• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسٹیٹ بینک ہر دو مہینے بعد اپنی مالیاتی (مانیٹری) پالیسی کا جائزہ لیتا ہے جس میں وہ ملکی افراط زر کو مدنظررکھ کر نجی بینکوں کے شرح سود (ڈسکائونٹ ریٹ) میں اضافہ یا کمی کرتا ہے۔ بینکوں کو اسٹیٹ بینک کا موجودہ شرح سود 6 فیصد تھا جسے 28 مئی 2018ء سے بڑھاکر 6.5 فیصد کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں کمرشل بینکوں کے قرضوں کے شرح سود اور بینکنگ سیکٹر کے منافع میں اضافہ ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کا مقصد افراط زر یعنی مہنگائی کو کنٹرول کرتے ہوئے ملکی گروتھ کو بڑھانا ہوتا ہے۔ موجودہ افراط زر 3.5 سے 4.5 فیصد جو 2017-18ء میں 4.5 سے 5.5 فیصد تک تھا لیکن حکومت نے آئندہ مالی سال 2018-19ء میں مہنگائی کا ہدف 6 فیصد رکھا ہے ، اس لحاظ سے افراط زر کنٹرول میں ہے۔ گزشتہ 6 مہینوں میں روپے کی قدر 9.3 فیصد کم ہوکر ڈالر کے مقابلے میں 116 روپے کی نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 118 روپے ہے اور انٹرنیشنل مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں 18 فیصد اضافے سے 77 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہیں، کی وجہ سے آنے والے وقت میں افراط زر میں اضافہ متوقع ہے جس کے پیش نظر اسٹیٹ بینک نے اپنے پالیسی ریٹ میں اضافہ کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان کی معاشی گروتھ 5.8 فیصد ہے جو گزشتہ 13 سال کی بلند ترین سطح ہے جبکہ آئندہ مالی سال حکومت نے گروتھ کا ہدف 6.2 فیصد رکھا ہے جو آئی ایم ایف کے مطابق موجودہ حالات میں غیر حقیقی ہے۔
ملک کی موجودہ صورتحال میں زرمبادلہ کے ذخائر میں 5.8 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے جسکے نتیجے میں 18مئی 2018ء کو اسٹیٹ بینک کے ذخائر گزشتہ سال کے 16.4 ارب ڈالر سے کم ہوکر 10.3ارب ڈالر کی نچلی سطح پر آگئے ہیں جو صرف 2سے 3مہینے کی امپورٹ کیلئے کافی ہیں جسکے باعث روپے پر شدید دبائو ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے 10مہینوں میں ایکسٹرنل اکائونٹ خسارہ بڑھ کر 14ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا زیادہ ہے جس کی وجہ سے حکومت نے مالی خسارے کا نیا ہدف جی ڈی پی کا 4.1 فیصد سے بڑھاکر 5.5فیصد رکھا ہے۔ اسکے علاوہ رواں مالی سال حکومت کو 5ارب ڈالر سے زائد بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنا ہیں۔ سی پیک کی اضافی امپورٹس اور ایکسپورٹس میں مطلوبہ اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے ملک کو رواں مالی سال تقریباً 30 ارب ڈالر کے تجارتی خسارہ کا سامنا ہے جس میں تیل کی قیمتیں بڑھنے سے امپورٹ بل میں مزید اضافہ متوقع ہے جس کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر پر بے انتہا دبائو ہے۔ سابق گورنر اسٹیٹ بینک یاسین انور کا کہنا ہے کہ 2013ء میں بھی ہمیں اسی طرح کی صورتحال کا سامنا تھا۔
اسی موضوع پر گزشتہ دنوں سندھ بینک کے بلال شیخ کے افطار ڈنر میں میرے دوست سابق گورنر اسٹیٹ بینک اشرف وتھرہ اور نیشنل بینک کے موجودہ و سابق صدور سعید احمد اور اقبال اشرف نے بتایا کہ موجودہ حالات میں ملک میں زرمبادلہ کی محدود آمد اور اضافی اخراج ہے اور ہمارے زرمبادلہ کے انفلو اور آئوٹ فلو مطابقت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ہماری ادائیگیوں کے توازن میں بگاڑ آیا ہے۔ حکومت نے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھاکر مصنوعی طور پر روپے کی قدر مستحکم رکھی لیکن اس کے نتیجے میں ملکی ایکسپورٹس غیر مقابلاتی ہونے کی وجہ سے متاثر ہوئیں جبکہ امپورٹس اضافے سے ریکارڈ 52 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں اور حکومت کو 30 ارب ڈالر سالانہ سے زائد تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ حکومت نے 2017-18ء میں کمرشل بینکوں سے ایک ارب ڈالر کے قرضے لئے جس میں سے اب تک 178ملین ڈالر سٹی بینک، 450 ملین ڈالر کریڈٹ سوئس (یونائیٹڈ بینک، الائیڈ بینک کنسوریشم) اور دیگر بینکوں سے 205 ملین ڈالر کے مختصر المیعاد قرضے شامل ہیں۔ EDA کے مطابق موجودہ حکومت نے 2013-14ء میں کمرشل بینکوں سے 1.4 ارب ڈالر اور 2015-16ء میں 4.3 ارب ڈالر کے قرضے لئے تھے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مالی خسارے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کو پورا کرنے کیلئے حکومت کیلئے نئے قرضے لینا ناگزیر ہے۔ قرضوں کی حد کے قانون (Fiscal Responsibility Debt Limitation Act 2005) کے تحت حکومت جی ڈی پی کا 60 فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی لیکن ہمارے قرضے اس حد سے تجاوز کرگئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے قرضوں کے علاوہ گلوبل کیپٹل مارکیٹ میں 2 بلین ڈالر کے یورو بانڈ اور 2.5 بلین ڈالر کے سکوک بانڈز بھی جاری کئے ہیں جن کی ادائیگیاں 2019ء، 2025ء اور 2036ء میں کرنا ہیں۔ ان میں ایک ارب ڈالر کا 6.75 فیصد شرح منافع اپریل 2019ء میں، 500 ملین ڈالر کا 8.25 فیصد شرح منافع 30 ستمبر 2025ء میں اور 500 ملین ڈالر کا 7.875 فیصد شرح منافع 31 دسمبر 2036ء میں واجب الادا ہیں۔ زرمبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کو سہارا دینے کیلئے رواں مالی سال حکومت نے 2.5 ارب ڈالر کے 5 سالہ (5.625 فیصد شرح منافع) اور 10 سالہ (6.875 فیصد شرح منافع) یورو اور سکوک بانڈز کا اجراء کیا ہے اور ایک ارب ڈالر کے مزید بانڈز کے اجراء کا ارادہ رکھتی ہے۔ حکومت نے قانونی تقاضے پورے کرنے کیلئے سرمایہ کاروں کو سیکورٹی فراہم کرنے کیلئے اپنے موٹرویز گروی رکھے ہیں لیکن انٹرنیشنل بانڈ مارکیٹ میں پاکستانی بانڈ کی قیمت 100 ڈالر سے کم ہوکر 92 ڈالر تک پہنچ گئی ہے اس لئے ان حالات میں حکومت کیلئے نئے بانڈز کا اجراء مناسب نہیں۔
قرضے پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک اپنی اقتصادی ترقی کی رفتار تیز تر کرنے کیلئے لیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ، برطانیہ اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ملکوں پر قرضوں کا بوجھ ان کی جی ڈی پی کے 80 سے 100 فیصد تک ہے حتیٰ کہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک مصر، سری لنکا اور بھارت کے قرضے اُن کی جی ڈی پی کے 61 فیصد سے زیادہ ہیں۔ مثلاً 2017ء میں مصر کے قرضے جی ڈی پی کے 93.6 فیصد، سری لنکا کے قرضے جی ڈی پی کے 79.5 فیصد اور بھارت کے قرضے جی ڈی پی کے 67.7 فیصد تھے۔ اگر یہ قرضے ڈیمز بنانے اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کیلئے لئے جارہے ہیں اور مکمل ہونے کے بعد منصوبوں سے ہی قرضوں کی ادائیگی ہوسکے تو یہ قرضے ملکی مفاد میں ہیں لیکن ہمارے ہاں قرضے کرنٹ اکائونٹ اور بجٹ خسارے کو پورا کرنے اور پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے لئے جارہے ہیں نہ کہ معاشی ترقی اور اونچی جی ڈی پی گروتھ حاصل کرنے کیلئے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔رواں مالی سال 5 ارب ڈالر بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے حکومت نے عارضی طور پر چین سے ایک سے دو ارب ڈالر نئے قرضوں کی درخواست کی ہے جبکہ اپریل 2018ء میں حکومت نے چین کے کمرشل بینکوں سے ایک ارب ڈالر کے مختصر المیعاد قرضے حاصل کئے تھے۔ یہ سب عارضی اقدامات ہیں۔ پاکستان کے ممتاز معیشت دان اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ نئی منتخب حکومت کو پہلے 100 دن میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ اور اخراجات میں کمی، ایکسپورٹس اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا ہوگا نہیں تو انتہائی سخت شرائط پر آئی ایم ایف ہمارا مقدر ہوگا۔ مجھ سمیت معاشی پنڈتوں کی بھی یہ رائے ہے کہ الیکشن کے فوراً بعد نئی حکومت کو بالاخر سخت شرائط پر آئی ایم ایف کے پاس قرضے کیلئے جانا پڑے گا اور حکومت کا کشکول توڑ دینے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین