• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خصوصی تحریر …محمد منصور خان
پاک بھارت آبی تنازع شروع سے ہی دونوں ممالک کیلئے بے حد اہم رہا ہے۔ 1947ء میں جب پاک بھارت تقسیم ہوئی تو اس وقت برصغیر میں چھ دریا تھے۔ انڈس، جہلم، چناب، راوی، ستلج اور بیاس جس میں سے تین دریا انڈس، جہلم اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے۔ لیکن تقسیم کے بعد بھارت نے دریائے نیلم، چناب اور جہلم پر ڈیم بنانے شروع کئے تو پاکستانی حکومت کو خطرے کی نزاکت کا احسا س ہوا جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کے پاس اس مسئلے کو لے گیا۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے پاک بھارت آبی مسئلے پر ایک معاہدہ ’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ کے نام سے ہوا جس کی ایک شق یہ بھی تھی کہ اگر دونوں ممالک میں سے کوئی چاہے تو اپنی ضرورت کیلئے اور پانی کے محفوظ کرنے کیلئے دریائوں پر ڈیم کی تعمیر کر سکتا ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ جتنے بھی دریا آئے وہ سب کے سب بھارت کے راستے سے ہوکر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اس شق کے بعد بھارت نے تینوں دریائوں پر دھڑا دھڑ بند اور ڈیم بنانے شروع کر دیئے اور آج ان پر 65سے زیادہ ڈیم تعمیر کئے جا چکے ہیں۔ اور اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اب تک پاکستان میں صرف 2ہی ڈیم تعمیر ہوئے ہیں۔
کشن گنگا ڈیم کی تکمیل ایک انتہائی خوفناک منظر نامہ ہے۔ بھارت میں جس دریا کو کشن گنگا کہتے ہیں پاکستان میں وہ دریائے نیلم سے جانا جاتا ہے۔ یہ دریا وادی نیلم سے ہوتا ہوا مظفر آباد کے قریب دو میل کے مقام پر دریائے جہلم میں شامل ہو جاتا ہے۔ اب بھارت نے 22کلومیٹر سرنگ بنا کر اس کا رُخ موڑ دیا ہے۔ اب یہ وادی نیلم میں نہیں بہے گا۔ کشن گنگا پراجیکٹ کے لیے اسے وولر جھیل کے ذریعے بارہ مولا کے مقام پر مقبوضہ کشمیر ہی میں دریائے جہلم میں ڈال دیا گیا ہے۔ یعنی اس کے قدرتی بہائو کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ وادی نیلم میں مون سون کی بارشیں نہیں ہوتیں۔ اسے ’’نان مون سون‘‘ ایریا کہا جاتا ہے۔ اس وادی کا 41ہزار ایکڑ رقبہ دریائے نیلم سے سیراب ہوتا ہے۔ بارہ سو ٹن ٹرائوٹ مچھلی سالانہ اس علاقے سے پکڑ کر مقامی لوگ لوکل مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔ یہ بھی ختم ہو جائے گی۔ جنگلات کا مستقبل بھی ایک سوالیہ نشان ہو گا۔ یہی نہیں پاکستان کے نیلم جہلم پراجیکٹ کا مستقبل بھی مخدوش ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
ارسا کی رپورٹ کے مطابق آبپاشی کے لئے پانی کی قلت میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ ذخائر میں بھی صرف دو لاکھ بیس ہزار ایکڑ فٹ پانی رہ گیا۔ ارسا اعداد و شمار کے مطابق دریائوں میں پانی کی آمد ایک لاکھ 12ہزار نو سو اور اخراج ایک لاکھ 19ہزار تین سو کیوسک ہے، آبی ذخائر میں پانی کا ذخیرہ بھی صرف دو لاکھ بیس ہزار ایکڑ فٹ ہے، سندھ اور پنجاب کو اکیاون فیصد کمی کا سامنا ہے، دونوں صوبوں کو بالترتیب پچپن ہزار اور ستاون ہزار کیوسک پانی فراہم کیا جا رہا ہے، بلوچستان کو آٹھ ہزار اور خیبر پی کے کو تین ہزار کیوسک پانی فراہم کیا جا رہا ہے، مجموعی طور بھی پانی کی قلت انچاس فیصد سے زیادہ ہے۔ ارسا کے مطابق روم اسٹیشنز پر اکیاون اور کینالز میں قلت 65فیصد تک ہے۔ 1950ء میں ملک میں پانی کی فی کس دستیابی 5ہزار کیوبک میٹر تھی جو 2015ء میں کم ہو کر ایک ہزار کیوبک میٹر ہو گئی ہے جبکہ 2009ء کے دوران پاکستان میں فی کس 1500کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا۔ پاکستان کا شمار پانی کی قلت کے مسائل کا سامنا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے اور اس وقت پاکستان میں کل دریائی پانی 153ملین ایکڑ فٹ ہے جبکہ زمین کے نیچے پانی کا تخمینہ 24ملین ایکڑ فٹ ہے۔ آبادی کی شرح کو دیکھتے ہوئے اگر آبی ذخائر نہ بنائے گئے تو 2025ء تک پاکستان کو 33ملین ایکڑ فٹ پانی کی قلت ہو گی۔
بھارت نے کشن گنگا ڈیم کیس میں جو کامیابی حاصل کی ہے اس کی وجہ بھارت کی اچھی وکالت یا اس کے مؤقف کا برحق ہونا نہیں ہے بلکہ عالمی ثالثی عدالت میں پاکستان کا یہ اہم مقدمہ غیر ملکی وکلا لڑتے رہے کیونکہ نامعلوم وجوہ پر انڈس واٹر کمیشن پاکستان کے وکیل کی خدمات واپس لے لی گئی تھیں اور ظاہر ہے کہ یہ ایشو پاکستان کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے وکیلوں کے لیے ہرگز نہیں۔
اس سارے معاملے میں ہماری حکومتوں نے جس بے بصیرتی، جہالت اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا وہ اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ بھارت نے اس پراجیکٹ پر کام شروع کیا تو پاکستان نے انٹرنیشنل کورٹ آف آربٹریشن سے رجوع کر لیا۔ عدالت نے پاکستان سے کہا کہ وہ پانی کے حوالے سے سارا ڈیٹا شواہد کے ساتھ عدالت کو فراہم کرے۔ پاکستان کی تیاریوں کا عالم یہ تھا کہ جب عدالت نے یہ ڈیٹا مانگا تو حکومت کے پاس عدالت کو دینے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں۔ خفت مٹانے کے لیے عدالت سے کہا گیا دس دنوں کی مہلت دے دیجئے ہم سب کچھ پیش کر دیںگے۔
سندھ طاس معاہدہ کے ضامن کی حیثیت سے عالمی بنک کا کردار نہایت محدود ہے جس کہ وجہ سے پاکستان بھارت آبی تنازع کے حل کیلئے ہونے والی پاکستانی وفد کی گزشتہ دنوں ملاقات نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی۔ سندھ طاس ایک اہم ترین بین الاقوامی معاہدہ ہے جو پاکستان اور بھارت کو اپنے عوام کی ضروریات پوری کرنے کیلئے حال اور مستقبل میں پانی کے مؤثر انتظام کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے ایک ضروری تعاون پر مبنی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ لگتا ہے پاکستانی وفد اپنا کیس پوری طرح تیار کئے بغیر چلا گیا۔
ڈیم دنوں میں نہیں بنتے۔ بھارت کو متنازع کشن گنگا ڈیم بنانے میں 9سال لگے۔ یہ ٹائمنگ کا مسئلہ تھا، جس سے فائدہ نہ اُٹھایا جا سکا اور دیر سے فیصلہ کرنے اور قدم اُٹھانے کے باعث آج کی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اس وقت اگر ہم عالمی سطح پر اپنا مؤقف واضح کرنے کی کوشش کرتے اور دنیا کو بتاتے کہ بھارت جو کچھ کرنے جا رہا ہے، وہ سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور پاکستان کو بنجر بنانے کی سازش ہے عالمی برادری کی معقول حد تک حمایت حاصل کی جاتی جو بھارت کو اس پاکستان دشمن منصوبے پر عمل سے باز رکھنے کیلئے مؤثر دبائو ثابت ہوتی۔ مگر افسوس حد افسوس اس سلسلے میں منصوبہ بندی کے ساتھ کوئی اہم اقدام نہ اُٹھائے جا سکے۔
تازہ ترین