• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی ہنگامہ خیزسیاسی زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ یہاں عوام کی منتخب دوسری حکومت نے بھی اپنی میعاد پوری کر لی ہے اور امید ہے کہ جلد ہی تیسری منتخب حکومت بھی وجود میں آجائے گی۔ اور دھیرے دھیرے پاکستان ’’سیاسی استحکام ‘‘ کی طرف بڑھتا جائے گا کیونکہ کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے یہ عمل ضروری ہے کہ وہاں عوام کو اُمورِ سلطنت میں شامل کیا جائے اور ابھی تک جمہوریت ہی وہ نظامِ حکومت ہے جس نے پسماندہ اقوام کو دیر پا ترقی سے ہمکنا ر کیا ہے ۔ کیونکہ اس میں عوام کے ہر طبقے کی شمولیت کے امکانات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ پاکستان نے غیر جمہوری ادوار کی وجہ سے جو نقصانات اُٹھائے ہیں وہ ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہیں جن میں مشرقی پاکستان کا سانحہ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے ۔ صرف یہی نہیں موجودہ پاکستان میں معاشی اور سیاسی انحطاط کی بڑی وجہ بھی یہی ’’سیاسی عدم استحکام ‘‘ ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں سیاسی رہنمائوں اور جماعتوں کی کارکردگی بہت اچھی نہیں رہی اور اسے دنیا کے ترقی یافتہ جمہوری ممالک کے معیار پر نہیں پرکھا جا سکتا۔ اس کی ایک وجہ تو یہاں سیاسی عمل کو مختلف حیلے بہانوں سے غیر معیّنہ مدّت کے لئے روکنا ہے اور دوسری سب سے اہم وجہ آمرانہ ادوار میں پیدا ہونے اور تربیت پانے والے وہ سیاستدان ہیں جو پہلے تو اپنے سرپرست آمر کی زیرِ نگرانی جمہوریت ، جمہوری اقدار اور جمہوریت پسندوں کو تباہ و برباد کرنے کی ٹریننگ لیتے ہیں ۔ انہیں ملکی قوانین سے تجاوز کرنے ، کرپشن اور بد عنوانیوں کے ریکارڈ قائم کرنے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کردار کشی کرنے کے کھلے مواقع فراہم کئےجاتے ہیں اور ان کے سرپرست آئی جے آئی جیسے غیر اخلاقی و غیر قانونی اتحاد بنا کر انہیں انتخابات میں دھاندلیوں کے نت نئے دائو پیچ سکھاتے ہیں اور پھر فخر سے انہیں اپنا شہکار بھی قرار دیتے ہیں ۔ آمر وں کے بنائے ہوئے یہ بت جمہوری ادوار میں جمہوریت کے سب سے بڑے چیمپئن بن جاتے ہیں اب جن کی پرورش اور تربیت ہی آمروں نے کی ہو وہ حقیقی جمہوریت کس طرح لا سکتے ہیں لیکن حقیقی لیڈر شپ کی غیر موجودگی اور عرصہ ء دراز تک اپنے آقائو ں کی بدولت سیاسی منظر نامےمیں موجود رہنے کی وجہ سے وہ اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ملک میں ’’ آمرانہ جمہوریت ‘‘ کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ جسے بہانہ بنا کر جمہوریت کا مذاق اُڑانے کی مہم شروع ہو جاتی ہے اور ارشاد فرمایا جاتا ہے کہ جمہوریت ہمارے لئے موزوں نہیں ۔ کبھی کبھی تو یہ حیرت ہوتی ہے کہ ایسے یاسیت کے مارے ہوئے دانشور اور آمر ہمیں شاید انسان بھی نہیں سمجھتے ۔ کیا ہم کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں کہ ساری دنیا کے انسان جمہوریت کی وجہ سے ترقی کر سکتے ہیں لیکن ہم نہیں۔ ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک ہمیں یہ سمجھاتے رہے ہیں کہ ہم جمہوریت سے باز آجائیں اور آمروں کی خدائی کو تسلیم کر لیں ۔ ہم شاید ان کی یہ بات مان بھی لیتے اگر ان کے دئیے ہوئے بی ڈی اور ڈی جی (ڈسٹرکٹ گورنمنٹ) سسٹم ہماری محرومیوں کا ازالہ کر دیتے ۔ لیکن ان کے دئیے ہوئے سیاسی نظام نہ صرف بُری طرح ناکام ہوئے بلکہ وطن ِ عزیز کا اکثریتی حصّہ بھی ہم سے علیحدہ ہوگیااور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بننے کے بعد ترقی کی دوڑ میں ہم سے کہیں آگے نکل گیا۔ آج بنگلہ دیش کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 33بلین ڈالر ہو چکے ہیں جو پاکستان کے موجودہ زرِ مبادلہ کے ذخائر 10بلین ڈالر سے تین گنا زیادہ ہیں۔
مندرجہ بالا تلخ حقائق یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ دنیا کا کوئی ملک جمہوریت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ لیکن جمہوریت کو بالغ ہونے کا موقع دئیے بغیر ہم جمہوریت کے ثمرات سے بہرمند نہیں ہو سکتے دوسرے حقیقی جمہوری لیڈر شپ آمروں کے دیے ہوئے نام نہاد ’’جمہوری لیڈروں‘‘ کے ذریعے نہیں کبھی نہیں آسکتی ۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ جمہوری ادوار کے تحت ہونے والے شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کے ذریعے ’’حقیقی جمہوری لیڈر شپ‘‘ پیدا کی جائے ۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے کہ جب انتخابات بغیر کسی التوا کے ایک تواتر کے ساتھ منعقد ہوتے رہیں۔ جن کے نتائج سب کے لئے قابلِ قبول ہوں ورنہ آمریت زادے ہی جمہوریت پسند بن کر جمہوریت کو بدنام کرتے رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ انتخابات جہاں قوم کی سیاسی بلوغت کا اظہار ہیں وہیں نگران حکومت کی غیر جانبداری کا امتحان بھی ہیں۔ پاکستان میں آج تک قومی انتخابات کے طریقہء کار اور نتائج کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ موجودہ نگران حکومت کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ نہ صرف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائیں ، اسے مو خر یا ملتو ی نہ ہونے دیںبلکہ ایسا انتظام کریں کہ یہ انتخابات ہر لحاظ سے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہوں تاکہ عوام کا الیکشن کمیشن اور عبوری حکومت پر اعتماد بڑھے ۔ نیز ان انتخابات کے نتائج عوام اور تمام سیاسی جماعتوں کے لئے قابلِ قبول ہوں ۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو اس کےقومی زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین