• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’خلائی مخلوق‘‘ یہ جعلی اصطلاح ترک بھی کریں
خلائی مخلوق تو ماہرین فلکیات سے بھی ابھی نہیں ملی، البتہ یہ جو ہم زمین کے ہو کر زمینی مخلوق کو خلائی مخلوق کہتے ہیں اس سے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کی ہتک ضرور ہوتی ہے، اگر یہ اصطلاح برائے سیاست گھڑی گئی ہے اور اس سے ظاہر ہے کس کی جانب اشارہ ہے تو جرأت سیاست پیدا کی جائے اور کھل کر نام لیا جائے ورنہ یہ انداز اشارہ زنی، محض منافقت ہے، ضروری نہیں کہ ہمیں قانون روکے یا کوئی خوف ٹوکے تو رکیں اخلاقیات ضمیر کی آواز کو کہتے ہیں اس کا کہنا ہی مان لیں، یہ نام دھرنا، الزام لگانا، تہمت باندھنا، اچھی بات نہیں، بالغ بچے احتیاط کریں، انسان کے اندر بھی ایک عدالت ہوتی ہے اور اسکے فیصلے کے مطابق ہم چوبیس گھنٹوں میں کوئی 24مرتبہ نا اہل قرار پاتے ہیں مگر ہم پھر بھی ڈھول بجاتے ہیں کہ ہم تو صادق و امین ہیں، حالانکہ معاف کیجئے نفس و ہوس کی کمین گاہ کے ’’کمین‘‘ ہیں، کسی کو حقیر جاننا، کسی کی پگڑی اچھالنا تاکہ وہ ہمارے سر پر سج جائے گھٹیا حرکت ہے، ان دنوں رمضان المبارک ہماری سیاست کو دیکھ رہا ہے کیونکہ پاکستان اسی بابرکت مہینے میں وجود میں آیا ہے، سیاسی موسم بالخصوص انتخابات کے دنوں میں بے لگام ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، اپنا پروگرام پیش کریں، مونڈھا مار کر آگے نہ بڑھیں، قطار باندھیں اور بند قبا بھی، کہ یہ انتخابات کے شب و روز آزمائش کی گھڑی ہیں، پوری دنیا نے ہم پر آنکھیں لگا رکھی اس لئے؎
کورے نین نہ جوڑیں واسطہ ای اخد دا!
ہم انسانیت کا واسطہ دے کر التجاء کرتے ہیں اپنے ہی سیاسی بھائیوں بہنوں سے کہ اب خلائی مخلوق کی بے بنیاد دل آزار اصطلاح ترک کر دیں۔
ٹکٹوں کی تقسیم یا ٹکڑوں کی تقسیم
خبر گرم ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم پر تنازع شروع، تحریک انصاف کے بعد ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں بھی اختلافات، جب کسی کا بچہ زور زور سے روتا ہے تو وہ پریشان ہو جاتا ہے کہ اتنے میں پڑوس سے کسی بچے کا دیپک راگ شروع ہوتا ہے تو اسے قدرے سکون ملتا ہے، اور دل سے کہتا ہے؎
ایک میرا ہی کاکا نہیں تنہا
اوروں کے بھی کاکے روتے ہیں
ہماری تو بس ایک ہی دعا ہے کہ اس کشاکش میں کسی کے خراش بھی نہ آئے سچ پوچھئے یہ خوش بختی ہے، کہ انتخابات ہونے والے ہیں، دن رکھے گئے ہیں اب اس ایونٹ کو "Celebrate"کریں، نصیب سے یہ گھڑی آتی ہے اس لئے؎
ذرا ڈھولکی بجائو ’’ساتھیو‘‘
مرے سنگ سنگ گائو ’’ساتھیو‘‘
یہ گھڑی ہے ملن کی
اک سجن کی سجن سے
ہم نے تو انتخابات کے حسین موقع کو مرنے مارنے کا تنازع بنا دیا ہے، خدا کرے کہ پوری قوم اپنی مرضی سے بغیر کسی لڑائی مار کٹائی کے از خود ایک شفاف الیکشن کر دکھائے تاکہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام لکھوائیں، اور قریب سے لے کر دور کے ہمسایوں کو معلوم ہو کہ ہے کوئی ہم سا؟ ٹکٹوں کی بات چلی ہے تو کل خبر تھی کہ راحیلہ ناز کو بن مانگے پی ٹی آئی نے ٹکٹ دے دیا ، کسی نے پوچھا پی ٹی آئی میں بن مانگے ملتا ہے؟ میں نے ’’کہا ‘‘ ملتا ہے اس نے کہا کیسے میں نے خبر دکھا کر کہا ایسے! بہرحال ایک شعر جو ہر جگہ، برموقع ہر خوشی ہر غم میں کام آتا ہے وہ شعیب بن عزیز کا یہ ضرب المثل شعر ہے؎
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
٭٭٭٭
کالا باغ ڈیم اور مزید ڈیمز
کالا باغ ڈیم پر تجزیہ کاروں کی متفقہ رائے کے مطابق، چیف جسٹس کی کالا باغ ڈیم پر آبزرویشن خوش آئند ہے، سیدھی سی بات ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے، ہر انسان چاہے کتنا ہی بے عقل ہو اپنے ایسے فائدے کو ہرگز نہیں ضائع کرتا جس کا تعلق اس کی زندگی سے یعنی زندہ رہنے سے ہو، مگر ہم تو نہیں البتہ ہمارے سیاستدان اس درجے کے عقلمند ہیں کہ چاہے ماں روٹھے یا بابا انہوں نے تو اپنی سیاست پر کالاباغ ڈیم تو کجا جنت کے باغات تج دینے کا بھی ارادہ کر رکھا ہے، ایک طرف سے خورشید شاہ کی آواز اٹھتی ہے کالا باغ ڈیم کے قتل کی تو ساتھ خیبر پختونخوا سے اسفند یار ولی کانپتے سر کے ساتھ تڑی لگاتے ہیں کہ کوئی کالا باغ ڈیم بنا کر تو دکھائے اس کی تعمیر ہم روکیں گے، اگر کالا باغ ڈیم پر عوام کا ریفرنڈم کرایا جائے تو وہ یہ ثابت کرے گا کہ عوام ان دونوں حضرات کے ساتھ کہاں تک ہیں، کیا ہم اس گھڑی کا انتظار کر رہے ہیں جب مودی کی یہ آواز پوری ہو جائے گی کہ پاکستان ایک بوند پانی کو ترسے گا، نہ جانے کیوں پھر خواجہ آصف کی وہ بات یاد آ جاتی ہے (معذرت کے ساتھ) کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے، اس بات نے تو چوہدری شجاعت کی ’’مٹی پائو‘‘ پر بھی مٹی ڈال دی، اگر چیف جسٹس قوم سے اختیار مانگ رہے ہیں تو قوم ان کو اختیار دیدے ان کے پاس کالا باغ ڈیم تنازعے کا حل بقول ان کے موجود ہے، اگر ان کا یہ حل چل گیا تو تو ہمیں کیا تکلیف ہے ہم ان سے کشمیر کا مسئلہ بھی حل کرا لیں گے، اب ہمیں جہاں تک ملک و قوم کا فائدہ ملے جانے نہ دیں یہی دانشمندی ہے۔
٭٭٭٭
جزاء و سزا
....Oشیخ رشید عمرہ پر جاتے ہوئے کہہ گئے، پولنگ کا وقت رات 12بجے تک کیا جائے،
پولنگ کا وقت بڑھے نہ بڑھے، سیاستدان اس لحاظ سے کتنے خوش قسمت ہیں، جب چاہتے ہیں عمرہ پر چلے جاتے ہیں، کیا جنت میں بھی اشرافیہ ہی جائے گی؟

تازہ ترین