• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلڈ پریشر جانچنے والا اسمارٹ فون کیس

بلڈ پریشرکے مریض اپنے فشارِ خون کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے بہت فکر مند رہتے ہیں۔ انھیں بلڈ پریشرجانچنے کے لیے بار بار کسی ڈاکٹر کے پاس یاکلینک جانا پڑتا ہے یا پھر وہ اس مقصد کے لیے اپنے گھر میں برقی یا روایتی آلات ساتھ رکھتے ہیں۔ لیکن اب اچھی خبر یہ ہے کہ اسمارٹ فون کے ذریعے بھی بلڈ پریشر کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔

مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کے انجینئروں نے ایک ایسا موبائل کیس بنایا ہے جو کسی بھی اسمارٹ فون کی پشت سے جڑ سکتا ہے۔ ایک سینٹی میٹر موٹے اس کیس میں کئی سینسر لگے ہیں جو انگلی لگانے پر بلڈ پریشرکا بتاتے ہیں، انہیں اسمارٹ فون کی ایپ سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ کیس میں انگلی کے دباؤ کو ناپنے والا ایک سینسر لگا ہے جبکہ اس کے اوپر ایک اور آپٹیکل سنسر نصب کیا گیا ہے۔

ایم کے استعمال کےلیے کیس یا کیس لگے فون کو دل کے مقام تک لانا پڑتا ہے۔ اس کے بعد انگشتِ شہادت کو سینسر پر رکھ کر دبانا ہوگا۔ جس کے بعد فون کی ایپ بلیو ٹوتھ کے ذریعے اس دباؤ کو ناپتی ہے اور انگلی کادباؤ کم یا زیادہ ہونے کی صورت میں ڈسپلے کے ذریعے مریض کو درست دباؤ ڈالنے کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس طرح مریض سینسر پر اپنی انگلی سے درست دباؤ ڈالتا ہے۔

بلڈ پریشر ناپنے کےلیے بازو پر لگانے کے روایتی آلہ میں جتنا وقت لگتا ہے اتنے ہی وقت میں اسمارٹ فون کا یہ سینسر بلڈ پریشر معلوم کرلیتا ہے۔ شہادت کی انگلی میں خون لانے والی ایک رگ ’’ٹرانس ورس پامر آرچ‘‘ کہلاتی ہے جس سے بلڈ پریشر کا پتا لگانے میں مدد ملتی ہے۔ اس کی ریڈنگ فون کی اسکرین پر نمایاں ہوتی ہے جس سے آپ اپنا بلڈ پریشر معلوم کرسکتے ہیں۔

تاہم ماہرین نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی ایجاد بازو کے ذریعے لیے جانے والے بلڈ پریشر جتنی درست نہیں اور یہ انگلی پر پہنے جانے والی اس پٹی کی طرح ہے جو مریضوں کو ہسپتال میں پہنائی جاتی ہے۔ اسی لیے اسمارٹ فون ایپ بار بار ریڈنگ لے کر اس میں سے درست ریڈنگ کو ظاہر کرتی ہے لیکن اس طرح جسم کا اوسط بلڈ پریشر ظاہر ہوتا ہے۔

اب مشی گن یونیورسٹی کے ماہرین اس سینسر کی ریڈنگ کو مزیدبہتر اور درست بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایک جانب تو اس نظام میں شامل برقی پرزہ جات (الیکٹرونکس) بہتر کیے جارہے ہیں تو دوسری جانب اس کا کیس ایک ملی میٹر تک پتلا کرنے سے بلڈ پریشر درست حد تک ناپنے میں بڑی مدد ملے گی۔

اس کے باوجود ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ دو مسلسل کوششوں سے بلڈ پریشر 90 فیصد درستگی سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس ایجاد کو مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں الیکٹریکل اینڈ کمپیوٹر انجینئرنگ کے ماہر راما کرشنا مکامالا نے تیار کیا ہے۔ ماہرین نے اس ایجاد کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے لوگوں کی جان بچانے میں بڑی مدد مل سکے گی۔

ہائی بلڈ پریشر ایک ایسا مرض ہے جسے خاموش قاتل قرار دیا جائے توبیجا نہ ہوگاکیونکہ یہ خون کی شریانوں، دل، دماغ، گردوں اور آنکھوں سمیت جسم کے دیگر اعضا پر دباؤ بڑھاتا ہے۔ مسلسل ہائی بلڈ پریشر کا شکار رہنے سے جان لیوا امراض جیسے دل کی بیماریوں، ہارٹ اٹیک، فالج، دماغی تنزلی اور گردوں کے امراض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔طبی ماہرین کے مطابق بلڈ پریشردراصل خون کا دباؤ ہوتا ہے جو ہماری شریانوں کو سکیڑتا ہے۔

بلڈ پریشر ناپنے کے2 پیمانے ہوتے ہیں ایک خون کا انقباضی دباؤ (systolic blood pressure) جو کہ اوپری دباؤ کے نمبر کے لیے ہوتا ہے اور دل کے دھڑکنے سے خون جسم میں پہنچنے کے دوران دباؤ کا بھی مظہر ہوتا ہے۔

دوسرا خون کا انبساطی دباؤ (diastolic blood pressure) ہوتا ہے جو کہ نچلا نمبر ہوتا ہے یعنی اس وقت جب انسانی دل دھڑکنوں کے درمیان وقفہ اور آرام کرتا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پیمانوں سے پتا چلتا ہے کہ ہماری خون کی رگیں کتنی لچکدار ہوتی ہیں۔ ان کے بقول اگر کسی انسان کے خون کا دباؤ 139/89 سے زیادہ ہے تو یہ ہائی بلڈ پریشر تصور کیا جاتا ہے اور اگر کسی شخص کے خون کا دباؤ 140/90 سے اوپر ہوجائے تو اسے علاج کا مشورہ دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں طرزِ زندگی میں تبدیلیاں بھی ضروری ہوتی ہیں جیساکہ زیادہ ورزش اور غذا میں تبدیلی۔ درحقیقت اس مرض پر قابو پانے کے لیے انسان کو خود ہی محنت کرنا ہوتی ہے۔ لو بلڈ پریشر 90/60 سے کم کو سمجھا جاتا ہے جبکہ صحت مند افراد کا بلڈ پریشر 120/80 ہونا چاہیے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر اس وقت ہوتا ہے جب جسم زیادہ حرکت یا جدوجہد کررہا ہوتا ہے یعنی اسے زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہونے کی شکل میں دل کیلئے کام کرنا زیادہ مشکل ہوجاتا ہے اور اسے جسم کے مختلف حصوں میں خون پہنچانے کیلئے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ کمزور ہوجاتا ہے۔ اس کا نتیجہ دل کے مختلف امراض یا ہارٹ اٹیک کی شکل میں نکلتا ہے جبکہ خون کی شریانیں بھی سکڑنا یا اکڑنا شروع ہوجاتی ہیں۔

ماہرین کا مشورہ ہے کہ نمک کے استعمال میں کمی لاکر، جسمانی وزن کم کرکے، روزانہ ورزش، کیفین کے کم استعمال، تمباکو نوشی سے گریز اور کم از کم 6 گھنٹے کی نیند لے کر بلڈپریشرکو قابو میں لاسکتے ہیں۔ زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کے شکار اکثر افراد کو اس کی موجودگی کا علم ہی نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے اسے خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے، یہ کسی بھی عمر کے افراد کو اپنا نشانہ بناسکتا ہے۔ زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ عمر کی تیسری دہائی سے ہی بلڈ پریشر کے چیک اپ کو معمول بنالیا جائے۔

تازہ ترین