• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومتیں جو عوام کا ووٹ لےکر اقتدار میں آتی ہیں ، اقتدار میں آنے کے بعد وہ عوام سے اگلے پانچ سال کے لئے دور ہوجاتی ہیں اور پھر عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے در در بھٹکتے نظر آتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ عوام کی بے چارگی جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو کوئی اللہ کا بندہ ان کے مسائل کے حل کے لئے حرکت میں آتا ہے جس کی معاشرے میں سنی بھی جاتی ہے اور اس کے ڈر اور خوف سے حکومتی مشنری حرکت میں بھی آنے لگتی ہے تو پھر حکومت کو یہ بات ناگوار گزرتی ہے کہ جس مقصد کے لئے عوام نے انھیں چن کر اقتدار میں بھیجا ہے وہ ذمہ داریاں کوئی اور کیوں ادا کررہا ہے اور پھر یہاں سے حکومت اور اداروں کے درمیان رسہ کشی شروع ہوتی ہے ،اختیارات کی جنگ شروع ہوتی ہے جو آگے جاکر انا کی جنگ میں تبدیل ہوجاتی ہے جس سے نقصان عوام ،ملک اور ریاست کا ہی ہوتا ہے ، بہرحال اگر صرف عوام کی بات کی جائے تو عوام ہر اس ادارے کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خاتمے کے لئے آواز بلند کرے اور عملی اقدامات بھی کرے ، گزشتہ کچھ عرصے سے عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نےعوام کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں پر نہ صرف آواز بلند کی ہے بلکہ اپنے عملی اور آئینی اختیارات کے ساتھ مسائل کے حل کے لئے بہترین اقدامات بھی کیے ہیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ عوام اب حکومت سے زیادہ سپریم کورٹ کی جانب دیکھتے ہیں ، اپنی شکایات اپنے منتخب نمائندوں کے بجائے سپریم کورٹ کو روانہ کرتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ ان کی بات سنی جائے گی اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ بھی کیا جائے گا ۔ پاکستانی عوام کا ایک اہم طبقہ جسے ہم اوورسیز پاکستانی کہتے ہیں ، جو پاکستان کی معیشت میں سالانہ بیس ارب ڈالر سے زائد کا زرمبادلہ شامل کرکے پاکستانی معیشت کو سہارا فراہم کرتے ہیں اب ہر روز میڈیا میں یہ درخواست کرتا ہے کہ اس کے مسائل کے حل کے لئے بھی حکومت کے بجائے چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کی جائے تاکہ یہ مسائل حل ہوسکیں ۔ ماضی میں اپنے ایک کالم میں جب راقم نے اوورسیز پاکستانیوں کی وزارت کے حوالے سے تفصیلات بیان کی تھیں تو اگلے ہی روز اوورسیز پاکستانی فائونڈیشن کے چیئرمین بیرسٹر امجد ملک کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں انھوں نے میرے کالم میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی شکایات کی تصدیق کرتے ہوئے یہ بھی بیان کیا کہ اب معاملات تبدیل ہوئے ہیں اور وزیر اعظم نواز شریف نے انھیں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے ادارے اّو پی ایف کا چیئرمین منتخب کیا ہے ۔ان کا تعلق برطانیہ کی پاکستانی کمیونٹی سے ہے اور وہ ایک بڑے وژن کے ساتھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر کام کررہے ہیں جبکہ انھوں نے ادارے کے بورڈ آف گورنرز میں کئی ممالک کے سینئر پاکستانیوں کو بھی شامل کیا ہے ، اس کے بعد تواتر سے بیرسٹر امجد ملک کی جانب سے کارکردگی رپورٹیں بھی ارسال کی گئیں تاہم ساتھ ہی بیوروکریسی کی جانب سے ان کی بھرپور مخالفت کی آف دی ریکارڈ شکایات کی بھی تفصیلات آتی رہیں ۔گزشتہ دنوں اوورسیز پاکستانیوں کی وزارت کے سیکرٹری کی جانب سے وزارت کے ایک ڈائریکٹر(جن پر کرپشن کے الزامات لگے پھر نیب نے انکوائری کی اور ایک ڈیل کے تحت مذکورہ ڈائریکٹر نے چھیانوے لاکھ روپے کی رقم نیب کو واپس کی اور اپنی ملازمت پر واپس آئے ) کو ایک اہم عہدے پر فائز کیے جانے پر بیرسٹر امجد ملک نے تحریری طور پر اس اقدام کی مخالفت کی ، جبکہ کئی اور اہم اقدامات پر قانونی جواز طلب کیا جس پر سیکرٹر ی صاحب خاصے ناراض تھے اور پھر حکومت کے آخری دن انھوں نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے او پی ایف کے بورڈ آف گورنرز کی تعداد میں اضافے کی سمری منظور کرائی جس کے بعد انھوں نے بورڈ آف گورنرز کی تعداد میں اضافہ تو خیر نہیں کیا بلکہ چار اہم ترین ارکان کو بورڈ سے فارغ کردیا جس میں چیئرمین بیرسٹر امجد ملک بھی شامل تھے حالانکہ ان کی مدت تعیناتی میں ابھی سولہ ماہ باقی تھے ۔ جس کے بعد سیکرٹری او پی ایف نے خود کو تاحیات چیئرمین تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن بھی نکلوالیا ، تاحیات اس لئے کہ اس لیٹر میں ان کی مدت تعیناتی کی کوئی تاریخ درج نہیں ہے لہٰذا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ تاحیات او پی ایف کے چیئرمین ہیں ۔اس کے ساتھ ہی اسلام آباد میں او پی ایف کے دفتر میں تالا لگا کر ملازمین کو فارغ کردیا گیا ہے اور تمام معاملات سیکرٹری آفس سے چلائے جارہے ہیں ۔جس کی دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے شدید مذمت کی جارہی ہے ۔ کئی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی تنظیموں کی جانب سے سخت احتجاج بھی کیا گیااور چیف جسٹس سے معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے ۔ بیرسٹر امجد ملک کے مطابق ان کی قیادت میں تنظیم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو عام انتخابات میں ووٹنگ کے حق کے لئے کام کررہی تھی ، کئی ممالک میں پاکستانی لیبر کی ملازمتوں کیلئے کام ہورہا تھا ، جو پاکستانی غیر ممالک میں کام کررہے ہیں ان کے مسائل کے حل کے لئے کام ہورہا تھا ،بیرون ملک وفات پانے والے پاکستانیوں کی میتیں پاکستان لانے اور ان کے اہل خانہ تک پہنچانے پر کام ہورہا تھا ، غیر ملکی سرمایہ کاری پاکستان لانے کی حوصلہ افزائی کی جارہی تھی ، کئی اہم ممالک کے سفیر اس ادارے سے براہ راست رابطے میں تھے جو پاکستانیوں کی فلاح و بہبود سے متعلق اپنی رپورٹیں اور تجاویز بھی او پی ایف کو بھیجا کرتے تھے جبکہ میڈیا میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹوں پر کارروائی کے لئے بھی ٹیم موجود تھی، غرض بہت سارے ایسے منصوبے تھے جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے براہ راست مسائل سے منسلک تھے لیکن بیوروکریسی کی طاقت کے سامنے سب فیل ہوگئے ہیں ۔ جب سے او پی ایف کا دفتر بند ہوا ہے اس کے بعد سے لوگ اپنے مسائل کے حل کے لئے کسی بھی بااختیار فرد سے رابطہ بھی نہیں کرپارہے ہیں ۔ توقع ہے کہ محترم چیف جسٹس اوورسیز پاکستانیوں کے اس اہم ادارے کو تباہ ہونے سے بچائیں گے اور ادارے کے ارکان کو مدت تعیناتی پوری کرنے کے احکامات جاری کریں گے اور اگر کوئی کام غیر قانونی طور پر کیا گیا ہے تو اس کا بھی نوٹس لیں گے جبکہ سرکاری افسران کو بھی اپنی حدود میں رہ کرکام کرنے کے احکامات جاری کریں گے، اسی لاکھ بیرون ملک مقیم پاکستانی آپ کی توجہ کے منتظر ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین