• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاحت یا کچرا پھیلانے کا مشن؟

شمیم الدین غوری

پاکستان کے شمالی علاقہ جات خوبصورت پہاڑی علا قوں پر مشتمل ہیں۔دنیا کے اونچے ترین چودہ پہاڑی سلسلے جو آٹھ ہزار میٹر کے قریب یا اس سے زیادہ بلند ہیں ان میں سے تین پاکستان میں موجود ہیں ۔سلسلہ قراقرم میں دنیا کی بلند ترین چوٹی کے ٹو 8611میٹر بلند ہے۔سلسلہ کو ہمالیہ میں نانگا پربت کی مشہور ترین اور دنیا کی خوبصورت ترین چوٹی واقع ہے جو 8126 میٹر بلند ہے۔کوہ ہندو کش سلسلے کی ترچ میر چوٹی 7690 میٹر اونچی ہے۔دنیا کے تین بڑے گلیشئرز سیاچین بالتورو اور بیافو یہاں واقع ہیں۔خوبصورتی میں راکا پو شی ، کنکو رڈیا اوردیگر گلیشئرز کا کو ئی ثانی نہیں۔خوبصورت جھیلیں، چشمے، جھرنے، جنگلات، پھلوں سے لدے باغا ت،ناگن جیسی بل کھاتی سڑکیں،نیشنل پارکس،سڑکوں پر شرارتیں کرتے بندر،پرفضا اور خوبصورت مقامات، در یا ؤ ں پر معلق پل اور آر پار جانے والی حیرت انگیز ٹرالیاں سیاحوں کے لئے بے انتہا پر کشش ہیں۔ شمالی پاکستان میں سیاحت کا موسم شروع ہو گیا ہے۔موسم گرما کی تعطیلا ت کاسب لوگ انتظار کرتے ہیں۔خاص طورپربچے بہت پر جوش ہوتے ہیں کہ پہاڑ ،دریا، چشمے ،قدرتی نظا ر ے،آبشاریں،جنگلات،پہاڑ، جنگلی پھول دیکھنے کو ملیں گے۔ موسم کے تازہ پھل ناشپاتی،آڑو،خوبانی ،آلو بخارے،اخروٹ وغیرہ نہ صرف بازار سے کھانے کو ملیں گے بلکہ بعض مقامات پر درخت سے توڑ کے کھانے کا بھی مزہ لیں گےاور گٹھلیاں پہاڑیوں سے پھینکنے کا مقابلہ کریں گے۔موسم گرما کی چھٹیاں ہوتے ہی اندرون ملک سے گاڑیاں بھر بھر کر شمالی پہاڑی علاقوں میں روانہ ہو جائیں گی۔ اسلام آباد، مری ایبٹ ،آباد،کاغان ناران،گلیات، ،سوات ، چترال،آزاد کشمیر ، شند و ر ، کا لا م ،گلگت اور دیگر علاقوں میں سیاحوں کا رش جنگل میں منگل کر دے گا۔ملکی اور غیر ملکی ٹریکر اور کوہ پیما کھرپا پورٹرں کو لے کر کے ٹو،بالتر اور دیگر گلیشئرز دیکھنے روانہ ہو جائیں گے۔کسی کا رخ راکا پوشی ہوگا تو کوئی قراقرم کی جانب رواں دواں ہوگا۔پہاڑوں کی ایک اپنی کشش ہے جس کے لوگ دیوانے ہوتے ہیں۔

دنیا بھر میں سیاحتی مقامات پر سیاحوں کا پھیلایا ہوا کچرا ایک مسئلہ ہے۔مقامی آبادی سے جب اچانک دس بیس گنا زیادہ سیاح علاقے میں آجائیں گے تو مسئلہ تو پیدا ہوگا۔مغربی سیاح ایک دن میں ایک کلو ،جب کہ امریکن سیاح ایک دن میں دو کلو کچرا پھینکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ما حو لیا تی پروگرام کے ادارے کے مطابق سیاحتی مقامات پر سیا ح سال بھر میں اڑتالیس لاکھ ٹن کچرا پھینکتے ہیں۔ دنیا میں کچرے کا چودہ فی صد حصہ سیاحوں کا پھینکا ہوا ہوتا ہے ،جب کہ اسلام آباد میں کچھ دن کے دھرنے کے بعد پچاس ٹن کچرا میونسپلٹی نے اٹھایا تھا۔پاکستان کےسیاحتی مقامات میں سیاحوں کی پھیلائی ہوئی آلودگی ایک مسئلہ ہے ۔ ویسے تو دنیا بھر کے سیاحتی مقامات پر کم یا زیادہ آلودگی کا مسئلہ موجود ہے لیکن پاکستان میں یہ مسئلہ کچھ زیادہ ہی شدت اختیار کر گیا ہے ۔ ہمارے خو بصو ر ت قدرتی نظارے، جنگل، برفانی چوٹیاں، لینڈ اسکیپ اپنی قدرتی خوبصورتی شاپنگ بیگز اور دیگرفالتو اشیاء کی مو جودگی سے گنوا رہے ہیں۔بعض مقامات پر در خت میں شا پنگ بیگ پھلوں کی طرح لٹک ر ہے ہو تےہیں ۔جنگلوں ،دریاؤں ،نہروں،اور سمندر میں ان اشیاء کی موجودگی جنگلی اور بحری حیات کو نقصان پہنچا رہی ہیں ۔ سیاحوں میں کچھ تو ایسے ہیں جو سیاحتی کلبوں ،انجمنوں ،اور گروپوں کے ممبر ہوتے ہیں ۔ان میں ٹورسٹ ،ٹریکر،کوہ پیما،سیلانی ،بائیکرس وغیرہ شامل ہیں۔یہ تربیت کی بناء پر قدرتی مقامات پر آلودگی پھیلانے کا باعث نہیں بنتے۔ اپنی خالی بوتلیں،ریپرس،ٹشو، خالی کین وغیرہ اپنے تھیلوں میں جمع کر کے مقررہ مقامات پر ڈالتے ہیں ،جس سے ماحول میں آلودگی نہیں پھیلتی۔ ان میں ملکی اور غیر ملکی دونوں شامل ہوتے ہیں ۔ان کی ٹریننگ میں شامل ہوتا ہے کہ یہ اپنے خالی کین، بوتلیں، ریپروغیرہ قدرتی مقاما ت پر پھینکنے کی بجائے، کالے بیگس میں رکھ کر انہیں واپسی پر مقررہ جگہوں پر ڈالتے ہیں اور کوئی آلودگی نہیں پھیلاتے۔ کچھ سیاحتی گروپ تو ایسے ہیں جو مہم کے ذریعےسیاحتی مقامات سے کچرا جمع کر کے کوڑے دانوں میں ڈالتے ہیں۔ایسی سر گر میاں اگر چہ بہت محدود پیمانے پر ہوتی ہیں لیکن ان کا مقصد آگہی دینا ہوتاہے۔ ایسی ہی ایک کلب نے ایک چیک پوسٹ والوں کو مشورہ دیا تھا کہ ،جس گاڑی میں کچرا واپس لانے کے لیے کالا بیگ نہ ہو، اسے آگے نہ جانے دیا جائے۔ کراچی میں کے پی ٹی نے ساحل پر جانے والوں کو کچھ دن کالے بیگ مفت میں فراہم کئے تھے، جو تعارفی تھے، تاکہ لوگوں میں کچرا ساحل سمندر پر پھینکنے سے گریزکا کچھ فہم پیدا ہو سکے۔

سیاحت یا کچرا پھیلانے کا مشن؟

دوسری قسم کے سیاح وہ ہوتے ہیں جن کو ٹور آپریٹر لے کر چلتے ہیں،ان میں ملا جلا رجحان پایا جاتا ہے۔کچھ ٹور آپریٹر اپنے گاہکوں کو کچرا نہ پھینکنے کی ہدایت کرتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے۔ گاہک ان کی باتوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتےاور کھاتے پیتے تمام ریپر،بوتلیں، ٹن وغیرہ چلتی گاڑی سے باہر پھینکتے نظر آتے ہیں۔ ٹور آپریٹرز کی سرکاری طور پر تربیت اس سلسلے میں بہت معاون ہو سکتی ہے ۔ زیادہ تر سیاح وہ عام لوگ ہوتے ہیں جو اپنے طور پر سیاحت کے لئے نکلتے ہیں، ان میں سے بیشتر کواس بات کا نہ شعور ہوتا ہے نہ ادراک کہ قدرتی ماحول کی خوبصورتی برقرار رکھنے کے لئے ماحول کو آلودہ کرنے والی اشیاء کو یہاں نہ پھینکا جائے،یہ ہی لوگ سب سے زیادہ آلودگی پھیلاتے ہیں،ان میں وہ لوگ بھی شامل ہوتےہیں جو اپنے گھر،گلیوں، دفاتر اور کام کی جگہوں کو پان گٹکے کی پچکاریوں سے گل گلزار کئے ہوتے ہیں۔ ان ہی لوگوں کے لئےسندھ گورنمنٹ نے قانون بنایا تھا کہ گلیوں اور سڑکوں پر کوڑا پھینکنے والوں کو گرفتار کیا جائے۔ قانون ،تربیت اور آگہی نہیں کر سکتا۔ سیّاحوں کو صرف اس بات کا احسا س دلانے کی ضرورت ہے کہ اس کا کیا نقصان ہے۔احساس ہونے پر عمل کرنا کوئی مشکل کام نہیں کہ اس پر کچھ خرچ تو ہوتا نہیں ۔

مختلف ممالک میں اس کچرے کو ٹھکانے لگانے اور قدرتی ماحول کو بچانے کے لئے مختلف طرح کے بندو بست کئے گئے ہیں۔دیوار چین کو دیکھنے کے لئے ایک کروڑ سیاح سالانہ آتے ہیں۔ یہ جنگلات سے ڈھکے پہاڑی علاقے پر واقع ہے۔ وہاں پر جگہ جگہ ویسٹ بن رکھے ہیں۔ہر ویسٹ بن کے دو حصے ہیں۔ایک حصے میں ریس سائیکل والی اشیا اور دوسرے میں باقی اشیا ڈالی جاتی ہیں۔ ایسا ماحول بنا ہوا ہے کہ سیاح دیوار سے ریپرز کو نیچے نہیں اڑاتے جب کہ سینکڑوں فٹ نیچے کاغذ اڑانے کا اپنا ایک مزہ ہے۔ویسٹ بن کی مسلسل چیکنگ ہوتی ہے۔ وہاں کا عملہ اسے خالی کرتا رہتا ہے۔سابق محلات فاربڈن سٹی کے پارکوں میں ادھر کسی نے کاغذ پھینکا اور ایک چھوٹی سی بیٹری سے چلنے والی گاڑی آئی بیٹھے بیٹھے ڈرائیور نے بڑی چمٹی سے اسے اٹھا کر گاڑی میں رکھ لیا۔ناروے نے اپنے ایک شہر برجن میں پورے شہر کے نیچے ویکم پائپ کا ایسا نظام بنایا ہے، جس سے شہر کا سارا کچرا ان پائپوں سے ایک جگہ اکٹھا ہوتا ہے،پھر اس کی چھٹائی ہوتی ہے اور اس کا کچھ حصہ ری سائیکل ہوتا ہے اور کچھ حصہ شہر کو گرم رکھنے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سےکچرا گاڑیوں کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ جب ہم کھاناکھاتے ہیں یا پھل کھاتے ہیں تو ایک بڑی مقدارچھلکوں،بیجوں اور گٹھلیوں کی بچ جاتی ہے۔بچی ہوئی خوراک بھی ہوتی ہے۔ یہ سب نامیاتی کچرا ہے۔اس کچرے سے ایک خاص طریقے سے قدرتی کھاد تیار ہوتی ہے۔کچھ ممالک میں نامیاتی کچرے کے لئے الگ ویسٹ بن رکھے جاتے ہیں ۔ ان کے ذریعے بننے والی قدرتی کھاد کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔اس طرح نامیاتی کچرا اہمیت کا حامل ہے۔بحیرہ رومی خطے کے ممالک ترکی، مصر،ا سپین،الجیریا ،لبنان مالٹا اسرائیل اٹلی وغیرہ میں اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔یورپی کمیشن نے اپنے ان شہروں کے لئے جہاں سیاحوں کی زیادہ تعداد آتی ہے ایک اربن ویسٹ پروجیکٹ کی فنڈنگ کی ہے، جس کے تحت تجرباتی طور پر سیاحتی کچرے کو اکٹھا کرنا، ٹھکانے لگانے کی تدابیر،ری سائیکلنگ، سیاحوں اور آبادی میں شعور اُجاگر کرنا اور موبائل ایپلی کیشنز برائے ماحول کی بہتری شامل ہیں۔2020 ءتک اس کے اہداف حاصل کرنا ہے۔

پاکستان میں سیاحوں کی ماحولیات کی حفاظت کی تربیت کی ضرورت ہے۔ساتھ ساتھ سرکاری طور پر بھی اس بھیانک حقیقت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جسے حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کا حال تو یہ ہے کہ منگورہ میں اوگڈائی نامی بستی میں دریائے سوات کے کنارے ڈمپنگ سائٹ بنا کر سارے دریا کو برباد کر دیا گیا ہے۔اب اس بستی میں حشرات الارض مکھی ،مچھروں کی بھر مار ہے اور دریا کے آلودہ پانی سے یرقان،ہیپاٹائٹس ،دست اور پیچش کی بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔ صاف جھرنوں کے پانی میں گاڑیاں دھو کر انہیں آلودہ نہ کیا جائے ،کیوں کہ اس پانی کو آگے کی بستیاں پینے میں استعمال کرتی ہیں۔ سرکاری طور پر اگر ٹورسٹ مقامات پر کچرے دان رکھ دیئےجائیں تو بھی کسی حد تک آلودگی پر قابو پا یا جاسکتا ہے ۔ ری سائیکل انڈسٹری کو کچھ سہولتیں فراہم کر دی جائیں تو کچرا بھی کم ہو جائے گا اور لوگوں کو روزگار بھی حاصل ہوگا۔ آدھی کھائی ہوئی خوراک کو شاپر میں چھوڑنا جنگلی حیات کے لیے موت ہے۔جنگلی جانور اسے شاپر سمیت کھا کر بیمار ہو جاتے ہیں اور سسک سسک کر مر جاتے ہیں۔ ایک آسان لیکن انتہائی نقصان دہ طریقہ کچرے کو آگ لگانے کا ہے۔ جسے حکومت اور عوام دونوں استعمال کرتی ہیں۔کچرے کے جلنے سے انتہائی نقصان دہ گیسیں دھواں بن کر پورے علاقے کی صحت کی بربادی کی خاموش قاتل کی صورت میں کام کرتی ہیں۔بچوں کی گھر اور اسکول میں اس موضوع پر تربیت ہونی چاہیے۔ چھوٹے چھوٹےبچوں کو جب اساتذہ بتاتے ہیں کہ کاغذزمین پر نہ پھینکیں،ڈسٹ بن میں ڈالیں تو وہ اس پر عمل کرتے ہیں۔اس طرح اگر تربیت دی جائے تو ماحولیاتی آلودگی پھیلنے میں لازمی کمی آجائے گی۔سیاحوں کو کو شش کرنی چاہیے کہ وہ ڈسپوزایبل سامان کم سے کم رکھیں ۔

محکمہ سیاحت کو چاہیں کہ وہ جگہ جگہ انتباہی بورڈ لگا دیں، جیسے کچرا ،سڑک اور جنگل میں نہ ڈالیں ویسٹ بن میں ڈالیں،اس پانی میں گاڑی نہ دھوئیں یہ پانی نیچے پینے میں استعمال ہوتا ہے،یہ پانی استعمال شدہ ہے اس سے دور رہیں وغیرہ وغیرہ۔قدرت نے ہمارے ملک کو بہت خو بصورت ماحول سے نوازا ہے۔شمالی علاقوں کو دیکھنے کےلئے دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں۔سر بفلک پہاڑ، برفانی چوٹیاں، آبشاریں، گھنےجنگل،چشمے،جھرنے،جنگلی حیات اور خاص طور پر اچھل کود کرتے بندر اپنے اندر سیا حتی کشش رکھتے ہیں۔اتنے خوبصورت نظاروں کو خالی بوتلوں، کین، ریپرز، شاپنگ بیگز،کاغذ اور دیگر آلودگی پھیلانے والی اشیاء سے آلودہ نہ ہونے دیں۔ان پہاڑوں کے نظارے دیکھنے کے ساتھ ساتھ ان کا خیال بھی رکھیں۔انہیں خوبصورت اور صاف ستھرا رہنے کا حق دیں۔ جب ایک سیاح گھر سے نکلتا ہے تو خوبصورت نظارے، پاک صاف ماحول دیکھ کر اپنی طبیعت کو فرحت بخشنے اور شاداں ہونے نکلتا ہے۔ جنگل کی تازہ و خوشگوار ہوا میں سانس لے کر انسان تازہ دم ہو جاتا ہے ۔کوئی بھی سیاح ہزاروں روپے خرچ کر کے کچرا دیکھنے نہیں جاتا، کچرا دیکھنے کے لئےاس کے اپنےشہر کچھ کم نہیں۔

تازہ ترین