• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز کی مغربی سرحد کے پار سے اچھی خبر آئی کہ افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان عیدالفطر کے موقع پر سہ روزہ سیزفائر پر اتفاق ہوگیا، کہا جارہا ہے کہ 2001ءمیں امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے افغانستان پر حملے اور مسلح کارروائیوں کے آغاز سے اب تک پہلی بار طالبان نے باضابطہ جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ اس تاریخی جنگ بندی کے حوالے سے مقامی میڈیا ایسی تصاویر سامنے لایا ہے جس میں افغان طالبان افغان فورسز کے سپاہیوں کیساتھ بغل گیر ہورہے ہیں تو کہیں طالبان کو افغان جھنڈے کیساتھ شہر کے مختلف حصوں میں گھومتے دیکھا جاسکتا ہے۔ کچھ تصاویر میں دیکھایا گیا ہے کہ مقامی شہری غیر مسلح طالبان جنگجوئوں کیساتھ سیلفیاں بنارہے ہیں اور کہیں افغان حکومت کے بااثر وزیرداخلہ کے ساتھ سڑک کنارے گپ شپ کر رہے ہیں۔ بعض رپورٹس میں جنگ بندی کے دوران کابل میں غیر مسلح طالبان جنگجوئوں کے داخل ہونے کے بھی دعوے کئے گئے ہیں۔ شاید امن کے قیام کے انہی دوطرفہ جذبات کو بھانپتے ہوئے اس سال فروری کے مہینے میں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے طالبان کو پیشکش کی تھی کہ وہ قانون کی پاسداری کریں تو افغان حکومت پیشگی شرائط کے بغیر امن مذاکرات اور طالبان کو قانونی سیاسی گروہ تسلیم کرنے پر تیار ہے۔ تاہم پاکستان کی کوششوں سے ایک نقطے پر رضا مند ہونے میں کم وبیش چارماہ لگ گئے۔ تاہم امن پسندی کی خواہش میں افغان صدر کی جنگ بندی میں توسیع کےیکطرفہ اعلان کو افغان طالبان نے مسترد کر کے جلال آباد میں گورنر ہائوس کے باہر خوفناک دھماکے کر کے اپنی کارروائیاں پھر شروع کردیں۔
راقم نے امریکی صدرٹرمپ کی اعلان کردہ نئی جنوبی ایشیائی پالیسی کے ردعمل میں اپنے9جنوری اور13فروری کے کالموں میں نشاندہی کی تھی کہ پاکستان کو جوابی طور پراپنی 17سالہ قربانیوں کے بیانیے اور معذرت خواہانہ لہجے وحکمت عملی کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ سمیت اقوام عالم کے سامنے دہشت گردی اور انتہا پسندی کی عفریت کی نذر ہونیوالے 60سے70 ہزار پاکستانیوں اور 10ہزار374 ارب روپے کے بھاری مالی نقصانات کا معاملہ اٹھانا چاہئے، پرائی جنگ سے پاکستان کے اربوں ڈالر کے بنیادی انفراسٹرکچر کی تباہ حالی، بیرونی سرمایہ کاری پر بندش سے1996ارب روپے جبکہ پرائیوٹائزیشن نہ ہونے سے3سو ارب روپے نقصان کا ذکر کرنا چاہئے۔ ٹیکس وصولیوں میں 5ہزار920ارب روپے کمی سمیت نئی نسل کو درپیش چینلجز کےمسائل کے حل کا مطالبہ کرنا چاہئے اور اپنی امن کوششوں کا بے خوف پرچار کرنا چاہئے۔ پاکستان کی سول وعسکری قیادت نے امریکی جنوبی ایشیائی پالیسی کےجواب میں ردعمل کی بجائے ضبط کا بیانیہ پیش کیا ہے۔ بلاشبہ پاکستان برسوں سے ملٹری آپریشن کی بجائے مذاکراتی حکمت عملی کو افغان مسئلے کا حل سمجھتا ہے تاہم مسئلے کے فریقین کی جانب سے اِسے دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ دہشت گردی کیخلاف سینہ سپر پاکستان کی مسلح افواج اور بہادر عوام کی جانب سے مذاکرات کی بات پر شک کیا گیا۔ مغربی طاقتوں کیلئے کسی المیہ سے کم نہیں کہ گزشتہ ایک دہائی بالخصوص 2012اور اس کے بعد بھی کئی یورپی ممالک کی مذاکراتی کوششوں کے باوجود افغان طالبان کو جنگ ترک کرنے پر آمادہ نہیں کیا جاسکا۔ اوباما ایڈمنسٹریشن کی جانب سے 2016تک افغانستان سے اتحادی فورسز کےانخلاء کےاعلان کے بعد چار فریقی مذاکراتی فورم بنایا گیا، پاکستان، امریکہ اور افغانستان کے بعد پہلی مرتبہ چین کو بھی شامل کر لیا گیا۔ پاکستان نے تمام تر خطرات کے باوجود معجزہ کر دکھایا، 2014ءاور2015ءمیں افغان طالبان کو مزاکرات کی میز پر بیٹھا دیا۔ تاہم کسی موقع پر افغان اور امریکی انتظامیہ کی جانب سے عدم اعتماد کی فضا نے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کردیا اور افغان طالبان کے غصے میں بھی اضافہ کیا۔ جنگجوانہ کارروائیوں میں شدت آگئی اور ہر روز درجنوں امریکی واتحادی فوجی اور افغان سویلین بدترین دہشت گرد کے واقعات کا نشانہ بننے لگے۔ دوسری طرف پاکستان نے تن تنہا اپنے ملک سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کی خاتمے کی جامع حکمت عملی بنائی،20نکاتی ایکشن پلان بنایا اور80 سے 90 فی صد دہشت گردی کا خاتمہ کردیا۔ بے چہرہ دشمن سے لڑنے والے پاکستان نے اپنے تئیں دنیا کو امن دینے کے لئے پیغامِ پاکستان کے پلیٹ فارم سے ملک بھر کے جید علماء کو اکٹھا کیا اور 18 سو علماء نے خودکش حملوں کے خلاف فتویٰ دے دیا جس کی تقلید انڈونیشیا نے بھی کی۔ بدقمستی سے انہی کوششوں کے دوران پاکستان پر تعاون نہ کرنے اور حقانی نیٹ ورک کو پناہ دینے جیسے الزامات لگائے گئے اور پاکستان دشمن قوتوں نے بھی اس کو خوب ہوا دی جس میں اپنے پرائے سب ہی شامل تھے۔ پھر وقت نے ثابت کیا ہے کہ اگر پاکستان مسئلے کا حصہ ہے تو پاکستان مسئلے کے حل کا بھی حصہ ہے۔ اسی لئے امریکہ کی درخواست پر پاکستان نے افغان طالبان کیساتھ مذاکرات کیلئے ہر ممکن مدد کی فراہم کی اور افغان حکومت نے کئی اہم اقدامات اٹھائے پھر نتیجتاً افغان طالبان پہلی مرتبہ جنگ بندی پر راضی ہوگئے۔ امریکہ کی دوسال سے سردمہری کے باوجود بھی پاکستان نے اپنی پرخلوص اور یک طرفہ امن کوششوں کو ترک نہیں کیا، انٹیلی جنس انفارمشن شئیرنگ اور دیگر اقدامات کو بھی جاری رکھا، امریکہ کی جانب سے پاکستان کی کوششوں کو کھلےعام تسلیم کیا جاتا ہے نہ سراہا جارہا ہے لیکن افغانستان میں حالیہ مسلسل دہشت گرد جھٹکوں بلخصوص طالبان جنگجوئوں کے جنوب اور مغربی علاقوں سے متواتر حملوں نے امریکی واتحادی فورسز کو بے حال کردیا ہے۔ کھربوں ڈالر اور ہزاروں فوجیوں کی جانوں کا ضیاع کر کے شاید امریکہ کو احساس ہورہا ہے کہ محض فوجی کارروائیوں سے امن ممکن نہیں۔ امریکہ کی اس سوچ کا عملی اظہار ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان کو ایس او ایس کال کر کے جمود کے شکار تعلقات میں رابطوں کی بحالی کا قدم ہے اور یہی اسکی کمزور ہوتی صلاحیت کے احساس اور متبادل سوچ کے اظہار کا نمونہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ پومپیو کا آرمی چیف جنرل باجوہ سے رابطہ اور آرمی چیف کا دورہ کابل اور نائب امریکی صدر کا پاکستان کے نگران وزیراعظم سے رابطہ، پاکستان کو مطلوب ملا فضل اللہ سمیت دیگر بڑے دہشت گردوں کیخلاف کارروائیوں کیلئے انٹیلی جنس تعاون، خطے کے معاملات اور حالات کی بہتری کا پتہ دے رہے ہیں۔ اگر پائیدار امن کی درست سمت کا تعین کر لیا گیا ہے تو یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ40سال کے مسئلے کو حل ہونے میں مزید کچھ برس لگیں گے، پاکستان کے مذاکراتی بیانیہ کو قبول کر کے اعتماد سازی کے اقدامات اولین ترجیح بنانا لازمی ہے کیونکہ اہم ذرائع اور مبصرین کہہ رہے ہیں کہ افغان طالبان امریکی فورسز کے انخلا کے معاملے پر سنجیدہ مذاکرات چاہتے ہیں اور وہ افغان حکومت سے نہیں بلکہ امریکہ کیساتھ براہ راست مذاکرات کے حامی ہیں اسی لئے غنی حکومت کی مزید جنگ بندی کی پیش کش مسترد کی گئی، افغان طالبان غیر مسلح کوششوں کو کمزوری کی بجائے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ افغان عمل امن کی کامیابی کے لئے امریکہ اور بھارت کے قریبی تعلقات میں افغانستان کی سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال کئے جانے کے معاملے کا حل بھی ضروری ہے کیونکہ بھارتی حکمت عملی کی غیراعلانیہ حمایت سے امریکی مفادات کو نقصان ہی پہنچا ہے۔ ایران کو بوجوہ مذاکراتی عمل میں شامل نہیں کیا جاسکتا تو چین کو امن کے گارنٹر کے طور پر شامل کیا جاسکتا ہے کیونکہ چین کا خطے میں اقتصادی وتجارتی کردار اہمیت اختیار کرچکا ہے، اسکے پاکستان کے بعد بھارت سے اسٹریٹجک اور تجارتی مفادات گہرے ہورہے ہیں، چین افغانستان میں اپنے مقاصد کیلئے افغان سرزمین سے پاکستان دشمن اقدامات کو بھی روکنے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ افغان طالبان کیساتھ مذاکرات کا ٹاسک پہلے بھی پاکستان نے مکمل کیا، اب بھی امن عمل پاکستان کے بغیر ناممکن ہے، افغان طالبان کے ساتھ طویل المدتی امن مذاکرات کیلئے پہلے سے موجود امریکہ، چین، افغانستان اور پاکستان کا چار فریقی گروپ فعال کردیا جائے یا بھارت سمیت کچھ یورپی ممالک کو شامل کر کے نیا مذاکراتی گروپ تشکیل دے دیا جائے لیکن اب اس عمل میں تاخیر خطے میں آئی ایس کی صورت میں نئے خطرات کو جنم دے سکتی ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ افغانستان میں امن کی کنجی پاکستان کے پاس ہے اور پاکستان پر اعتماد سے ہی کامیابی کی راہ نکل سکتی ہے۔ تین روزہ جنگ بندی کے دوران کے مناظر سے یقین ہو جانا چاہئے کہ افغان اب ماضی کی تلخیاں مٹا کر ایک دوسرے سے گلے لگنا چاہتے ہیں اور مل جل کر ملک میں سکون چاہتے ہیں۔ اب امریکہ بہادر کو بھی ہاتھ سے نکلتے اس سنگین مسئلے کا حتمی حل سوچنا ہوگا اور ہزاروں میل دور سے ڈکٹیشن کی روایتی پالیسی بدلتے ہوئے مصالحتی امن عمل کا آغاز، غیرمشروط حمایت اور ہر ممکن مدد کی حکمت عملی کا اعلان کرنا ہوگا، شکست کے بعد جنگ سے آزادی اور سلامتی کا دوسرا کوئی راستہ نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین