• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید کے بعد چند دن مری میں واقع اپنے گائوں علیوٹ میں گزارے ، کئی لوگوں سے ملنے کا موقع ملا، اُن سے ملکی معاملات اور سیاست پر بات ہوئی تو ایک بات واضح ہوئی کہ گائوں کے لوگ ہماری سیاست کے بارے میں وہ سب کچھ بھی جانتے ہیں جس پر میڈیا بھی کھل کر بات کرنے سے ڈرتا ہے۔ میں نے ملنے والوں سے جاننے کی کوشش کی کہ آئندہ انتخابات میں ووٹ کس پارٹی کو دیں گے تو جو جواب ملا اُس سے احساس ہوا کہ میڈیا سیاسی معاملات میں جو مرضی کہے، کیسا ہی پروپیگنڈہ کیوں نہ کرے لوگ عمومی طور پر اپنی سیاسی وابستگی تبدیل نہیں کرتے اور اپنے رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں کے بارے میں وہی بات سنتے ہیں اور دُہراتے ہیں جو اُن کی سیاسی سوچ سے مطابقت رکھتی ہے۔ جن معاملات پر میڈیا بات کرنے سے کتراتا ہے یا ڈرتا ہے، اُن کے متعلق بھی گائوں کے یہ لوگ کھل کر بات کرتے ہیں اور متعلقہ اداروں کا نام لے کر کہتے ہیں کہ کون کیا کھیل کھیل رہا ہے۔ اس سیاسی سوچ کے برعکس، ایک بڑی خرابی جو دیکھنے کو ملی وہ مری کے جنگلات میں گندگی اور کچرے کا پھیلائو ہے۔ ہمارا گائوں ایک بڑے جنگل کے ساتھ ملحق ہے۔ سڑک پر چہل قدمی کے دوران دیکھا کہ ملحقہ آبادی کے لوگوں نے جنگل میں جگہ جگہ پر کوڑا کرکٹ پھینک کر جنگل کی خوبصورتی کے ساتھ ماحول کی بھی خرابی کا سبب بن رہے ہیں ۔ پلاسٹک کے لفافے بوتلیں جگہ جگہ بکھرے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف مقامی آبادی جنگلات کو اس طرح آلودہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف سیر و تفریح کے لیے آنے والے افراد کی بڑی تعداد کھانے پینے کے بعد کوڑا کرکٹ کو جنگلات میں ہی پھینک دیتے ہیں۔ سڑک کے کنارے اور جنگلات میں جگہ جگہ سیرو تفریح کے لیے آنے والے افراد چٹائیاں بچھا کر کھاتے پیتے نظر آتے ہیں لیکن اُن میں سے بڑی اکثریت گندگی کو وہیں چھوڑ کر آگے کو نکل جاتی ہے۔ یہی حال ہوٹلوں، ریسٹ ہائوسز، اور ملٹی اسٹوری فلیٹس میں رہنے والوں کا ہے، گندگی اور کوڑا کرکٹ جنگلات کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے علاقہ میں بھوربن کے آس پاس ہوٹل وغیرہ تمام تر کچرا جنگلات میں پھینک دیتے ہیں۔ اس معاملہ پر محکمہ جنگلات خاموش تماشائی بنا ہوا ہے تو صوبائی حکومت اور مری میونسبلٹی بھی مری کے جنگلات کی اس بڑی تباہی کو روکنے کے لیے کوئی تدبیر کرنے سے گریزاں ہے۔ اپنے گائوں کے لوگوں سے میں نے بات کی کہ چلیں حکومت کچھ نہیں کرتی تو کم از کم ہمیں اس گندگی میں اضافہ میں حصہ دار نہیں بننا چاہیے۔ ہم اپنے گھروں کو صاف رکھتے ہیں لیکن کس بے فکری سے اپنے ہی جنگلات کو گندگی کا ڈھیر بنا رہے ہیں۔ ایک تجویز دی گئی کہ کوڑا کرکٹ کے لیے مخصوص جگہ بنائی جائے اور باقاعدگی سے اُس کچرے کو جلا دیا جائے ۔ کہا گیا چلیں ایک مخصوص دن سب مل کر جنگل کی صفائی کا کام شروع کرتے ہیں لیکن اُس مخصوص دن کوئی وہاں نظر نہیں آیا۔ ویسے تو ہم اپنی باتوں اور تقریروں میں صفائی نصف ایمان ہے کہ بات کرتے ہیں لیکن عملا ً ہماری سوچ یہ ہے کہ ہم نے گندگی پھیلانی ہے جبکہ صفائی اور گندگی کو سمیٹنے کا کام حکومت کا ہے یا صفائی کے لیے بھرتی کیے گئے افراد کا۔ دوسری معاشرتی خرابیوں اور بڑھتی ہوئی بدتہذیبی کو روکنے کے لیے پاکستانی معاشرہ کو تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے ہی گائوں کے لڑکیوں کے اسکول میں جب بچیوں کو اسکول کی صفائی کے لیے کہا جاتا ہے تو والدین شکایت کرتے ہیں کہ ہماری بچیوں سے صفائی کا کام کیوں کروایا جاتا ہے۔ مجھے یہ بات سن کر حیرانی ہوئی کیوں کہ اسی اسکول میں ماضی میں اسکول کی بچیاں تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے اسکول کو صاف ستھرارکھنے کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھتی تھیں۔ ـافسوس کی بات یہ ہے کہ ’’صفائی ہم کیوں کریں یہ تو صفائی والے کا کام ہے‘‘ جیسا منفی رجحان اب دیہی اسکولوں میں بھی سرائیت کر چکا ہے۔ ہمارے شہروں کےا سکولوں میں تو اگر کوئی بچوں کو صفائی ستھرائی کے عملی کام میں شامل کرے اور یہ احساس دلائے کہ اپنے گھروں کے علاوہ اپنے اردگرد کے ماحول کی صفائی کا خیال رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے تو اس کوا سکینڈل بنا دیا جاتا ہے۔ چند سال قبل پنجاب کے ایک اسکول کی انتظامیہ کے خلاف ایک بڑے ٹی وی چینل نے یہ ’’اسکینڈل‘‘ نکالا کہ اسکول انتظامیہ نے بچوں کواسکول کی صفائی ستھرائی کے کام میں کیوں لگایا۔ جب ہمارا میڈیا، ہمارے والدین اور معاشرہ اپنے بچوں کی بہتر تربیت کے عمل سےبالکل غافل ہو گا تو پھر ہمیں اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ ہم میں خرابیاں کیوں بڑھتی جا رہی ہیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین