فہم القرآن:مفتی عبدالمجید ندیم تبارک الذی …پارہ۲۹ سورہ ملک مکی سورت ہے ۔اس میں 30آیات اور دو رکوع ہیں۔رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’قرآنِ مجید میں تیس آیتیں ایسی ہیں جو اپنے پڑھنے والے کی سفارش کریں گی (ترمذی)۔اس سورت میں ایک طرف تو اسلا می تعلیما ت کا تعارف کروایا گیا ہے تو دوسری طرف انسان کو غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اس کے گرد و پیش سے ایسی مثالیں دی گئی ہیںجو اس کی آنکھیں کھولنے کے لیے کا فی ہیں ۔پھر اسے یاد دلایا گیا ہے کہ انسانی زندگی کا ایک خاص مقصد ہے جس کی تکمیل کے لیے اسے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے اور ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ اسے اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے گا۔سورت کا آغاز اللہ تعالیٰ کی طاقت کے اظہار سے ہوتا ہے کہ انتہا ئی بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے ۔اُس شہنشاہِ اعظم نے موت و حیات کا نظا م اس لیے قائم فرمایا ہے کہ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ انسان اپنی آزادی کا استعما ل کرتے ہو ئے کیسے اعما ل سرانجا م دیتا ہے ؟ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا تعلق ہے تو معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو بہترین ساخت میں پیدا فرمایا ہے ۔اس کی صنا عی کے منا ظر ہر طرف پھیلے ہو ئے ہیں لیکن یا د رکھو ایک دن تم سب کو اللہ کے حضور پیش ہو کر اپنے اعما ل کا حساب دینا ہے ۔وہی اللہ ہے جس نے تمہارے چلنے کے لیے راستے بنا ئے اور تمہیں ہر طرح کا رزق دیا اگر وہ چاہتا تو تمہیں زمین میں دھنسا بھی سکتا تھا یا تم پر کو ئی آسما نی آفت بھی بھیج سکتا تھا لیکن وہ تو تم پر مہربا ن ہے ۔یا د رکھو انکا ر کرنے والوں کا انجا م ہمیشہ ہی بُرا ہوا ہے لہٰذا اس سے بچ کر رہو ۔ ایک لمحہ رک کر فضا میں تیرنے والے پرندوں کو تو دیکھو ،انہیں فضا کی بلندیوں میںاللہ رحمان کے سوا کو ن تھا مے ہو ئے ہے ؟تم آج پو چھ رہے ہو کہ قیا مت کب آئے گی؟میرا جواب یہ ہے کہ اس کا قطعی علم تو اللہ کے پاس ہے لیکن جب وہ آئے گی تو انکار کرنے والوں کے چہرے بگڑ جا ئیں گے اور ان کے لیے کو ئی جا ئے پنا ہ نہیں ہو گی۔لہٰذا اور نہیں تو صرف اتنا ہی سوچ لو کہ اگر تمہارے کنووں کاپا نی زمین کی تہہ میں چلا جا ئے تو کون ہے جو اس کی بہتی ہو ئی سوتیں تمہیں نکا ل کر دے گا ؟ سورۃ القلم سورہ قلم مکی سورت ہے ۔اس میں 52آیات اور دو رکوع ہیں۔اس سورت کے مضامین تین طرح کے ہیں ۔کفار و مشرکین کے اعتراضات کے جوابا ت،ان کو نصیحت اور تنبیہ اور حضور ﷺ کو تسلی و تشفی۔سورت کے آغا ز میں قلم اور اس سے لکھنے والے فرشتوں کی قسم اٹھا کر کفار کے اس پروپیگنڈے کا جواب دیا گیا ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے فضل و کرم سے ہر گز پاگل اور دیوانے نہیں ہیںبلکہ ان پر اللہ تعالیٰ کا وہ فضل و کرم ہے جس کا سلسلہ کبھی بھی منقطع نہیں ہوگا ۔وہ اخلاق ِ عظیمہ کے سب سے بڑے رتبے پر فائز ہیں جس کی گواہی اپنے ہی نہیں غیر بھی دے رہے ہیں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے جب حضور ﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا ’’کان خلقہ القرآن‘‘ ان کا اخلا ق قرآن ہے ۔ مراد یہ ہے کہ جو کچھ قرآن میں الفاظ کی شکل میں موجود ہے وہ عمل کی دنیا میں حضور ﷺ کی زندگی میں بطریقِ اتم موجود ہے ۔آیت نمبر آٹھ سے ولید بن مغیرہ کانا م لیے بغیر اس کی بُری صفات کا ایسا تذکرہ ہے جنہیں دیکھ کر اُس کی اسلا م دشمنی ،حضور ﷺ کے ساتھ نفرت اور قرآن کے ساتھ عنا د کو صاف محسوس کیا جاسکتا ہے ۔اس تذکرے سے مقصود یہ تھا کہ ایک طرف حضرت محمد ﷺ کا اخلاق ہے اور دوسری طرف سرداران ِ مکہ کی بد اخلا قیوں کی ایک ہلکی سی جھلک ۔اب تم خود ہی دیکھ لو کہ کو ن دیوانہ اور کو ن فرزانہ ہے ؟اس کے بعد باغ والوں کی مثال دے کر ما ل و دولت کے پجاریوں کو سمجھایا گیا ہے کہ جس اللہ نے تمہیں ہر چیز سے مالا مال فرمایا ہے وہی خدا لمحوں میں واپس بھی لے سکتا ہے ۔یمن کے اس بہت ہی بڑے با غ کے ما لک، مسکینوں سے بچ بچاکر اپنی فصل اور پھل سمیٹنے جا رہے ہیں اور اس امر کو یقینی بنا رہے ہیں کہ کو ئی بھی مانگنے والا وہاں نہ آسکے ۔لیکن پھر کیا تھا ! جب وہ وہاں پہنچے تو نقشہ ہی بدلا ہوا تھا ۔ آسما ن سے آگ کا ایک بگولہ سب کچھ جلا کر خاکستر کر چکا تھا ۔وہ اپنی حرکات پر ندامت اور اپنے نقصان پر افسوس کررہے تھے لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی ۔یہ واقعہ ہر زما نے کے مادیت پرستوں کو واضح سبق دے رہا ہے کہ اپنی دولت پر سانپ بن کر بیٹھنے کی بجا ئے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔اسی ضمن میں قیا مت کا تذکرہ بھی ہے جہاں سارے راز کھل جا ئیں گے اور دنیا میں اکڑے ہو ئے بدن اور تنی ہو ئی گردنیں بھی اللہ کے سامنے جھکنا چا ہیں گی لیکن ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہو گا ۔آخر میں نبی اکرم ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ مچھلی والے (حضرت یونس) کی طرح نہ ہوجانا بلکہ صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ حالا ت کا مقابلہ کرتے رہنا ۔یقینا فتح آپ ہی کو ملے گی۔ سورۃ الحآقۃ سورہ حاقہ مکی سورت ہے ۔اس میں 52آیات اور دو آیات ہیں۔اس کے پہلے رکوع میں قیا مت اور دوسرے رکوع میں نبی اکرم ﷺ کے خلاف ہونے والے جھوٹے پروپیگنڈے کا جواب ہے ۔سورت کا آغاز قیا مت کے تذکرے سے ہوتا ہے کہ وہ ضرور ہی برپا ہو نے والی ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اس پر یقین نہیں رکھتی ۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں جس جس قوم نے قیا مت کا انکار کیا اللہ تعالیٰ نے اسے اس دنیا ہی میں اپنے عذاب کا مزہ چکھا دیا ۔اس سے قبل عاد اور ثمود سے لے کر فرعون تک جس جس نے بھی اللہ تعالیٰ کی توحید اور آخرت کا انکار کیا آخر کار عذابِ الہی کا کوڑا س پر اتنے زور سے برسا کہ با لآخر وہ تباہ وبر با د ہوا۔پھر ایک دن ا س کا رخانہ قدرت کو سمیٹ دیا جا ئے گا۔پہاڑ اور زمین اٹھا کر پٹخ دیے جا ئیں گے اور آسما ن پھٹ جا ئے گا۔یہ وہ دن ہوگا جب قیامت برپا ہو گی اور فرشتے اللہ کے عرش کو اٹھائے ہو ئے ہوں گے ۔پھر حساب و کتاب کا وہ مرحلہ شروع ہو گا جس کے نتیجے میںکچھ لوگوں کو ان کے اعما ل نا مے دائیں ہاتھ میں دیے جا ئیں گے تو وہ اپنا کامیا بی کا پروانہ دوسروں کو دکھاتے ہو ئے کہیں گے کہ ہمیں اس دن کے برپا ہو نے کا یقین تھا ۔آواز آئے گی آج تم جنت کی نعمتوں کا لطف اٹھاؤ اس لیے کہ تم بہت ہی اچھے اعما ل کا توشہ لے کر آئے ہو ۔اس کے برعکس جن کا نا مہ اعما ل ان کے با ئیں ہاتھ میں دیا جا ئے گا وہ کہیں گے کہ کا ش آج ہمارا نا مہ سیا ہ ہمیں دیا ہی نہ جاتا ۔وہ موت کو پکاریں گے لیکن انہیں صاف الفاظ میں جواب دیا جا ئے گا کہ یہاں پر موت کا وجود ہی نہیں ہے ۔فرشتوں کو حکم ہو گا کہ انہیں ستر گز لمبی زنجیر میں جکڑ کر واصلِ جہنم کردو اس لیے کہ یہ حقو ق اللہ اور حقو ق العبا د میں کو تا ہی برتتے تھے ۔سورت کے آخر میں نبی اکرم ﷺ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ کفار کا یہ پروپیگنڈہ با لکل جھوٹا ہے کہ محمدؐ شاعریا کاہن ہیں حقیقت یہ ہے کہ وہ اللہ رب العالمین کے بھیجے ہو ئے آخری رسول ہیں اور ان پر نا زل ہو نے والا کلا م نہ تو کہا نت ہے اور نہ ہی شاعری بلکہ وہ اللہ رب العا لمین کا کلا م ہے۔ سورۃ المعارج سورہ معارج مکی سورت ہے ۔اس میں 44آیات اور دو رکوع ہیں۔اس سورت میں قیا مت ،آخرت ،جنت اور دوزخ کا مذاق اور انکا ر کرنے والوں کو انتہا ئی دلنشیں اور مؤثر انداز میں جواب دیا گیا ہے ۔سورت کا آغا ز انتہا ئی چونکا دینے والا ہے کہ جس عذاب کے بارے میں کافر بڑی ڈھٹائی سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ کب آئے گا ؟ عنقریب وہ عذاب ان پر اس طرح مسلط ہوگا کہ اسے ہٹانے کی طا قت کسی کے پاس نہ ہو گی۔قیا مت کا ایک دن دنیا کے پچا س ہزارسالوں کے برابر ہو گا۔اُس دن ہر انسان پر نفسا نفسی کی ایسی کیفیت طاری ہو گی کہ ہر انسان اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو فدیے میں دے کر اپنی جا ن بخشی کے لیے تیار ہوگا لیکن وہاں کو ئی بھی کسی کے کا م نہ آ سکے گا ۔انسان بہت ہی تھڑ دلا پیدا ہوا ہے ۔اسے اگر مشکل پیش آتی ہے تو گھبرااٹھتا ہے لیکن اگر کو ئی کامیا بی مل جا تی ہے تو بُخل سے کا م لیتا ہے لیکن اللہ کے حضور جھکنے والے اپنی نما زوں میں ہمیشگی اختیار کرتے ،محروموں کو نوازتے ،عذابِ الٰہی سے ڈرتے،اپنی عفت کی حفا ظت کرتے،اپنے وعدوں اور اما نتوں کی نگہداشت کرتے اور اپنی قسموں پر قائم رہتے ہیں یہی وہ لو گ ہیں کہ انہیں اللہ کی جنت میں بہت ہی زیا دہ عزت دی جا ئے گی۔اس کے برعکس انکا ر کرنے والے اپنی پوری قوت کے ساتھ استہزا اور مذاق میں مگن ہیں لیکن انہیں معلو م ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس با ت پر پوری طرح قادر ہیںکہ وہ انہیں یہاں سے لے جا ئیں اور ایسے لوگو ں کو لے آ ئیں جو ان سے کہیں بہتر ہوں۔ایک دن ایسا ضرور آنے والا ہے جب یہ اپنی قبروں سے نکل کر اس حالت میں میدانِ محشر کی طرف بھا گیں گے کہ ان کی نگا ئیں ندامت سے جھکی ہو ئی ہوں گے اور خوف کے سائے انہیں دیوانہ بنا رہے ہوں گے۔ سورہ نوح سورہ نوح مکی سورت ہے ۔اس میں 28آیات اور دو رکوع ہیں۔اس سورت میں حضرت نو ح ؑ کی داستانِ عزیمت سنا کر کفارِ مکہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تم انکا ر کی جس روش پر چل رہے ہو اس کا نتیجہ بھی وہی ہو گا جو قوم ِ نوح کے ساتھ ہو چکا ہے لہٰذا اب بھی تمہارے پاس حق کو قبو ل کرنے کا موقع موجود ہے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے لیے بھی اللہ تعالیٰ کا ویسا ہی عذاب آجا ئے جس نے قومِ نوح کا ایک گھر بھی سلا مت نہ رہنے دیا تھا ۔سورت کا آغا ز حضرت نوح ؑ کی بعثت کے تذکرے سے ہوتاہوا ان کی شب و روز کی اُس محنت پر پہنچتا ہے جو انہوں ساڑھے نو سو سال بر پا فرما ئی ۔یہ دن و رات کی وہ مسلسل کشمکش تھی جس میں جنابِ نوح ؑ ایک اللہ کی طرف بلا رہے تھے ۔وہ کبھی چپکے اور کبھی اعلا نیہ دعوتِ حق دیتے رہے ۔انہوں نے اپنی قوم کو صاف الفاظ میں بتا یا کہ اگر تم پیغامِ الٰہی کو قبول کر لو تو اللہ تعالیٰ تم پر آسما ن و زمین کی ساری برکتیں نازل فرما ئے گا ۔تمہارے اموال اور اولاد میں ایسا اضا فہ ہو گا جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ تمہاری ایک ہی استغفار کے نتیجے میں آسما ن سے بارش نا زل ہو جا ئے گی اوہ زمین اپنے سارے خزانے تمہارے لیے اگل دے گی ۔لیکن پورے ساڑھے نو سو سال کی جُہدِ مسلسل کے نتیجہ یہ تھا کہ سوائے چند لوگوں کے ساری قوم ہی اللہ تعالیٰ کی نا فرما نی پر اصرار کرتی رہی ۔انہوں نے خدا کے با غیوں کے پیچھے چل کر تکبر و غرور کے رویے کو اپنا یا اور بتوں کی پوجا کرتے رہے۔پھر وہ وقت بھی آیا جب حضرت نوح ؑ نے بددعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو عرض کی اے میرے رب زمین پر انکار کرنے والوںکا ایک گھر بھی با قی نہ رہے ۔اللہ تعالیٰ نے جنا بِ نوح ؑ کی دعا کو من و عن قبول فرما کر انکار کرنے والوں کو پانی میں غرق فرما کر ساما نِ عبرت بنا دیا ۔ سورۃ الجن سورہ جن مکی سورت ہے ۔اس میں 28آیات اور دو رکوع ہیں۔اس سورت میں جنوں کے مقامِ نخلہ پر حضور ﷺ سے قرآن سننے اور اس کے اثرات کا تذکرہ ہے۔انسانوں کی طرح جن بھی اللہ تعالیٰ کی وہ مخلوق ہیں جنہیں احکامِ الٰہی کا مکلف بنایا گیا ہے ۔جنوں میں بھی مسلما ن اور کافر کی تفریق موجود ہے ۔اس واقعے میں بتایا گیا ہے کہ جب جنوں نے قرآنِ مجید کی تلاوت سنی تو اس کی خو بصورتی پر عش عش کر اٹھے اور کہا کہ ہم ایک اللہ پر ایما ن لا تے ہیں اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔جنوں کا کہنا تھا کہ ہمارے کچھ بے وقوف اللہ تعالیٰ کے بارے میں الٹی سیدھی با تیں کرتے ہیںحا لا نکہ انہیں اس سے با ز رہنا چاہیے اور اسی طرح انسانوں میں سے کچھ نا دان لو گ جنوں کی پنا ہ میں آتے ہیں حالا نکہ وہ ان کی خرابی میں ہی اضافہ کرتے ہیں۔نبوتِ محمدی سے پہلے تو ہم آسما نی خبروں تک تھوڑی بہت رسائی رکھتے تھے لیکن اب اگر ہم اس طرح کی جسارت کریں تو ایک روشن ستارہ ہمارا تعاقب کرتا ہے ۔ہم اللہ کو کبھی بھی عاجز نہیں کر سکتے کہ وہ ہماری با ز پرس سے دست کش ہو جا ئے ۔ہم میں نیکوکار بھی ہیں اور بدکردار بھی ۔نیکوکار اللہ کے ہاں اجرِ عظیم سے مالا ما ل اور گناہ گار سزا پا کر رہیں گے ۔جنوں کی اس داستان کے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا گیا ہے کہ مسجدیں اللہ واحد ہی کی عبادت کے لیے بنا ئی گئی ہیں لہٰذا اللہ کے سوا کسی کو مت پکارو ورنہ نامراد ہو جا ؤ گے ۔کافروںکا رویہ یہ ہے کہ جب بھی انہیں توحید کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اتنے غصے میں آجاتے ہیں جیسے آپے سے باہر ہو کر حملہ ہی کر دیں گے لیکن انہیں یا د رکھنا چا ہیے کہ قیا مت کے دن وہ اتنے بے بس ہو ں گے کہ کو ئی بھی انہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا ۔رہے رسولِ اکرم ﷺ تو انہیں کارِ نبوت چلا نے کے لیے غیب کی جن خبروں کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ انہیں ضرور عطا فرماتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کی حفاظت پر ما مور ہیں۔ سورۃ المزمل سورہ مزمل مکی سورت ہے ۔اس میں 20آیات اور دو رکوع ہیں ۔یہ سورہ مبارکہ نبی اکرم ﷺ کو کارہا ئے نبوت ادا کرنے کے لیے جس تیاری کی ضرورت تھی اس کا تذکرہ کرتی ، کفار کو کو ان کی تکذیب پر ڈراتی اور اہلِ ایما ن کو اعمالِ صالحہ پر ابھا رتی ہے۔سورت کے آغاز میں نبی اکرم ﷺ کو رات کے قیا م اور قرآن کی تلاوت کی ہدایت دیتے ہو ئے فرمایا گیا ہے کہ رات کو اٹھ کر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو نا انسان کے نفس کی تہذیب کے لیے بہت ہی ضروری ہے ۔اس طرح اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی راہ میں صبر کامیا بی کی کنجی ہے ۔اسی ضمن میں جھٹلا نے والوںکو صاف الفا ظ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم آج نبی اکرم ﷺ کو جھٹلا رہے تو اس سے پہلے فرعون نے بھی یہی روش اختیا ر کی تھی جس کے نتیجے میں ہم نے اسے عذاب میں اس طرح پکڑا تھا کہ اس کا ستیا نا س ہو گیا تھا ۔اب تم خو د ہی فیصلہ کر لو کہ اگر تم نے بھی اسی کے راستے کی پیروی کی تو تمہارا انجا م بھی انتہا ئی افسوس نا ک ہو گا ۔اسی ضمن میں اہلِ ایما ن کو فرمایا گیا ہے کہ اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کی کوئی ضروررت نہیں ہے تم اللہ کی عبادت جس قدر بھی آسانی کے ساتھ کر سکتے ہو کرتے رہو ۔اللہ تعالیٰ کو خوب معلو م ہے کہ تم جہاد فی سبیل اللہ اور رزقِ حلا ل کی تلا ش میں دن کے وقت تھک جاتے ہو لہٰذا قرآن کا اتنا ہی حصہ تلاوت کرو جتنا آسانی کے ساتھ کر سکتے ہو۔تمہاری نما ز ،زکوٰۃ اور انفا ق فی سبیل اللہ کا اجر اللہ کے ہاں ثابت ہو چکا ہے جو تمہیں ضرور مل کر رہے گا ۔ سورۃ المدثر سورہ مدثر مکی سورت ہے ۔اس میں 56آیات اور دو رکوع ہیں۔سورہ علق کے بعد نبی اکرم ﷺ جس صورتِ حال سے دوچار تھے اسے اس سورت میں بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ولیدبن مغیرہ کا نا م لیے بغیر تنقید کی گئی ہے ۔سورت کے آخر میں قیا مت کا تذکرہ بھی ہے ۔سورت کے آغاز میں نبی اکرم ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ اب چادر تان کر لیٹنے کا وقت ختم ہو گیا ہے ۔اب آپ نے لوگوں کو ان کے انجا مِ بد سے ڈرانا اور ان کے کردار و عمل کی تطہیر و تعمیر کا فریضہ سر انجا م دینا ہے ۔اس کے لیے اپنے دامن کو پاک و صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ راہِ حق کی مشکلات کو صبر کے ساتھ برداشت کرنا ہے ۔ولید بن مغیر ہ اور اس جیسے کفر کے علمبردار آپ کا راستہ روکنے کی کوشش کریں گے ۔ان کا خیال یہ ہے کہ ان کا ما ل اور اولا د انہیں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچا لے گا تو یہ ان کی بھول ہے ۔عنقریب ہم ان کی سونڈھ پر عذابِ الٰہی کی وہ ضربیں لگا ئیں گے کہ انہیں حقیقت صاف معلو م ہو جائے گی ۔پھر یہی نہیں ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے جب یہ منکرین اپنے جرائم کا اعتراف کریں گے اور انہیں ان کے برے اعما ل کی سزا مل کر رہے گی ۔یہ قرآن تو ایک یاد دہا نی ہے جو لوگوں کو ان کے انجام سے خبردار کر رہا ہے۔ سورۃ القیامہ سورہ قیا مہ مکی سورت ہے ۔اس میں 40آیات اور دو رکوع ہیں۔یہ سورت جیسا کہ اس کے نا م سے ظاہر ہے کہ اس منظر نا مے کو پیش کر رہی ہے جب سارے انسان اللہ کے حضور جمع کر دیے جا ئیں گے ۔انسان پو چھتا ہے کہ یہ قیا مت کب آئے گی ؟ اسے بتا دیجیے جب سورج اور چا ند اکٹھے کیے جائیں گے ،دیدے پتھرا جائیں گے اور چاند بے نور ہو جا ئے گا تو تم اس دن کو اپنی نگا ہوں کے سامنے آتاہوا دیکھ لو گے ۔اس دن انسان کو بتا دیا جا ئے گا کہ وہ آگے کیا لے کر آیا ہے اور پیچھے کیا چھوڑ آیا ہے ۔اس کے ایک ایک عمل کا پورا پورا حساب ہو گا ۔اسی ضمن میں نبی اکرم ﷺکو یہ بھی ہدایت دی گئی ہے کہ جبریل ؑ کے پیچھے تیزی سے قرآن پڑھنے کی کو ئی حاجت نہیں ہے جس خدا نے یہ کلا م نازل فرمایا ہے وہی اسے جمع بھی کرے گا اور اسے پڑھوانے کا بندوبست بھی فرما ئے گا ۔لیکن انسان جلد ملنے والے فائدے کا رسیا ہے اور بعد مین آنے والی آخرت سے غافل ہے ۔آیت نمبر31سے ابو جہل کے اس رویے کا تذکرہ ہے جو اس نے نبی اکرم ﷺ کی دعوت کو جھٹلا نے کے لیے اپنا رکھا تھا ۔اس کا تکبر اور غرور ، ما ل و دولت پر اکڑنا اور آیاتِ الٰہی سے پہلو تہی ایسے جرائم ہیں جن کی سزا اللہ کے غضب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سورۃ الدہر سورہ دہر مکی سورت ہے ۔اس میں 31آیات اور دورکوع ہیں۔یہ سورت انسان کو اس دنیا میں اس کے حقیقی مقام سے آگا ہ کرتی ہے۔سورت کے شروع میں انسان کو اس کا حقیقی مقام یاد دلایا جا رہا ہے کہ ایک زما نہ تھا کہ وہ کو ئی قابلِ ذکر چیز ہی نہ تھا لیکن یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اُس نے اسے عدم سے وجود بخشا ۔اور اس سے بھی بڑی مہربا نی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نیکی اور بدی کی تمیز بخشی ہے اور پھر یہ اختیار بھی اسے ہی دے دیا ہے کہ وہ حق و با طل میں سے جس راستے کا انتخا ب کرنا چاہتا ہے اسے اس کی مکمل آزادی حاصل ہے ۔اللہ کے نیک بندے معاشرے کے کمزوروں کی مدد کرتے اور ہر کا م رضائے الٰہی کیلئے کرتے ہیں۔ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت میں طرح طرح کی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جہاں وہ عیش و آرام کے ساتھ رہیں گے ۔سورت کے آخر میں قرآن کے نزول کا یہ مقصد بیان کیا گیا ہے کہ انسان اس سے نصیحت حاصل کر کے صراطِ مستقیم پر رواں دواں ہو سکتا ہے۔ سورۃ المرسلات سورہ مرسلا ت مکی سورت ہے۔اس میں 50آیات اور دو رکوع ہیں۔اس سورت کا موضوع آخرت کا اثبا ت اور منکرین کو ان کے انجا مِ بد سے ڈرانا ہے ۔سورت کے آغاز میں ہواؤں کی قسمیںاٹھا کر انسان کو متوجہ کیا گیا ہے کہ ایک دن ایسا بھی آنے والا جب یہ سارا کا رخانہ قدرت فنا کر دیا جائے گا ۔جب تارے بے نور ہو جا ئیں گے ،آسمان پھٹ جا ئے گا اور پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جا ئیں گے تو فیصلے کا دن آجا ئے گا ۔اس دن اگلے پچھلے سب ہی اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دیے جا ئیں گے ۔جھٹلانے والوں کے لیے ایسی تبا ہی و بربا دی ہو گی جس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جا تے ہیں۔اس کے برعکس اللہ سے ڈرنے والے اللہ کی سدا بہار جنت میں ہر طرح کی نعمتیں پا کر شا د کا م ہوں گے ۔انہیںکہا جا ئے گا کہ آرام اور سکون کے ساتھ ابدی جنت میں ہمیشہ کے لیے رہو اب تمہیں یہاں سے کو ئی نکا ل نہیں سکتا ۔