• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جی این مغل
اس کالم میں سب سے پہلے یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ سندھ کے عوام پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار کا بے پناہ احترام کرتے ہیں، اس کی کئی ٹھوس وجوہات ہیں، چیف جسٹس کی طرف سے مجموعی طور پر سارے پاکستان اور خاص طور پر سندھ میں کرپشن اور نااہلیت کا نوٹس لیا گیا اور اس سلسلے میں کئی مقدمات کی سماعت شروع ہوئی، سندھ کے عوام، حکومت اور افسر شاہی کی بے پناہ کرپشن اور نااہلی سے تنگ آچکے تھے ،اس سلسلے میں جب چیف جسٹس صاحب نے سندھ بھر میں دفاتر، اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے دورے کرکے وہاں کی حالت زار کا ذاتی طور پر جائزہ لیا تو سندھ کے عوام ان کو سندھ کا نجات دہندہ تصور کرنے لگے، بعد میں چیف جسٹس نے اسی قسم کے دورے باقی تین صوبوں کے بھی کئے مگر پتہ نہیں کیوں سندھ میں ان کارروائیوں کی رفتار اچانک کم ہوگئی ہے، سندھ کے عوام چیف جسٹس صاحب سے توقع کررہے ہیں کہ اس مہم کو ترک نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کی رفتار اور تیز کی جائے گی ۔ اس سلسلے میں سندھ کے عوام بڑی امیدوں اور توقعات کے ساتھ مسلسل ان کی طرف دیکھ رہے ہیں،اسی دوران کچھ وکلا نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے ایشو کو حل کیا جائے یہ عناصر ہر حال میں کالا باغ ڈیم بنانا چاہتے ہیں، چاہے اس کا فنی جواز ہو یا نہ ہو ،مگر سندھ کے عوام اس وقت بہت مطمئن ہوئے جب چیف جسٹس صاحب نے رولنگ دی کہ ’’ ہم عدلیہ کو متنازع ایشو میں پھنسانا نہیں چاہتے‘‘ اس ایشو پر سندھ کا ایک مضبوط موقف ہے، چیف جسٹس صاحب نے اس مرحلے پر ایک انتہائی اہم بات بھی کی کہ ہر سال دریا کا پانی بڑی مقدار میں سمندر میں جاکر ضائع ہوجاتا ہے، اس سلسلے میں جناب چیف جسٹس صاحب سے بڑے ادب سے درخواست کروں گا کہ وہ پہلی فرصت میں کوٹری بیراج آئیں اور وہاں کھڑے ہوکر بیراج کی دوسری طرف نظر ڈالیں کہ اس وقت کتنا پانی بیراج کے نیچے سے جارہا ہے۔ در حقیقت جب دریا میں سیلاب آتا ہے تو پنجاب کے ہمارے ’’مہربان‘‘ یہ سارا سیلابی پانی سندھ کی طرف روانہ کردیتے ہیں جو سمندر میں گرتا ہے، بے پناہ مقدار میں سیلابی پانی کے دریائے سندھ اور کینالوں میں آنے کی وجہ سے سندھ بھر میں بند ٹوٹتے ہیں اور ہزاروں گائوں اور درجنوں شہر زیر آب آجاتے ہیں، جس کے نتیجے میں سینکڑوں نہیں غالباً ہزاروں لوگ بے گھر ہوجاتے اورانہیں نقل مکانی کرکے کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شہروں میں پناہ لینا پڑتی ہے۔ اگر چیف جسٹس صاحب سپر ہائی وے کا دورہ کریں تو انہیں اندازہ ہوگا سینکڑوں متاثرین خیموں میں زندگی بسر کررہے ہیں، ان میں مرد، خواتین اور بچےشامل ہیں، سندھ کے عوام جناب چیف جسٹس صاحب سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس علاقے کا معائنہ کریں پھر اس وقت کی وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت سے پوچھیں کہ کیا یہ انسان نہیں ہیں جو اس طرح کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ایک مرحلے پر یہ اطلاعات آئی تھیں کہ اس وقت کی حکومت سندھ کسمپرسی کی زندگی گزارنے والے ان متاثرین کو کراچی شہر کے کسی علاقے میں آباد کرنے کے لئے منصوبہ بندی کررہی ہے مگر بعد میں یہ منصوبہ خاموشی سے ترک کردیا گیا۔ اس سلسلے میں یہ اطلاعات بھی تھیں کہ اس وقت کی سندھ حکومت نے یہ فیصلہ ان کے اس وقت کی اتحادی جماعت کے دبائو میں کیاتھا۔
جناب چیف جسٹس صاحب سے اپیل ہے کہ وہ ان سارے معاملات کی تحقیقات کے لئے کوئی عدالتی کمیشن بنائیں، اس مرحلے پر میں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ کافی عرصے سے سندھ کے ساتھ دو قسم کی زیادتیاں ہورہی ہیں، جب دریا میں سیلاب آتا ہے تو بالائی علاقوں سے یہ سیلاب سندھ کی طرف منتقل کردیا جاتا ہے پھر یہاں کے وسیع علاقوں میں بھی سیلاب آجاتا ہے جس سے صوبے کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے، دوسری طرف جب دریا میں پانی کی شدید کمی ہوتی ہے توبالائی علاقوں سے پانی کی یہ شدید قلت سندھ کو منتقل کردی جاتی ہے ، پنجاب منگلا ڈیم سے پانی لیتا ہے مگر سندھ کو اس کے پانی کا کوئی حصہ نہیں دیتا حالانکہ منگلا ڈیم کے پانی پر ملک کے زیریں علاقے سندھ کا بھی حق ہے ۔ علاوہ ازیں پنجاب نے جو سی جے لنک، ٹی پی لنک اور گریٹر تھل بنائے ہوئے ہیں ان سے سندھ کے پانی پر ڈاکہ مارا جاتا ہے جو اس وقت بھی ہورہا ہے جبکہ دریائے سندھ میں پانی کی اتنی کمی ہوتی ہے کہ کینال خشک ہوجاتے ہیں، نہ صرف سندھ میں زرعی زمین کے وسیع علاقے کو پانی نہ ملنے سے وہاں فصلوں کی کاشت نہیں ہوپاتی،بلکہ کئی لوگوں کو بار بار نقل مکانی کرنا پڑتی ہے، صرف یہ ہی نہیں سندھ کے شہروں اور خاص طور پر دیہات میں پینے کے لئے پانی میسر نہیں ہوتا حتیٰ کہ جانور اور پرندے بھی پانی کے لئے ترس رہے ہوتے ہیں اس وقت بھی سندھ میں یہی صورتحال ہے۔ جناب چیف جسٹس صاحب سے سندھ کے عوام یہ بھی اپیل کرتے ہیں کہ آپ اس وقت خود بنفس نفیس سندھ کے ان متاثرہ علاقوں کے دورے اور معائنہ کریں اور متاثرین سے حال احوال بھی معلوم کریں اور ساتھ ہی سندھ کے بیراجوں اور کینالوں کا بھی دورہ کریں تو ساری صورتحال آپ کے سامنے ہوگی، یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف سندھ کی یہ صورتحال ہےجبکہ دوسری طرف پروپیگنڈا کیا جائے کہ کوٹری بیراج سے اتنی وافر مقدار میں پانی سمندر میں جاکر ضائع ہورہا ہے، چیف جسٹس صاحب سے یہ بھی درخواست ہے کہ وہ ٹھٹھہ اور بدین کے سمندری علاقے کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ کتنا پانی سمندر میں جارہا ہے۔ اگر محترم چیف جسٹس صاحب کو فرصت نہیں تو انہوں نےسینئر وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن کی سربراہی میں جو کمیٹی بنائی ہے جسے یہ فرض سونپا گیا ہے کہ وہ پانی کی صورتحال کے بارے میں تحقیق کرکے انہیں اپنی رپورٹ دیں، اس کمیٹی کو فوری طور پر سندھ کا دورہ اور یہاں دریا اور کینالوں میں دستیاب پانی کا معائنہ کرناچاہئے ساتھ ہی سندھ کے آبپاشی کے محکمے کے افسران سے ملاقاتیں کرکے ان کا موقف اور پانی کے بارے میں صورتحال اور حقائق معلوم کئے جائیں۔
تازہ ترین