• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی سطح پر کشیدگی گھٹانے اور فروغ امن کے لئے چند دنوں کے اندر سامنے آنے والی کوششیں اور اشارے متقاضی ہیں کہ ان کا خیرمقدم کیا جائے۔ منگل (12؍جون 2018ء) کو سنگاپور کے سیاحتی جزیرے سینتوسا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جون ان کے درمیان تاریخی ملاقات میں امن کے لئے مشترکہ جدوجہد اور جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے جس عزم کا اظہار کیا گیا اس میں آگے بڑھنے کے طریقوں سے اگرچہ میڈیا کو سردست آگاہ نہیں کیا گیا مگر حوصلہ افزا امکانات مشترکہ اعلامیے کے الفاظ اور دونوں سربراہوں کے رویے سے نمایاں ہیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ اس ملاقات کے بعد نہ صرف جزیرہ نما کوریا میں امن و ترقی کی راہ ہموار ہوگی بلکہ امریکی حکومت افغانستان سمیت دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے مسائل کے پرامن حل کی طرف بھی بڑھے گی۔ ایسے حالات میں کہ ، امریکہ کے ایران کے ساتھ نیو کلیئر ڈیل سے نکل جانے پر کئی ممالک معترض ہیں، صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی پر یورپ اور کینیڈا ناخوش نظر آرہے ہیں، عالمی تجارت کے حوالے سے وہائٹ ہائوس کے بیانات سرد جنگ کے طور پر دیکھے جارہے ہیں اور مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کے قیام سے فلسطین کے مسئلے پر عالم اسلامی میں بے چینی کی کیفیت نظر آرہی ہے، شمالی کوریا اور امریکی صدور کے درمیان کشیدگی دور کرنے کا مذکورہ فیصلہ اس امکان کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ حقائق دیر سے ہی سہی خود کو منوالیں گے۔ چین امریکہ سے تجارتی جنگ سے بچنے کے لئے بعض رعایتوں کا اعلان کرچکا ہے جبکہ بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان مذاکرات کا ایک دور پچھلے ہفتے ہی ہوچکا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے 9؍ اور 10؍جون کو منعقدہ اجلاس کے دوران روسی صدر کا امریکی صدر سے ملاقات کی خواہش کا اظہار اور ٹرمپ کا روس کی شمولیت سے جی سیون کو دوبارہ جی ایٹ بنانے کا عندیہ بھی امن کے نئے امکانات کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ ایس سی او کے اسی اجلاس میں پاکستان کے صدر ممنون حسین اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان مصافحے کو عالمی میڈیا نے غیرمعمولی اہمیت دی جبکہ چند دن قبل نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر سیز فائر معاہدے کی پاسداری پر اتفاق ہوچکا ہے۔ یہ سب بظاہر چھوٹی چھوٹی پیش رفتیں ہیں مگر ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی صورت حال میں کشیدگی کم ہونے کا عنصر موجود ہے اور امن کوششیں مخلصانہ طور پر جاری رکھی جائیں تو بارآوری کے امکانات کم نہیں ۔ افغانستان میں یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے حالات نے نہ صرف افغان باشندوں کو انتہائی مشکل صورت حال سے دوچار کیا بلکہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں بھی بے یقینی کی کیفیت پیدا کی۔ افغانوں کی سرزمین پر سوویت مداخلت کے بعد سے جو کچھ بھی ہوا، اس کی ذمہ داریوں سے امریکہ بری الذمہ نہیں ہوسکتا اور اسے ہی اس باب میں ٹھوس اقدامات کرنے ہیں۔ پاکستان، افغانستان سے تاریخی و ثقافتی رشتوں اور باہم ملحقہ سرحدوں کے باعث اس صورت حال سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان اپنی سرحدوں میں درانداز دہشت گردوں سے بڑی حد تک نمٹنے کے بعد افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں بہتر طور پر تعاون کرنے کے قابل ہے۔ منگل کے روز پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کابل پہنچ کر افغان صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور امریکی کمانڈر ریزولیوٹ سپورٹ مشن جنرل جان نکلسن سے جو ملاقاتیں کیں وہ پاکستان کی ان کوششوں اور خواہشوں کی مظہر ہیں کہ امریکی اور نیٹو فورسز پرامن و مستحکم افغانستان چھوڑ کر جائیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ افغانستان میں جنگ بندی کو مستحکم بنانے سمیت پاک افغان ایکشن پلان پر عملدرآمد اور دیگر امن کوششوں کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

تازہ ترین