مقصود بٹ
گو ملک میں عام انتخابات کا اعلان کردیا گیا ہے لیکن سیاسی ماحول اس سے قبل ہی خدشات و تحفظات اور الزامات سے لبریز دکھائی دے رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اعتراضات اور شکایات کے باوجود انتخابی مہم میں مصروف نظر آرہی ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ پر ہونے والے قاتلانہ حملے سے ’’عدم تحفظ‘‘ کی فضا نے بھی انتخابات کے پرامن انعقاد کے لئے نگران حکومت کے لئے کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔ سیاسی صورتحال کےبارے میں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ’’ریموٹ کنٹرول‘‘ ڈیموکریسی کے سفر کے آغاز کے خدشات بھی ایک وجود کی صورت میں نظر آ رہے ہیں ۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ دو جمہوری حکومتوں کی مدت ِ میعاد پوری ہونے کے باوجود یہ امکانات دکھائی دے رہے ہیں کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوںکا ’’مستقبل‘‘ اقتدار کے حوالے سے کوئی واضح تصویر پیش نہیں کر رہا ہے،سینیٹ کے انتخابات کے نتائج اور بلوچستان حکومت کی تبدیلی نے سب کو واضح کر دیاہے کہ ہر چیز ممکن ہے اور کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اورعوامی حلقوں میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے دس ماہ کے دور کے بارے میں یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ انہوں نے پارٹی اور قائد میاں نواز شریف سے ’’وفاداری بشرط استواری‘‘ کی وہ مثال قائم کی ہے جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ جب ان کا انتخاب عمل میں آیا تھا تو کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ وزیر اعظم بننے کےبعد بھی وہ ہر امتحان اور بحران میں پارٹی اورقائد کے ساتھ اپنی بے مثال وفاداری کو نبھا سکیں گے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ انہوں نے نہ صرف ماضی میں بھرپور ساتھ دیا تھا بلکہ انہوں نے ہر تعمیراتی منصوبے کی تقریب میں ترقیاتی اور توانائی منصوبوں کا کریڈیٹ پارٹی اور اس کے قائدین کو دیا ہے۔ سیاسی حلقوںمیں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کے ’’بیانیے‘‘ کی مقبولیت کے حوالے سے ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب ان کے ایک انٹرویو کی وجہ سے انہیں ’’متنازع‘‘ بنایا گیا۔ اس مرحلہ پر بھی وزیر اعظم عباسی نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ جہاں تک اس بارے میںپارٹی کے صدر میاں شہباز شریف نے یہ محسوس کیا کہ یہ سارا معاملہ ایک سازش کے تحت اور دشمنی میں کیاگیا ہے حالانکہ میاں نواز شریف کے انٹرویو کے ’’استفہامیہ سوال‘‘ کو مختلف انداز میں پیش کرکے تنقید کا نشانہ بنایاگیا تھا۔ اس طرح کی صورتحال اور بیانات کی کیفیت کے بارے میں سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ اس سے قبل کئی دوسرے رہنما بھی ایسے بیانات کا مظاہرہ کر چکےہیں۔ آصف علی زرداری نے تو ایک دفعہ براہ راست للکار کر اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی تھی مگر بعد ازاں ’’خاموشی‘‘ اختیار کرنے کے بعد ان اینٹوں کی ’’تصوراتی دیوار‘‘ بھی خود اپنے ہاتھوں سے گرا دی تھی۔ اسی طرح عمران خان نے ’’حساس ‘‘ادارے کے آئینی کردار پر بھی گفتگو کی تھی اور گزشتہ انتخابات کے حوالے سے ’’مقتدر ادارے‘‘ کے ایک اعلیٰ افسر پربراہ راست دھاندلی کا الزام عائد کردیا تھا حالانکہ مذکورہ افسر نے اس معاملہ میں کمیشن قائم کرکے سچائی سامنے لانے کا اعادہ کیا تھا۔ سیاسی حالات واضح طور پر بتارہے ہیں کہ جس جرأت مندانہ انداز میں میاں نواز شریف قوم کو حقائق سے آگاہ کررہے ہیں، اس سے ان کی پارٹی اور رہنمائوںکو بے شمار مشکلات کا سامنا ہے۔ احتساب عدالت میں ریفرنس کے دوران جو بیان انہوں نے دیا ہے وہ قانونی سے زیادہ سیاسی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ قوم کو براہ راست بتارہے ہیں کہ سابق صدر مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کا مقدمہ بنانے کی وجہ سے وہ مصائب اور مشکلات کی دلدل میں آئے ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے جس جرأت اور حوصلے سے اپنا موقف پیش کیا ہے اس میں واشگاف طور پر انہوں نے ’’سویلین بالادستی‘‘ کے قیام کا عزم ظاہر کیاہے۔ اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ وہ ملک کو چاروں صوبوں کی بڑی اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اقتدار سے نکلنے کے بعد بھی وہ یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ قوم کو حقائق سے باخبر رکھا جائے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’سیاسی بیانیے‘‘ کو ترجیح دینے کا مرحلہ بھی طے کرنے کا اعزاز میاں نواز شریف کو جاتا ہے کیونکہ اس کے علاوہ کسی بھی سابق وزیر اعظم نے اس سے قبل ایسا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں فاٹا کے انضمام کے بل کا حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے مشترکہ طور پر منظور ہونا بھی ایک بڑا کارنامہ قراردیا جارہا ہے حالانکہ اس سے قبل یہ ناممکن دکھائی دیتا تھا ۔ گویا اس معاملہ میں بھی تمام رکاوٹیں ان بالادست قوتوں نے دور کردیں جو یہ محسوس کرتی تھیں کہ ان کی مداخلت کے بغیر یہ بار ِگراں کی حیثیت رکھتا ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں تحریک انصاف کی اس تقریب کا بڑا چرچا ہے جس میں انہوں نے ’’اقتدار کے پہلے سو دنوں‘‘ کی منصوبہ بندی پیش کی ہے۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’موسمی پرندوں‘‘ کی شمولیت کے بعد یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ تحریک ِ انصاف کو ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کی آشیرباد حاصل ہے۔ پارٹی کے جن رہنمائوں نے اپنے اپنے شعبوں کا پلان پیش کیا ہے اسے مستقبل میں اقتدار کی صورت میں کابینہ کے ارکان قرار دیا جارہا ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھرپور تبصرہ کرتے ہوئے واشگاف طور پر بیان دیا ہے کہ کون سے یقین اور کس کے کہنے پر وہ اقتدار ملے بغیر ہی پہلے سو دن کامنشور پیش کر رہے ہیں؟ انہوں نے اسے ’’پری پول رگنگ‘‘ قرار دیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ گو وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے لئے تحریک ِ انصاف ’’فیورٹ پارٹی‘‘ بن گئی ہے لیکن یہ کیا وجہ ہے کہ پارٹی کے سربراہ اور قائدین صرف ان ارکان اسمبلی اور شخصیات کو شامل کررہے ہیں جو اپنے حلقوں سے جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن ان پر بھروسہ نہیں کر رہےہیں جو پارٹی سے عرصہ دراز سے منسلک ہیں۔ ان سے وفاداری کا حلف اس لئے مانگا جارہا ہے کہ کہیں وہ ’’سکائی لیب‘‘ امیدواروں کی وجہ سے پارٹی سے بغاوت کرکے دوسری سیاسی حریف جماعت میں نہ چلے جائیں۔ حال ہی میں گوجرانوالہ ڈویژن سے ایک سابق ایم پی اے نے ایسی صورتحال سے بیزار ہو کرمسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کا یہ خیال تھا کہ پنجاب اورخصوصاً جنوبی پنجاب کے جو ارکان آزاد حیثیت میں انتخابات میں کامیاب ہوں گے وہ ان کے ساتھ شامل ہوں گے اور سندھ سے اکثریت حاصل ہونے کےبعد وفاق میں دیگر پارٹیوں کو اتحادی بنا کر حکومت کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے لیکن جب جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے ارکان نے تحریکِ انصاف میں شامل ہو کر ان سے معاہدہ کرلیا تو وہ پنجاب سے خاصے مایوس ہو گئے۔لاہور میں دو ہفتے کے قیام کے دوران بھی وہ پارٹی کے لئے کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دے سکے۔ صوبائی دارالحکومت اور صوبے میں گزشتہ دو ماہ سے سیاسی اور انتخابی سرگرمیاں عروج پر دکھائی دے رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بیشتر ارکان اسمبلی اور عہدیداروں کوعدالتوں اور نیب میں طلب کیا جارہا ہے جس سے پارٹی کو مشکل ترین دور سے گزرنا پڑ رہا ہے لیکن اس کے باوجود ’’شریف برادران‘‘ عوامی رابطہ مہم میں مصروف ہیں۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کے حالیہ جلسوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) ابتلا کے باوجود بھرپور انداز میں اپنے ’’بیانیے‘‘ کی بنیاد پرانتخابات میں حصہ لے گی۔ وزیر علیٰ پنجاب میاں شہباز شریف پہلے دن کی طرح جیسے محنت پیہم سے فلاحی اور ترقیاتی منصوبوں میں دن رات لگےہوئے تھے وہ اب بھی اسی رفتار اورمعیار سے پورے صوبے میں طوفانی دورے کررہے ہیں۔ ان کا ارادہ ہے کہ حکومت کے آخری دن تک وہ صوبے کے ہر ضلع میں ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کی توسیع کو مکمل کریں گے۔ جہاں تک پارٹی سے جانے والوں کا تعلق ہے تو ان میں سے بیشتر کے بارے میں پارٹی کےقائدین کا خیال ہے کہ یہ ہر دور میں وفاداریاں تبدیل کرنے والے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ہونے والے بڑے بڑے جلسوں نے بھی یہ بات ثابت کی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کا گراف کسی صورت بھی کم نہ ہے۔ حالیہ گیلپ سروے اور یو این ڈی پی کی رپورٹ نے ترقیاتی منصوبوں اور فلاحی سکیموں کے حوالے سے پنجاب کو پہلا درجہ دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے جس جانفشانی سے صوبے کے ہر ضلع کے ہسپتال میںسی ٹی سکین مشینوں، پتھالوجی لیبارٹریوںاور انڈوومنٹ فنڈز کے ذریعے مستحق طالب علموں کومعیاری اور امتیازی تعلیم فراہم کی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ عوام میں اپنے ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کی بنیاد پر ہی مقبولیت کو قائم کرنے کی کوشش میں ہیں۔حالیہ دو ماہ کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب نے جس ’’برق رفتاری‘‘ سے پورے صوبہ میں عوامی فلاح کے ترجیحاتی منصوبوں کی ایک بار پھر تجدید کی ہے وہ یہ واضح کرتی ہے کہ صوبے میں ان سے بڑھ کر کوئی بھی کام کرانے کی صلاحیتیں نہیں رکھتا اور پھر’’پنجاب سپیڈ‘‘ کامعیار بھی انہی کی شخصیت کا حصہ ہے۔ انہوں نےعمران خان کے الزامات کے سلسلہ میں عدالت سے رجوع کیا تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے لیکن عمران خان کی طرف سے لیت و لعل سے کام لیا گیا۔ وہ اپنے احتساب کے معاملہ میں نیب میں بھی پیش ہوئے اور آئندہ بھی احتساب کے لئے تیار ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ میاںشہباز شریف کی ترقیاتی سوچ اور عوامی فلاحی کاموں کاجذبہ آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کے لئے کامیابی کا باعث بھی بن سکتا ہے؟