنگ کا تاریخی جملہ یاد آتا ہے۔ وہ کہتے تھے’’ اعلی حضرت میر عثمان علی خان کی بادشاہت آج کل کی جمہوریت سے سو گنا بہتر ہے۔‘‘
میر عثمان علی خان نے دلوں پر حکومت کی، درویشی کی ،لیکن علوم کی سرپرستی کی۔ جامعہ عثمانیہ، جامعہ نظامیہ دارالترجمہ، آصیفہ کتب خانہ قائم کیا۔ ہزارہا لوگوں کو وظائف دیئے۔ آپ کی سرپرستی کے حوالے سے ڈاکٹر دائود اشرف اور پروفیسر شفقت رضوی کی کتب گواہ ہیں، جن میں دستاویزات کے ثبوت کے تحت بتلایا گیا کہ ہزارہا علماء اورمشاہیرکو سرکاری خزانے سے امدادی دی جاتی تھی۔ ہزارہا مدرسوں کا مالی تعاون کیا جاتا تھا۔
آج ملک پاکستان کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ تعلیمی ، اخلاقی زبوں حالی عروج پر ہے۔ کرپشن ہے، نجی تعلیمی ادارے لاکھوں کی فیس مانگتے ہیں، سرکاری تعلیمی اداروں میں چوری عام ہے۔ ایسے میں تعلیم کا حصول کیسے ممکن ہو۔ آج بھی لوگ سلطان العلوم اور سرسید جیسے اشخاص کے منتظر ہیں۔
تاریخِ حکم رانِ ہندوستان
غوری سلطنت سے نریندر مودی تک
غوری سلطنت
1 = 1193 محمد غوری
2 = 1206 قطب الدین ایبک
3 = 1210 آرام شاہ
4 = 1211 التتمش
5 = 1236 رکن الدين فیروز شاہ
6 = 1236 رضیہ سلطان
7 = 1240 معیزالدین بہرام شاہ
8 = 1242 الہ دين مسعود شاہ
9 = 1246 ناصرالدين محمود
10 = 1266 غیاث الدین بلبن
11 = 1286 رنگ كھشرو
12 = 1287 مذدن كکےکباد
13 = 1290 شمس الدین كکےمرس
غوری سلطنت اختتام
(دور حکومت -97 سال تقریبا)
 خلجي سلطنت
1 = 1290 جلال الدین فیروز خلجی
2 = 1292 الہ دین خلجی
4 = 1316 شھاب الدین عمر شاہ
5 = 1316 قطب الدین مبارک شاہ
6 = 1320 ناصر الدین خسرو شاہ
خلجی سلطنت اختتام
(دور حکومت -30 سال تقریبا)
 تغلق سلطنت
1 = 1320 غیاث الدین تغلق (اول)
2 = 1325 محمد بن تغلق (دوم)
3 = 1351 فیروز شاہ تغلق
4 = 1388 غیاث الدین تغلق (دوم)
5 = 1389 ابوبکر شاہ
6 = 1389 محمد تغلق (سوم)
7 = 1394 الیگزینڈر شاہ (اول)
8 = 1394 ناصر الدین شاہ (دوم)
9 = 1395 نصرت شاہ
10 = 1399 ناصرالدين محمدشاہ (دوم)
11 = 1413 دولت شاہ
تغلق سلطنت اختتام
(دور حکومت -94 سال تقریبا)
 سعید سلطنت
1 = 1414 كھجر خان
2 = 1421معیزالدین مبارک شاہ (دوم)
3 = 1434 محمد شاہ(چہارم)
4 = 1445 الہ دين عالم شاہ
سعید سلطنت اختتام
(دور حکومت -37 سال تقریبا)
لودھی سلطنت
1 = 1451 بھلول لودھی
2 = 1489 الیگزینڈر لودھی (دوم)
3 = 1517 ابراہیم لودھی
لودھی سلطنت اختتام
(دور حکومت -75 سال تقریبا)
مغلیہ سلطنت
1 = 1526 ظہیرالدين بابر
2 = 1530 ہمایوں
مغلیہ سلطنت اختتام
سوري سلطنت
1 = 1539 شیر شاہ سوری
2 = 1545 اسلام شاہ سوری
3 = 1552 محمود شاہ سوری
4 = 1553 ابراہیم سوری
5 = 1554 پرویز شاہ سوری
6 = 1554 مبارک خان سوری
7 = 1555 الیگزینڈر سوری
سوری سلطنت اختتام
(دور حکومت -16 سال تقریبا)
مغلیہ سلطنت دوبارہ
1 = 1555 همايوں(دوبارہ گدی نشین)
2 = 1556 جلال الدين اکبر
3 = 1605 جہانگیر سلیم
4 = 1628 شاہ جہاں
5 = 1659 اورنگزیب
6 = 1707 شاہ عالم (اول)
7 = 1712 بہادر شاہ
8 = 1713 پھاروکھشير
9 = 1719 ريپھد راجت
10 = 1719 ريپھد دولا
11 = 1719 نےکشييار
12 = 1719 محمود شاہ
13 = 1748 احمد شاہ
14 = 1754 عالمگیر
15 = 1759 شاہ عالم
16 = 1806 اکبر شاہ
17 = 1837 بہادر شاہ ظفر
مغلیہ سلطنت اختتام
(دور حکومت -315 سال تقریبا)
برطانوی راج
1 = 1858 لارڈ كینگ
2 = 1862 لارڈ جیمز بروس یلگن
3 = 1864 لارڈ جھن لورےنش
4 = 1869 لارڈ رچارڈ میو
5 = 1872 لارڈ نورتھبک
6 = 1876 لارڈ ایڈورڈ لٹےن
7 = 1880 لارڈ جيورج ریپن
8 = 1884 لارڈ ڈفرین
9 = 1888 لارڈ هنني لےسڈون
10 = 1894 لارڈ وکٹر بروس یلگن
11 = 1899 لارڈ جيورج كرجھن
12 = 1905 لارڈ گلبرٹ منٹو
13 = 1910 لارڈ چارلس هارڈج
14 = 1916لارڈ فریڈرک سےلمسپھورڈ
15 = 1921 لارڈ رس ايجے رڈيگ
16 = 1926 لارڈ ایڈورڈ ارون
17 = 1931لارڈ پھرمےن وےلگدن
18 = 1936 لارڈ اےلے جد لنلتھگو
19 = 1943 لارڈ اربالڈ وےوےل
20 = 1947 لارڈ ماؤنٹ بیٹن
برطانوی سامراج اختتام
بھارت، وزرائے اعظم
1 = 1947 جواہر لال نہرو
2 = 1964 گلزاری لال نندا
3 = 1964 لال ب ادر شاستری
4 = 1966 گلزاری لال نندا
5 = 1966 اندرا گاندھی
6 = 1977 مرارجی ڈیسائی
7 = 1979 چرن سنگھ
8 = 1980 اندرا گاندھی
9 = 1984 راجیو گاندھی
10 = 1989 وشوناتھ پرتاپسہ
11 = 1990 چندرشیکھر
12 = 1991 پيوينرسہ راؤ
13 = 1992 اٹل بہاری واجپائی
14 = 1996 ےچڈيدےوگوڑا
15 = 1997 ايل كےگجرال
16 = 1998 اٹل بہاری واجپائی
17 = 2004 منموھن سنگھ
18 = 2014 نریندر مودی
764 سالوں تک مسلم بادشاہت ہونے کے باوجود بھی ہندو، ہندوستان میں باقی ہیں۔مسلمان حکمرانوں نے کبھی بھی ان کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کیا اور ہندوؤں کو اب تک 100 سال بھی نہیں ہوئے اور یہ مسلمانوں کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں۔