• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی انتخابات، طیب ایردوان پھر پانچ سال کیلئے منتخب ہونے کے خواہاں

ترکی انتخابات، طیب ایردوان پھر پانچ سال کیلئے منتخب ہونے کے خواہاں

لاہور(صابرشاہ)ترکی میں 24جون کو صدارتی اورپارلیمانی انتخابات ہونےجارہےہیں، یہ انتخابات 3نومبر2019کوطےشدہ الیکشن سے 16ماہ قبل ہوں گے، اس کےذریعے550پارلیمنٹیرین چارسال کیلئے (2007کےریفرنڈم سےقبل پانچ سال کیلئے ہوتے تھے)منتخب ہوں گے۔ درحقیقت موجودہ ترک صد ر رجب طیب اردغان 2016کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد شروع ہونےوالےکریک ڈائون کےدوران ایک بار پھر پانچ سالہ کیلئےمنتخب ہونا چاہتے ہیں۔ ترکی میں جولائی 2016 میں ناکام فوجی بغاوت میں 3سوافرادکی ہلاکت کےبعدسےہنگامی حالت نافذہے۔ اگرچہ ترکی میں انتخابی مہم کےدوران پرتشدد واقعات ہورہے ہیں لیکن ووٹرزآئندہ ہفتےایک پارلیمنٹ کےساتھ صدر کا اتنخاب بھی کریں گےاور پولز سے ظاہر ہوتاہےکہ دونوں انتخابات میں امید سے زیادہ سخت مقابلہ ہوگا۔ ترکی ناکام بغاوت کا الزام امریکا میں خودساختہ جلاوطن مذہبی رہنمافتح اللہ گولن پرلگاتاہے۔ یورپی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ہنگامی حالت کے دوران ڈیڑھ لاکھ افرادکوحراست میں لیاگیاہے۔ 78ہزارافراد کو ہتکڑیاں لگائی گئیں اور بغاوت کی حمایت کےالزام میں ایک لاکھ دس ہزارسول سرونٹس کونوکری سےبرطرف کردیاگیا۔ دوسری جانب ترک انتظامیہ کادعویٰ ہے کہ 40ہزار سول سرونٹس کوبحال کردیاگیا۔ دوحہ سےکام کرنے والے سرکاری ٹی وی چینل ’’الجزیرہ‘‘جس کے دنیا بھر میں80 بیورو آفسز ہیں ، کےمطابق ترک حکومت کاکہناہےکہ تحریک کےاراکین سول اورعسکری بیوروکریسی کے اندر ہی ایک ’’متوازی ریاست‘‘ چلارہےہیں او رخو د کے ایجنڈےکوفروغ دےرہےہیں۔ اگرچہ گولن نےان دعوئوں کی تردید کرتےہیں۔ صدارتی انتخابات میں دومراحل کے ذریعےترک صدر کو منتخب کیاجائےگا۔ پہلا مرحلہ 24جون کو منعقد ہوگا، دوسرا مرحلہ(اگرکسی صدارتی امیدوارنے51فیصدووٹ حاصل نہ کیے) دوہفتے بعدرواں سال 8جولائی کو ہوگا۔ ایک ترک این جی اوہیومن رائٹس ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق 30اپریل سے5جون تک حملوں میں کم ازکم 21اپوز یشن کارکنان زخمی ہوچکے ہیں۔ زخمیوں میں چار کارکنان گُڈ پارٹی کے شامل ہیں جن پرمخالف سیاسی جماعت کی جانب سے انتخابی مہم کےدوران گزشتہ ماہ چاقو سےحملہ کیاگیا۔ صدارتی امیدواروں کی سرکاری فہرست بیلٹ پیپر کےمطابق مندرجہ ذیل ہے: نیشن الائنس کےمحرم انس(سی ایچ پی)، نیشن الائنس کےمیرال اکسینر(آئی وائےآئی پارٹی)، پیپلز الائنس کےرجب طیب اردگا(حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی)، صلاحتین ڈیمرٹس (پیپلزڈیموکریٹک پارٹی)، ٹمیل کرامولا گلو (سادت پارٹی—نیشنل الائینس) اورڈوگوپیرینک (وطن پارٹی)۔ یہاں یہ امرقابل ذکرہےکہ صدارتی امیدوار صلاحتین ڈیمرٹس جوسابقہ انسانی حقوق کےوکیل ہیں وہ جیل میں ہیں اور انھیں دہشتگردی کےالزامات کا سا منا ہے۔ ڈیمرٹس ایچ ڈی پی کے سابقہ مشترکہ چیئرمین ہیں اورنامورملکی سیاستدان ہیں۔ ’’این بی سی نیوز‘‘ کی رپورٹ کےمطابق: ’’اگران پرالزامات ثابت ہوگئے تو انھیں 142سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ ڈیمرٹس ان الزامات کی تردید کرتے ہیں، چونکہ ان پر الزامات تاحال ثابت نہیں ہوئے لہذا انھیں صدارتی مہم چلانے کی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں تھا اگروہ منتخب ہوگئے تو وہ کس طرح عہدہ سنبھالیں گے۔ 54سالہ محرم انک ایک سابق فزکس ٹیچر ہیں، انھیں اردغان کیلئےایک بڑا حریف سمجھا جارہاہے۔ تاہم ان کی سی ایچ پی پارٹی اپنی سیکیولرووٹرز سے ہٹ کر حمایت حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کررہی ہے۔ نومبر2015میں ہونے والے گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں انھیں 25.3فیصد ووٹ ملے تھے۔ نیویارک سے کام کرنےوالی ایک بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیم’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ جو 1978 سے انسانی حقوق سے متلق ریسرچ کررہی ہے، کہتی ہے آئندہ ہونےوالےترکی کے انتخابات کانتیجہ جو بھی نکلےاس سےایک نیا صدارتی نظام آئےگا۔ اپریل 2017کوہونے والے ریفرنڈم میں ووٹرزنےاس نئے نظام کی توثیق کردی گئی تھی۔ اس سے صدرکے اختیارات بہت زیادہ بڑھ جائیں گےاور ترک پارلیمنٹ کا کردار کم ہوجائےگا۔ ہیومن رائٹس واچ کےیورپ اور سنٹرل ایشیاکےڈائریکٹرہیوولیم سن کہتے ہیں:’’ایک پُراعتماد، شفاف اورجمہوری طریقےسےامیدواروں کومنتخب کرنےکااختیارتمام ووٹرزکےانسانی حقوق کےتحفظ کیلئےاہم ہے، اور اس کیلئےایک شفاف مہم کی ضرورت ہےجس میں تمام امیدواروں اور پارٹیوں کو اپنے نظر یا ت پیش کرنے کا موقع ملے۔ جبکہ موجودہ ترک صدر رجب طیب اردغان اور حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کےپی) نیامینڈیٹ لینا چاہتےہیں۔ اپوزیشن پارٹی کے امیدوار صدارت اور پارلیمںٹ دونوں کیلئے حصۃ لے رہے ہیں، لیکن ماحول بہت کشیدہ اور مشکل ہے ۔ یہ امرقابل ذکر ہے کہ 2015 میں گزشتہ انتخابات اردغان کی پارٹی نے550سیٹوں والی پارلیمنٹ میں317سیٹوں کے ساتھ واضح اکثریت حاصل کی تھی اور49.5فیصد ووٹ حاصل کیےتھے۔ اردغان نے پہلے مرحلے میں 51.79فیصد ووٹ لےکر2014کےصدارتی انتخابات بھی جیتےتھے۔ ’’الجزیرہ‘‘ جس کیلئے2017میں سعودی، اماراتی، بحرینی اور مصری حکومتوں نے بندش کا مطالبہ کیاتھا ، وہ کہتاہے:’’24جون کے الیکشن ہنگامی حالت اور گرتی ہوئی کرنسی کی قدرکےدوران ہورہےہیں اور اس کے ساتھ ہی عالمی اتحاد بھی بدل رہے ہیں اور شام میں مدا خلت بڑھ رہی ہے۔ ترکی ایران اور روس کے ساتھ مل کر سات سال سے جاری شامی جنگ کو ختم کرنے کیلئے کام کررہاہے، جبکہ ماسکوکےساتھ توانائی اور دفاع کے ساتھ کئی شعبوں میں تعاون بڑھ چکاہے۔‘‘ قطری میڈیامزیدکہتاہے: ملک میں معاشی تحفظات بھی ہیں۔ 2018کےآغاز سے ترکی لیرا کی قدرمیں 20فیصدسے زیادہ کمی ہوئی ہے۔ اردغان جو کبھی وزیراعطم اور کبھی صدر کی صورت میں 20سےاقتدارمیں ہیں،انھوں نے ترکی کی معیشت کو ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ میں بدل دیاہے۔ 2001میں وزیراعظم بننے سے ایک سال قبل ترکی کےافراطِ زرکی شرح 69فیصد تھی۔ گزشتہ سال یہ 12فیصد پر تھی۔ تاہم معاشی تحفظات باقی ہیں۔‘‘ یکم نومبر1996میں قائم ہونےوالا میڈیاہائوس مزید کہتا ہے:’’ حکمران اے کے پارٹی اور ایم ایچ پی پارلیمانی انتخابات میں ایک بلاک کی حیثیت سے حصۃ لیں گے، انھیں چھوٹی گریٹ یونیٹی پارٹی (بی بی پی) کی حمایت بھی حاصل ہوگی۔ اردغان صدرکیلئےان کے مشرکہ امید وا ر ہوں گے۔ اسی دوران مرکزی اپوز یشن جماعتیں ریپبلکن پیپلز پارٹیِ آئی وائےآئی پارٹٰ، قدامت پرست فیلیسٹی پارٹی اورڈیموکریٹک پارٹی نے اپنےنظریاتی اختلاف کے باوجود اپنا اتحاد بنایاہے۔ اسی دوران ہیومن رائٹس واچ جسے 1997 میں نوبل انعام دیاگیا،کہتی ہے:’’حکومت نےگزشتہ دو سالوں میں آزاد میڈیاپربہت زیادہ پابندیاں عائد کردی ہیں اور سرکاری وفادار کمپنی کی جانب سے کنٹرول کے بعد تقر یباً ٹیلی ویژن نیوز پرمکمل کنٹرول ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کوبراڈکاسٹ میڈیاپرکم وقت ملتاہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کوسب سےزیادہ مشکلا ت کاسامناہے، اس کےبہت سے صدارتی اور پارلیمانی امیدوارجیل سےانتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، ان پرسیاسی نوعیت کےکریمنل الزامات ہیں۔ ترکی نے 2017میں میڈیا،سیاسی مخالفت اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر پابندیوں میں اضافہ کیا۔ ملک میں صدر کے اختیارات کےناجائز استعمال کےخلاف نگرانی کیلئے بہت کم جمہوری روایات کےساتھ ایک صدارتی نظام متعارف کرایاگیا۔ ‘‘اپنی643 صفحات پر مبنی ورلڈ رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نےترکی سمیت 90ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نظرثانی کی ہے۔ اپنی رپورٹ میں یہ ترکی کے بارے میں کہتے ہیں:’’ حکومت نے ترکی کی عدالتوں اور وکلاء پر بہت زیادہ دبائو ڈالاہے۔ انسداددہشتگردی کے بہت سے قوانین کے ذریعے2016کی بغاوت کی کوشش کرنےوالوں کوسزادینےکیلئےقانونی کاوشوں کوکمزور کردیاگیا۔ 2017میں دہشتگردی پرمبنی الزامات کے تحت سیاسی محر کا ت پر مبنی صحافیوں کےچندمقدمات شروع ہوئے اور حکومت نے انسانی حقوق کے کارکنوں کوبھی نشانہ بنایا۔ رپورٹ میں مزید کہاگیاہے: ’’حکومت نے پارلیمںٹ میں 2017میں کردش سیاسی اپوزیشن اورملک کےجنوب مشرقی حصےمیں مقامی حکومت پرحملوں میں اضافہ کردیا۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین جن میں پارٹی رہنماصلاحتین ڈیمرٹس بھی شامل ہیں، وہ ایک سال سے جیل میں ہیں اور ان پر دہشتگردی کے الزامات کے تحت مقدمہ زیرالتواہے۔ جنوب مشرق میں حکومت نے تمام میونسپلیٹیز سنبھال لی ہیں، لوگوں کو ان کے منتخب نمائندوں سے محروم کردیا ہے۔ ہنگامی حالت کے دوران برطرف کیےگئےایک لاکھ سے زائدسول سرونٹس، سیکڑوں میڈیاہائوسز، ایسوسی ایشنز اور دیگراداروں کےنقصان کاازالہ کرنےمیں حکومت ناکام ہوچکی ہے۔‘‘ ترکی کی معیشت اور سماجی اشاروں کا ایک طائرانہ جائزہ: دنیا میں ترکی کا جی ڈی پی (909.885کھرب امریکی ڈالر) 17ویں نمبر پر ہے ۔ یہ دنیا میں زرعی پیداوار کے حوا لے سے بڑے ممالک میں شامل ہے؛ ان میں ٹیکسٹائل، موٹرگاریاں، بحری جہاز اور دیگرٹرانسپورٹیشن کے آلات شامل ہیں؛ تعمیراتی مواد، کنزیومر الیکٹرونکس اور گھریلوسامان بھی۔ (بحوالہ: 29اپریل 2018کاآئی ایم ایف ورلڈ اکانومک آئوٹ لُک ڈیٹابیس) 157.1کھرب ڈالرکی برآمدات کے ساتھ دنیا میں اس کا نمبر11واں ہے۔ 234 ڈالر کھرب کےاخراجات کےساتھ اِس کے زرمبا دلہ کے ذخائر 225ڈالرہیں، ترکی کا قرضہ اس کے جی ڈی پی کا 26.5فیصد ہے، اس کی غیرملکی براہِ راست سرمایہ کاری 198.4کھرب ڈالر ہے۔ (بحوالہ: 2017کی یورپین کمیشن رپورٹ اور سی آئی اے کی ورلڈ فیکٹ بک)ایک سال قبل اس کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر135.638کھرب ڈالر تھےجبکہ 2014میں 12ترک کمپنیاں فوربز کی گلوبل 2000فہرست میں شامل تھیں۔ (حوالہ: ترکش سنٹرل بینک رپورٹ اور فوربزکی 2014کی ورلڈ بگسٹ کمپنیز)۔ 2013میں ترکی میں ٹیلی فون استعمال کرنےوالوں کی تعداد ایک کروڑ30لاکھ 86ہزار تھی جبکہ ملک میں 6کروڑ80 لاکھ 9ہزار رجسٹرڈ موبائل فون استعمال کرنےوالے تھے۔ (حوالہ: ترکش انفارمیشن اور کمیو نیکیشن ٹیکنالوجیز اتھارٹی)۔ 2017تک ترکی میں انٹرنیٹ استعمال کرنےوالوں کی تعداد میں 66.8فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ 2017میں مردوں کی تعداد 75.1فیصد اور خواتین کی تعداد58.7فیصدتھی(حوالہ: اگست2017کی ترکش سٹیٹسٹیکل اسٹیٹیوٹ سروے رپورٹ) ترکی کے دفا عی اخراجات 29.4کھرب ترک لیرا تھے جونو مبر 2014میں 13.2کھرب ڈالر کےبرابر رہے (بحوالہ: 8نومبر2014کوسابق ترک وزیردفاع اسمت یلما ز کا بیان)  

تازہ ترین