پرانےوقتوں کی بات ہے ،ایک ا سکول کا استاد جب بھی اپنے کسی شاگرد کو کسی اچھے سرکاری عہدے پر دیکھتا تو بڑے فخر سے کہتا کہ، دیکھو میں نے کیسے کیسے گدھوں کو اس مقام تک پہنچا دیا۔
اس کی بات ایک سیدھے سادھے دیہاتی نے سن لی،وہ استاد صاحب کے پاس ایک عدد گدھا لے کر پہنچ گیا اور بولا ،’’ماسٹر جی میں نے سنا ہے آپ نے بہت سے گدھوں کو انسان بنا دیا ہے، اس گدھے نے میری بہت خدمت کی ہے،آپ کی مہربانی ہو گی، اسے بھی انسان بنا دیں۔‘‘
ماسٹر جی بہت جہاندیدہ انسان تھے ،کچھ سوچ کر بولے،’’ ایک سال بعد آنا میں کو شش کروں گاکہ اسے بھی بندے کا پتر بنا دوں‘‘۔
بات آئی گئی ہو گئی، گدھا بھی کوئی لے گیا۔
ٹھیک ایک سال بعد وہ دیہاتی دوبارہ استاد صاحب کے پاس آیااورگد ھے کے بارے میں پوچھا،’’ماسٹر جی امید ہےجو گدھا میں نے آپ کو سونپا تھا و ہ انسان بن گیا ہو گا ،
مہربانی فرما کر مجھے اس سے ملوا دیجیے‘‘۔
بہت کوشش کی کہ وہ کسی طرح ٹل جائے، مگر اس کے بار بار کے اصرار پر تنگ آکر ماسٹر جی بولے ،’’تیرے گدھے کو میں نے بندے دا پتر بنا دیا تھا اورآ ج کل وہ اسی شہر کے تھانے کا انسپکٹر ہے۔ا س نے آؤ دیکھا نہ تاو ٔ، گھاس لی اورسیدھااپنے گدھے سےملنے تھانے چل پڑا اور جا تے ہی انسپکٹر صاحب کی ٹیبل پر گھاس کا بنڈل پٹخا اور اس کی جا نب ملنے کے لیے بڑھا،
انسپکٹر اس کی اس حرکت پرآگ بگولا ہوگیا۔جیسے ہی وہ قریب آیا، اسے نیچے گرایا اور لاتوں کا استعمال کرتےہوئے ،اس کی خوب آوبگھت کی۔
بیچارہ مار کھاکر باہر نکلا اور بولا،ماسٹر جی آپ نے بندہ تو بنا دیا ،پر لاتیں وہی گدھے والی مارتا ہے۔
(ازہان خان)