• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرضوں پر حکومت کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ نہیں

اسلا م آباد(رپورٹ:فرخ سلیم) پاکستان کے بیرونی قرضے اور واجبات ستمبر 2014 میں64 ارب ڈالرز سے بڑھ کر ستمبر2015 تک 66 ارب40 کروڑ ڈالرز تک جاپہنچے۔ ہمارے بیرونی قرضے2013 میں5کھرب70ارب روپے سے بڑھ کر مالی سال2016 کی پہلی سہ ماہی تک6 کھرب 50 ارب روپے تک جاپہنچے جو تین سال کے عرصہ میں13.5 فیصد اضافہ ہے۔ ہمارے تقریباً90 فیصد بیرونی قرضے کثیر الجہتی اور رعایتی ہیں(پڑھیں: کم مارکیٹ شرح کے ساتھ قرضے) جو نرم اور طویل المعیاد ہیں۔(20 سال یا اس سے زائد رعائتی عرصہ پر)۔10فیصد بیرونی قرضے یورو بانڈ، این ایچ اے بانڈ اور دیگر کی شکل میں مارکیٹ ریٹ کے ساتھ ہیں۔(پڑھیں: قرضے زیادہ شرح سود کے ساتھ) ۔نتیجتاً ہمیں غیر ملکی قرضے نمٹانے کے لئے ایک ارب ڈالرز کی ضرورت رہتی ہے۔5 فروری تک اسٹیٹ بینک میں زرمبادلہ کے ذخائر15 ارب30 کروڑ ڈالرز کے ساتھ آئندہ چند سہ ماہی تک دیوالیہ ہونے کا خطرہ صفر رہ جاتا ہے۔ دوسری طرف حکومت کے ملکی اندرونی قرضے 2013 میں9کھرب50 ارب روپے سے بڑھ کر مالی سال2016 کی پہلی سہ ماہی تک 12 کھرب70 ارب روپے تک جاپہنچے ہیں جو33 فیصد کے تناسب سے زیادہ تشویشناک اور خطرناک اضافہ ہے حکومت کے اندرونی قرضے مستقل قرضہ، فلوٹنگ قرضہ اور اَن فنڈڈ قرضے پر مبنی ہے۔ مستقل سرکاری قرضے ایک سال سے زائد کی میچورٹی پر انسٹرومنٹس کے ذریعہ حاصل کئے جاتے ہیں۔ فلوٹنگ قرضہ مختصر المعیاد اور ایک سال تک کیلئے ہوتا ہے، اَن فنڈڈ قرضہ بچت کی اسکیموں اور پرائز بانڈز کی شکل میں ہوتا ہے جسے طلب پر بھنایا نہیں جاسکتا۔ حکومت کے مستقل اور فلوٹنگ قرضوں کے لئے اس وقت کمرشیل بینکس ہی سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ حکومت ایک کھرب روپے زائد مالیت کے ٹریژری بلز تین ماہ، چھ ماہ اور سال بھر میچورٹی پر ہر تین ماہ بعد فروخت کرتی اور انہیں بینکس خریدتے ہیں۔ حکومت95 فیصد فنڈز قرضوں کی ادائیگی کی مد میں خرچ کرتی ہے اور باقی 5 فیصد حالیہ ضروریات کو پورا کرنے کے کام آتے ہیں۔
تازہ ترین