• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں کراچی گیا تھا۔ کراچی والے کو کراچی اسی طرح یاد آتا ہے جس طرح لاہوری کو لاہور۔ تقسیم کے بعد میں کراچی آگیا تھا وہیں ڈی جے کالج سے بی ایس سی کی تھی اور تین سال انسپکٹر اوزان و پیمانہ جات رہا، دل نہ لگا تو برلن اعلیٰ تعلیم کے لئے چلا گیا وہاں سے تقریباً 15 برس بعد واپسی ہوئی اور چند محب وطن قابل ساتھیوں کی مدد سے قوم کی عزّت بحالی میں خون پسینہ ایک کردیا اور اسلامی تاریخ کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے اس کام کی جو سزا ملی وہ آپ سب جانتے ہیں ایک آمرنے میری نہیں پاکستان کی عزّت خاک میں ملا دی۔
کراچی میں میری والدہ، چار بھائی، ایک بہن، ایک بھانجی اور بڑے بھائی کا ایک پوتا دفن ہیں۔ اسلام آباد میں رہتا ہوں کہ بدن یہاں ہے اور روح کراچی میں، وہاں چھوٹی بہن رہتی ہیں جو محمد علی ہائوسنگ سوسائٹی میں رہائش پزیر ہیں اور ایک اعلیٰ مانٹیسری اسکول 50 سال سے زیادہ عرصہ سے چلا رہی ہیں۔ بہت سی مصروفیات کی وجہ سے میں اکثر کراچی جاتا رہتا ہوں اور پرانے دوستوں خاص کر کامیاب اور نامور صنعتکاروں سے گپ شپ رہتی ہے اور ہم ساتھ ہی بہن کے گھر پر کھانا کھاتے ہیں۔ ان پیارے محب وطن، کامیاب صنعتکاروں میں عزیز دوست خلیل نینی تال والا بھی ہیں۔ ماشاء اللہ کامیاب صنعتکار ہیں۔ خوش اخلاق اور مخیر شخصیت کے مالک ہیں، وسیع دستر خوان ہے اور آلو گوشت اور پائے نہایت لذیز بنواتے ہیں۔ خلیل نینی تال والا میرے لئے ہمیشہ سے خلیل بھائی ہیں اور بہت پرانے تعلقات ہیں۔ ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔ اپنی بزنس کے علاوہ روزنامہ جنگ میں کالم بھی حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں جو بہت اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں۔ اپنے بزنس کے علاوہ تعلیمی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اگر کبھی کوئی ضرورت مند مجھے نظر آجائے تو خلیل بھائی کی نظر کرم ڈلوادیتا ہوں۔ آج تک ایک سوال نہیں کیا اور انکار نہیں کیا۔ میں تقریباً 17,16 برس پیشتر ملیر کینٹ میں ان کے تعلیمی ادارہ ’کے این ایجوکیشن اکیڈمی ‘دیکھنے گیا۔ روح پرور منظر تھا۔ اعلیٰ تعلیمی سہولتیں، بہترین ہوسٹل، کرکٹ، فٹ بال گرائونڈ، سوئمنگ پول، گھوڑا سواری کی سہولت، اعلیٰ لائبریری، چڑیا گھر اور نہایت تجربہ کار اعلیٰ اساتذہ۔ اس وقت وہاں ایک اعلیٰ ایئرکنڈیشنڈ آڈیٹوریم کی تعمیر جاری تھی اور انہوں نے نہایت محبت اور شفقت سے اس کو میرے نام سے منسوب کردیا تھا۔
ابھی جب چند دن پیشتر میں وہاں گیا تو پہلے سے بھی بہتر سہولتیں نظر آئیں۔ایک پروگرام اس اعلیٰ ایئرکنڈیشنڈ 1000 نشستوں والے ڈاکٹر اے کیو خان آڈیٹوریم میں منعقد کیا گیا ۔ بچوں نے بہت سے اعلیٰ اور دلچسپ پروگرام دکھائے۔ مجھے وہاں اندازہ ہوا کہ نہ صرف خلیل بھائی کی بیگم صاحبہ بلکہ بچے بھی اس نیک وفلاحی کام میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ پورا کیمپس ایک اعلیٰ غیرملکی ادارہ لگتاہے مگر یہ پاکستانی ہے اور پاکستانیوں نے بنایا ہے۔
اس دفعہ میں نے وہاں اسکیٹنگ جمنازیم بھی دیکھا۔ پورا ماحول نہایت خوشگوار، سرسبز و شاداب پھولوں کی کیاریاں، لاتعداد بڑے بڑے درخت اس کیمپس کی شان دوبالا کررہے ہیں۔ اتنے اچھے پروگرام کے بعد خلیل بھائی، بیگم صاحبہ اور بچوں نے اعلیٰ لنچ سے بھی خاطرمدارت کی۔ یہ تمام وقت ایک یادگاری دن بن کر دل پر نقش ہوگیا ہے۔ اس کیمپس کے سامنے ہی میرے دوسرے نہایت پیارے، مخیر دوست سردار یٰسین ملک کا فارم ہے۔ وہ ایک فارما کمپنی کے سربراہ ہیں جو نا صرف ملکی بلکہ غیرملکی سطح پر اعلیٰ خدمات انجام دے رہی ہے۔ سردار یٰسین ملک پورے پاکستان کی ملک برادری کے سردار ہیں اور بہت دلعزیز ہیں۔ جب بھی کراچی جاتا ہوں ان کے ساتھ بہن کے گھر کھانے کی محفل ضرور جمتی ہے۔
خلیل بھائی نے خلیل نینی تال والا ایجوکیشن اکیڈمی کی بنیاد 1999 میں ڈالی تھی، خاندان والوں نے نہ صرف 25 ایکڑ زمین بلکہ دس کروڑ روپیہ بھی جمع کردیئے جس کی مدد سے ہوسٹل اور وہ تمام سہولتیں جن کا ذکر میں نے پہلے کیا ہے وہ فراہم کیں۔ 2017 میں خلیل بھائی نے شہر کے اندر اس اکیڈمی کی شاخیں قائم کرنا شروع کردیں۔ ایک کیمپس کلفٹن، دوسرا گلشن کیمپس اور تیسرا ناظم آباد کیمپس میں قائم کردیئے گئے ہیں۔ان اعلیٰ تعلیمی اداروں کا نظام خلیل بھائی کے صاحبزادے جناب جنید خلیل نینی تال والا چلا رہے ہیں اور نینی تال والا اسکول سسٹم کے سربراہ ’’ژن ژاکس‘‘ (Jean Jacques) ہیں جن کا موٹو یعنی زریں قول ہے کہ ’’درختوں کی افزائش کاشتکاری سے کی جاتی ہے اور انسانوں کی تعلیم سے‘‘ (Plants are shaped by cultivation and men by education) ۔ خلیل بھائی ان کے اہل خانہ اور رفقائے کار کا زرّیں قول ہے کہ ’’مل جل کر (یعنی متحد ہوکر) ہم سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں(Tegether we can) ‘‘۔ خلیل نینی تال والا اکیڈمی یعنی KN Academy میں تعلیم کا معیار تو اعلیٰ ہے ہی مگر یہاں یہ تعلیم کلاس ون سے لیکر GCSE یعنی ’’یوکے نیشنل کری کولم‘‘ تک دی جاتی ہے اور بچے یونیورسٹی تعلیم کے لئے انگلستان جاسکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ خلیل بھائی کی برادری کی طرح اور دوسری برادریوں نے جس طرح کراچی جیسے بڑے شہر اور بڑی آبادی کی تعلیم و طبی سہولتوں کہ ذمّہ داری سنبھالی ہے وہ نہایت قابل تحسین ہے۔ حکومت (خواہ کسی کی بھی ہو) وہ صرف اپنی دولت و اثاثہ بڑھانے میں لگی رہتی ہے اگر یہ نجی ادارے تعلیمی و طبی سہولتیں مہیا نہ کرتے تو کراچی کی آبادی جہالت اور بیماریوں تلے ڈوب مرتی۔ ابھی الیکشن میں حصّہ لینے کے لئے اُمیدواروں نے گوشوارے داخل کئے ہیں تعجب ہوتا ہے کہ ہر ایک کے پاس کروڑوں اور اربوں روپیہ کی جائیدادیں اور اَثاثہ جات ہیں۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ یہ کہاں سے آئے، ہر ایک کے باپ دادا غالباً قارون کے خزانچی ہونگے۔ کوئی ایسا نظام نہیں ہے کہ اس ناجائز دولت و املاک کی جانچ پڑتال کرے۔
(نوٹ) (1) ملک میں پانی کی قلّت کے خطرہ کی گھنٹیاں بج رہی ہیں لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ ہر قومی مسئلے کو صوبہ پرستی کا مسئلہ بنا لیاجاتا ہے۔ راول ڈیم مٹی سے بھرتا جارہا ہے دارالحکومت میں ہونے کے باجودہ غفلت کا شکار ہے۔ موسم گرما میں نہایت آسانی سے چند ہفتوں میں اسکی مٹی نکال کر اسکی گہرائی بڑھائی جاسکتی ہے مگر کسی کو اس کی پروا نہیں ہے۔
(2) وہ کام جو نااہل حکمرانوں کو کرنا تھا وہ کام عزّت مآب جناب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کررہے ہیں۔ اسکولوں، اسپتالوں، صفائی کا معائنہ کررہے ہیں وہاں کے بدترین اور گندے حالات ٹھیک کرا رہے ہیں۔ حکمرانوں کی بے حسی اور لا پروائی باعث شرم ہے۔
(3) عیدالفطر کے مُبارک موقع پر لاتعداد دوستوں، ہمدردوں، بہی خواہوں اور محبت کرنے والوں کی جانب سے مُبارکبادی اور صحت و درازیٔ عمر کے پُرجوش پیغامات موصول ہوئے، فرداً فرداً جواب دینا ناممکن ہے۔ سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ پاک آپ سب کو اور اہل خانہ کو تندرست و خوش و خرم رکھے، حفظ و امان میں رکھے، عمر دراز کرے۔ آمین۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین