پاکستانی قوم نے 14اگست 1947ء کو برطانوی سامراج سے نجات حاصل کرکے آزادی کا سانس لیا لیکن بدقسمتی سے قبائلی علاقوں کے عوام کو برطانوی کالے قوانین سے آزادی نہ مل سکی اور قیام پاکستان کے 71سال بعد قبائل کو چالیس ایف سی آر کے ظالمانہ اور جنگل کے قوانین سے بالآخر آزادی نصیب ہوئی ‘ ماضی میں فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کیلئے کوششیں ہوتی رہیں تاہم بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر کامیابی نہ مل سکی‘ جنرل (ر) نصیر اللہ بابر کی رپورٹ پرسابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء کے عام انتخابات سے قبل قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی تجویز دی تاہم مارشل لاء کے نفاذ کے بعد تجویز پر عمل نہ ہو سکا‘ 1997ء کے انتخابات میں پہلی بار فاٹا میں قبائلیوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ‘2006ء میں صاحبزادہ امتیاز احمد کی رپورٹ سامنے آئی‘ 2008ء میں جسٹس (ر) میاں محمد اجمل کی رپورٹ میں برطانوی راج سے نافذ ایف سی آر میں ترامیم کی تجویز دی گئی ‘ 2011ء میں سابق صدر آصف علی زرداری نے قبائلی علاقوں میں سیاسی جماعتوں کو سرگرمیوں کی اجازت دی اور لوکل باڈیز ریگولیشن بھی تیار کیا ‘ نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے بعد سرتاج عزیز کی سربراہی میں نومبر 2015ء میں کمیٹی تشکیل دی گئی ‘ کمیٹی نے وزیر اعظم کو 23اگست 2016ء کو اپنی سفارشات پیش کیں‘ 9نومبر 2016ء کو کمیٹی کی رپورٹ سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی جبکہ 27ستمبر 2016ء کو سینٹ میں پیش کی‘ 2مارچ 2017ء کو کابینہ نے فاٹا اصلاحات کی منظوری دی اور تقریباً 10ماہ بعد اعلیٰ عدلیہ کی توسیع کا فاٹا ترمیمی بل بھی منظور کرلیا جس کے بعد یہ بل ایوان بالا بھجوادیا گیا ‘ بدقسمتی سے وہاں بھی معاملہ تاخیر کا شکار ہوگیا اور پھر تین ماہ کی غیر ضروری تاخیر کے بعد سینٹ نے 12اپریل 2018ء کو بل کی منظوری دیدی جس پر صدر مملکت نے پھر پانچ دن بعد 18اپریل کو دستخط کئے ‘ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کا معاملہ بعض اتحادی جماعتوں کی مخالفت کے باعث التواء کا شکار رہا تاہم قومی اسمبلی اور سینٹ کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی نے بھی تاریخی بل کی منظوری دیدی ہے جس کے بعد قبائلی علاقہ جات کے علاقہ غیر اب صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں‘ قبائلیوں کی بدقسمتی تھی کہ ملک کی آزادی کے باوجود انہیں آزادی نہ ملی ‘ جدید دور کے باوجود آج بھی قبائلی علاقے پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتے ہیں ‘ فاٹا میں قانون کی حکمرانی‘ انسانی حقوق‘ عدل و انصاف کا نام و نشان تک نہ تھا‘ قوانین کی حالت یہ تھی کہ جرم کوئی کرے اور بھرے کوئی کے مصداق ملزم کے گھر والوں کے ساتھ ساتھ پورے قبیلے کو بھی سزا بھگتا پڑتی تھی‘ دلچسپ امر یہ ہے کہ قبائل پولیٹیکل ایجنٹ کے فیصلوں کیخلاف ملک کی کسی عدالت میں اپیل دائر نہیں کر سکتے تھے‘ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک موجود نہیں تھا‘ اسی بناء پر فاٹا میں جنگل کا قانون نافذ تھا‘ قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف کے نفاذ کا مقصد دراصل ملک کے تمام شہریوں کو قانون کی نظر میں بلاامتیاز بنانا ہے‘ قبائلی علاقوں میں قانون ہی نہیں تھا تو اس کے باعث قبائلیوں کے انسانی بنیادی حقوق کا تصور بھی نہیں تھا‘ مہذب معاشروں میں ترقی کیلئے تمام شہریوں کو انسانی بنیادی حقوق کی فراہمی حکومتی ترجیحات ہوتی ہیں جن میں تعلیم‘ صحت ‘ پینے کا صاف پانی‘ بجلی ‘ گیس اور دیگر سہولیات شامل ہیں لیکن قبائلی علاقہ جات کو ان نعمتوں سے محروم رکھا گیا جس کے باعث قبائل میں احساس محرومی نے جنم لیا اور اسی بناء پر قبائلی جوان دہشتگردوں کا آلہ کار بنے‘ علاقہ غیر کے خاتمے سے قبائلی علاقوں میں قانون کی حکمرانی‘ انسانی حقوق کا تحفظ ‘ سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل اور جمہوریت کو استحکام ملے گا ‘ قبائلی علاقہ جات دہشتگردی کے ساتھ ساتھ کرپشن اور بدعنوانی کا گڑھ بھی بنے رہےجس کے باعث قبائل کو صرف نعروں سے بہلایا جاتا رہا‘1973ء کے آئین پاکستان کے تحت اب فاٹا کے تمام شہری بلاامتیاز قانون کی نظر میں برابر ہونگے‘ انہیں عام شہریوں کی حیثیت سے تمام حقوق حاصل ہونگے جو کسی بھی مہذب معاشرے میں شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں ‘ ایف سی آر قانون‘ صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات ختم ہو چکے ہیں‘ صوبے میں نافذ تمام قوانین کا اطلاق اب پورے فاٹا پر بھی ہو رہا ہے ‘ خوش قسمتی سے 31ویں ترمیم کے تحت پاٹا کے علاقوں پر بھی وفاقی اور صوبائی قوانین کا اطلاع ہو سکے گا جس سے پاٹا کے علاقوں میں بھی قانون کی حکمرانی اور احتساب کا عمل پروان چڑھے گا‘علاقہ غیر اب علاقہ غیر نہیں رہا بلکہ اپنا بن چکا ہے ‘ امید ہے کہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد فاٹا میں کرپشن اور بدعنوانی کی کم ازکم پوچھ گچھ تو ہو گی جواس سے قبل نہیں تھی‘ فاٹا کے صوبے میں انضمام کے بعد معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ اب اصل چیلنجز کا آغاز ہوا ہے کیونکہ فاٹا کے علاقے ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت انتہائی پسماندہ ہیں لہٰذا ان علاقوں کی ترقی اور عوام کے معیار زندگی میں بہتری ہی بڑا چیلنج ہے‘ 31ویں آئینی ترمیم کے تحت قبائلی علاقوں کو ختم کیاگیا ہے اور اب قبائلی علاقوں کی خیبرپختونخوا اسمبلی میں 21نشستیں مختص ہیں جن پر 2018ء کی بجائے 2019ء میں انتخابات ہونگے‘ صوبے کی مجموعی نشستیں 124سے بڑھ کر 145ہو جائیں گی تاہم رواں سال عام انتخابات کے بعد منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے 12اور سینٹ کے 8اراکین اپنی آئینی مدت مکمل کرینگے جس کے بعد سینٹ کی نشستیں ختم ہو جائیں گی جبکہ خیبرپختونخوا کی قومی اسمبلی کی نشستیں 48سے بڑھ کر 55ہو جائیں گی ‘ صوبائی اسمبلی میں21نشستوں میں 16عام‘ 4خواتین اور ایک اقلیتی نشست ہو گی‘انصاف کی فراہمی کیلئے 7قبائلی ایجنسیوں سمیت 6ایف آرز میں 49جوڈیشل کمپلیکس تعمیر کرنا ہونگے‘ فاٹا کی تمام 7ایجنسیوں اور 42تحصیل ہیڈ کوارٹرز میں 100ایکڑ پر جوڈیشل کمپلیکس تعمیر کرنا ہونگے‘ 49جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر پر مجموعی طور پر 13870اعشاریہ 024ملین روپے لاگت آئے گی‘ قبائلی علاقوں میں کام کرنے کیلئے مجموعی طور پر ججز سمیت 322ملازمین بھرتی کرنا ہونگے‘ 7ڈسٹرکٹ سول ججز‘ 14ایڈیشنل ججز اور 24سول ججز بھرتی کرنا ہونگے‘ قبائلی علاقوں میں ملازمین کی سالانہ تنخواہوں کی مد میں 39کروڑ 17لاکھ 64ہزار 372روپے درکار ہونگے ۔