• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں خواب دیکھتا ہوں، روزِ روشن میں، کھلی آنکھوں سے۔ ایک صحرا ہے، بے آب و گیاہ، وقت معلوم نہیں کہ رات ہے یا دن، بس خاموشی ہے اور ریت۔ دور دو سائے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک کھڑ اورا ایک بیٹھا۔ میں ان کے نزدیک پہنچتا ہوں۔ وہ میری طرف نہیں دیکھتے۔ اسی طرح اپنی اپنی جگہ موجود ہیں۔ کھڑے ہوئے سائے کی آواز سننے میں آتی ہے۔ بے باک لہجے اور بڑے جوش خروش سے بولنے لگتا ہے۔

کہتا ہے۔ ”صبح ہوتی ہے، سورج ابھرتا ہے، ستارے دمکتے ہیں، چاندنی چٹکتی ہے، روشنی پھیلتی ہے، کلیاں کھلتی ہیں، پھول مہکتے ہیں، گل نکھر تے ہیں، بلبلیں چہچہاتی ہیں، کبوتر اُڑتے ہیں، بچے کھلکھلاتے ہیں، ُسر اورسنگیت زندہ ہیں، شاعر اور ادیب کا قلم سلامت ہے، چراغ جل رہا ہے، کتاب پڑھنے کے لیے کھلی ہوئی ہے، بوڑھے انسان کی نیند باقی ہے، ماں بے غم ہے، دُلھن کی ہتھیلی میں منہدی رنگی ہے، کنواری کے ارمان جاگتے ہیں، جوان ،کے محسوسات خواب دیکھتے ہیں، دِلوں میں محبت بھری ہے، سوچوں میں نفرت نہیں، مسافر مہمان ہوتا ہے، دکھ درد سانجھا ہے، گزر گاہ مثل بہاراں ہے، منزل سامنے ہے“۔

سننے والا سایا ،سنتا ہے اور پھر اپنی بند آنکھیں کھولتا ہے۔ دیکھتا ہے سورخ غروب ہو چلا ہے، رات باقی ہے، ستارے بے نور ہیں، چاندنی پھیکی ہے، اندھیرا گھنا ہے، کلیاں مرجھائی ہیں، پھول بے رنگ ہیں، گل بکھرے ہیں، بلبلیں چپ ہیں، کبوتر دُبکے ہوئے ہیں، بچے سہمے ہیں، ُسر اور سنگیت گم ہیں، ادیب اور شاعر کے قلم کی سیاہی سوکھ چکی ہے، چراغ بجھا ہوا ہے، کتاب پھٹ چکی ہے، بوڑھا انسان کروٹیں بدلتا ہے، ماں بین کرتی ہے، دُلھن کی ہتھیلی زرد ہے، کنواری کے ارمان رخصت ہوچکے ہیں، جوان بے خواب ہے، دل خالی ہے، سوچ سے بے خبری ہے، مسافر غیر ہے، دکھ اور درد اپنا اپنا ہے، گزر گاہ خار سے پر ہے، منزل سراب ہے۔

سننے والا آنکھیں دوبارہ بند کر لیتا ہے۔ خاموش کھڑا کہنے والا بند آنکھیں دیکھتے ہی پھر کہنا شروع کردیتا ہے۔

”میں اس جگہ موجود، یہی خواب دیکھے جاتا ہوں۔ اس طرح ہر روز، روزِ روشن میں اور کھلی آنکھوں کے ساتھ ۔

(جمیل عباسی)

تازہ ترین