• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں، بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ سیاست میںتولنا ایک خطرناک کام ہے۔ ہو سکتا ہے ایک منحنی سا آدمی، بڑے تن وتوش والے سے زیادہ ’’وزن‘‘ رکھتا ہو۔ اس لئے عافیت گننے میں ہی ہے۔ سو اہل مغرب نے صداقت اور امانت کو پرکھنے کا معیار بنانے کے بجائے گننے کو جمہوریت کا نام دیا اور ہم نے ان کی نیاز مندی میں ووٹروں اور جاہ طلب لیڈروں کے لئےتقویٰ اور پرہیز گاری کو خیر باد کہتے ہوئے اسی معیار کو اپنا لیا۔ پاکستان میں پانچ سال بعدپھر بندوں کے گننے کا وقت آگیا ہے تاکہ جمہوریت پھلتی پھولتی رہے۔ جمہوریت جمہور کی حکمرانی کو کہتے ہیں اور جمہور کی اصطلاح عوام کے لئے استعمال ہوتی ہے جو گرائمر کی رو سے عام کی جمع ہے اور مذکر ہے لیکن ہمارے خواص میں سے جو خاص الخواص یعنی سیاستدان ہیں۔ پہلے انہیں مونث سمجھتے اور سلوک بھی تقریباً ویسا ہی کرتے تھے، اب پکارنے بھی مونث ہی لگے ہیں مثل مشہور ہے، ’’ہاتھی کے پائوں میں سب کے پائوں، سیاستدانوں کے علاوہ پڑھے لکھے لوگ بھی اب عوام کو ’’مونث‘‘ ہی بولتے اور لکھتے ہیں اور اردو زبان کو ’’ٹھیک‘‘ کر رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹر بھی ان کی تقلید میں عوام مطالبہ ’’کرتے ہیں‘‘ کی بجائے عوام مطالبہ ’’کرتی ہے‘‘، ہی لکھنے اور بولنے لگے ہیں۔ ویسے بھی عوام مرد ہوں یا عورت، خواص، بالخصوص خواص الخواص کے نزدیک ’’ایویں ای‘‘ ہیں جو صرف انتخابات کے وقت یاد آتے ہیں۔ وہ بھی اس لئے کہ ان سے ’’گن گن‘‘ کر ووٹ لینا ہوتے ہیں۔ عوام کا کام یہ ہے کہ وہ ان کو ووٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچائیں۔ پھر ان کی زیارت کے لئے وقت مانگتے اور خوار ہوتے پھریں۔ ان میں سے زیادہ تر کادیدار عموماً انتخابات کے دنوں میں ہوتا ہے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے، کئی علاقوں میں تو ووٹ کی ایک پرچی پر ناز کے مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے جب ووٹر، زبان درازی کرتے ہوئے اپنے منتخب نمائندوں سے پوچھنے کی جرـات کر بیٹھے کہ حضور، پچھلے پانچ سال کہاں تھے، بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے، خواص خود گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں جنہیں سیاسی پارٹیاں کہا جاتا ہے۔ ہر پارٹی کا ایک ہی ایجنڈا ہوتا ہے، اقتدار پر قبضہ، مگر وہ اس منشور ، کا چرچا نہیں کرتی اس کی بجائے ووٹ دینے ’’والی‘‘ عوام کو متاثرکرنے، یعنی بے وقوف بنانے کے لئے خوش کن نعروں سے کام لیتی ہے، کوئی اسلامی نظام نافذ کرنے کا نعرہ لگاتی ہے، کوئی روٹی کپڑا اور مکان کا، اور کوئی ترقی اور خوشحالی کے دعوئوں کا جال بچھاتی ہے۔ صرف پی ٹی آئی صاف گوئی سے کہتی ہے کہ ہم نے تو عمران خان کو وزیراعظم بنانا ہے کیونکہ وہی ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ یہ نعرے دعوے اور وعدے سنتے رہئے اور سر دھنتے رہئے۔ ان میں سے شاید ہی کوئی پورا ہو۔ یہ اقتدار کی سیاست کے بنیادی حربے اور جمہوریت کا ’’حسن‘‘ ہیں۔
جب اقتدار مل جائے تو اکثر وہی کچھ ہوتا ہے جس میں چار پیسے کا فائدہ ہو۔ یقین نہ آئے تو گزشتہ70سال کی تاریخ کھنگال کر دیکھ لیجئے۔ ’’بے چاری‘‘ عوام ہمیشہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، نوابوں، سرداروں، وڈیروں کو ووٹ دے کر جمہوریت کو مضبوط ’’کرتی‘‘ رہی، جو تھانے، کچہری اور پٹوار خانے میں ’’اس‘‘ کے کام آسکتے ہوں، خواہ جائز ہو یا ناجائز ہمارے جیسے غیر ترقی یافتہ اور کم تعلیم یافتہ معاشروں کی یہی مجبوری اور یہی روایت ہے۔ سیاستدانوں کے لئے سیاست جاننا ضروری نہیں الیکشن جیتنے کی سائنس جاننا ضروری ہے۔ یعنی گٹھ جوڑ ، ہیرا پھیری وغیرہ۔ جو سیاستدان اس علم سے بے بہرہ ہوں وہ اکثر اقتدار سے بھی بہرہ مند نہیں ہوتے۔
انتخابات جمہوریت کا تقاضا ہیں جن کے ذریعے عوام اپنے نمائندوں کا کچھ خوشی سے اور کچھ دل پر پتھر رکھ کر چنائو کرتے ہیں۔ منتخب ہونے والوں میں کچھ جدی پشتی امیر ہوتے ہیں اور کچھ ایسے بھی جن کی پشت پر کوئی امیر ہو۔ یعنی امیر بھی اور غیر امیر بھی منتخب ہو سکتے ہیں۔ امیر وہ جو دولت سے ووٹ بناتے ہیں اور ووٹ سے دولت، غیر امیر وہ جن کے پاس دولت نہیں ہوتی مگر دولت بنانے کے گر ہوتے ہیں۔ ان میں پڑھے لکھے بھی ہوتے ہیں جو پڑھتے ہیں نہ لکھتے ہیں۔ دوسروں سے پڑھواتے اور لکھواتے ہیں۔ عوام کے نمائندے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو حکومت کریں اور دوسرے وہ جو انہیں حکومت نہ کرنے دیں۔ جب بھی حکومت کے چل پڑنے کا خطرہ محسوس کریں ’’اپنی‘‘ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر، کو سڑکوں پر لے آئیں۔ دھرنے دے دیں۔ حکومت کرنے اور نہ کرنے دینے والے دونوں عوام کے ’’ہر دل عزیز‘‘، نمائندے حکمرانی کو اپنا حق سمجھتے ہیں دوسرا حکومت کرے تو برا مناتے ہیں اور اس کی ٹانگیں کھینچنے میں جت جاتے ہیں۔ یہ عمل حکومت کو غلط کاموں سے روکنا کہلاتا ہے لیکن جب خود اقتدار میں ہوںتواسی عمل کو عوام دشمنی کہاجاتا ہے جو حکومت کرتے ہیں وہ حکومت چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور جو حکومت نہیں کرتے وہ حکومت کرنے والوں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اس لئے خود بھی ٹینشن میں رہتے ہیں اور عوام کو بھی ٹینشن میں رکھتے ہیں۔ حکومت کرنے اور حکومت کی مخالفت کرنے والوںمیں کچھ شریف بھی ہوتے ہیں اورکچھ غیر شریف بھی۔، صاحب نظر بھی اور کم نظر بھی۔ ہمارے ملک میں صاحبان نظر کی فراوانی ہے۔ یہ ہر چیز کو صرف اپنی نظر سے دیکھتے ہیں انہیں صرف وہی دکھائی دیتا ہے جو دیکھنا چاہتے ہیں دوسروں کے دیکھے پر اعتبار نہیں کرتے ، دن کو رات اور رات کو دن کہنے کا جی چاہے تو کہتے ہی نہیں، منوا کے بھی چھوڑتے ہیں۔ الا یہ کہ کوئی ان سے بھی طاقتور انکے منہ پر ہاتھ نہ رکھ دے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین