• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن 2018ء کیلئے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کردی گئی، الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کو نشانات الاٹ اور بیلٹ پیپرز کی چھپائی شروع ہوچکی ہے۔ جوں جوں الیکشن قریب آرہے ہیں ، عوام میں کنفیوژن مزید بڑھتا جارہا ہے کہ وہ کس کو ووٹ دیں اور کیوں؟
زیادہ دُور نہیں جاتے، حالیہ برسوں کی بدترین جمہوری حکومتوں کو لے لیتے ہیں، 1999ءمیں جب جنرل پرویزمشرف نے جمہوریت پر شب خون مارا تو 2002 ءمیں الیکشن کروائے گئے ، تب الیکشن کمیشن میں سینکڑوں سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ تھیں چونکہ ن لیگ کا اقتدار ختم ہوا تھا تو اسکو ق لیگ کا لبادہ پہنا دیا گیا اور پھر الیکشن میں یہ کنگ پارٹی نہ صرف جیتی بلکہ وردی کے سائے تلے اسکی حکومت بھی چلتی رہی ، عوام دھوکے میں آگئے کہ ہے تو یہ مسلم لیگ اور اس کیساتھ لاحقہ’’ ق ‘‘لگا لیں ’’ج یا زیڈ ‘‘بات ایک ہی ہے، اس لئے زیادہ تر امیدوار بھی وہی جیتے جو پہلے ن لیگ کے نام سے جیتے تھے یا ایسے آزاد امیدوار جو ن لیگ کی حکومت میں ساتھ تھے ، انکی سوچ مثبت ہوگی اور آئین و قانون کیخلاف یہ پارٹی نہیں چلے گی لیکن کیا معلوم تھا کہ بدترین جمہوریت آمریت کے سائے تلے چل رہی ہے اور آمریت کا اپنا ڈسپلن اور نظریہ ہے، یہ نظریہ تو ذاتی مفادات اور اقتدار کا نظریہ ہی ہوسکتا ہے۔ پھر ہم سب نے دیکھا کہ کس طرح سپریم کورٹ کا تقدس پامال ہوا اور انصاف کرنیوالوں کو انصاف لینے کیلئے سڑکوں پر مارچ کرنا پڑا ۔ عدلیہ بحالی کی طویل جدوجہد کے بعد الیکشن 2008ءکے نتیجے میں بدترین جمہوری اقتدار پیپلز پارٹی کو دیدیا گیا۔ آصف علی زرداری کو صدر مملکت بنا دیا گیا ۔ انہوں نے عوام اور پاکستان کی فلاح وبہبود کیلئےکوئی کام کرنے کی بجائےاپنی تمام صلاحیتیں اقتدار کو بچانے میں صرف کردیں۔انہوں نےاقتدار کے دوران ایک کام اچھا یہ کیاکہ صدر کے اختیارات کم کر دیئے گئے۔ لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ دراصل ’’نظریہ اقتدار‘‘ کیلئے کیا گیا تاکہ مدت صدارت ختم ہونے کے بعد پھر الیکشن لڑ کر وزیراعظم منتخب ہوا جا سکے۔ کیونکہ بیشمار وہ عوامی نمائندے جو پہلے ’’نظریہ اقتدار ‘‘کی تکمیل کیلئے ق لیگ میں چلے گئے تھے وہ اب زیادہ تر پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے تھے اور کچھ ن لیگ کا حصہ بن گئے ۔ اب 2013ء کے الیکشن میں نظریہ اقتدار کا یہ ’’ ہما‘‘ ن لیگ کے سر پر بٹھادیا گیا ۔ اس لئے نظریہ اقتدار کو اپنا ’’ ایمان‘‘ سمجھنے والے سارے عوامی نمائندے اپنے اپنے ’’نظریہ اقتدار ‘‘کیساتھ ن لیگ میں اکٹھے ہوگئے ۔ لیکن چونکہ ن لیگ کے نظریہ اقتدار کے سربراہ نے یہ سمجھ لیا کہ اب انکا چار دہائیوں کا سیاسی تجربہ ہوگیاہے اور اقتدار کے ’’ ہما‘‘ کا یہ بوجھ خود اٹھا سکتے ہیں اس لئے جو دل میں آیا کرتے گئے یہاں تک کہ ملکی سلامتی جیسے حساس معاملے کوبھی پس پشت ڈال دیا ۔ یہ گمان کیا جانے لگا کہ ’’ ہما‘‘ کو اڑا کے جسکے سر پہ چاہیں رکھ سکتے ہیں لیکن معلوم نہ تھا کہ اس ’’ ہما ‘‘ کے تو پَر ہی نہیں اور اسی دوران پاناما کا کھیل شروع ہو گیا جو ہنوز جاری ہے۔ پھرجب سپریم کورٹ سے تاحیات نااہلی کا سرٹیفکیٹ ملا تو نظریہ اقتدار کا نعرہ چھوڑ کر ’’ نظریاتی‘‘ اور انقلابی ‘‘ ہونے کا بیانیہ متعارف کروایا اور سیاست کو وراثتی کلیہ کی بنیاد پر اپنی بیٹی کیساتھ جگہ جگہ ، شہر شہر جلسے کئےگئے اور جوں جوں پاناماکیس اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھنے لگازبان میں اتنی تیزی آئی کہ اخلاقیات کی تمام حدیں پار ہوگئیں ۔
31مئی 2018ء کو اسمبلیاں تحلیل ہونے سے پہلے ہی تبدیلی اقتدار کا نیا نظریہ متعارف ہوگیا اور اب وہ سارے موسمی پرندے جو پہلے ن لیگ کے گھونسلوں پر بسیرا کئےہوئے تھے ان میں سے اکثریت نے پی ٹی آئی کے گھونسلوںکو اپنا مسکن بنا لیا ، کچھ آزاد حیثیت میں آگئے۔ پی ٹی آئی اور اسکے چیئرمین عمران خان جنکی 22سالہ جدوجہد کا محور ہی یہ تھا کہ کرپشن کیخلاف جہاد کیا جائے، اسٹیٹس کو توڑا جائے، وقتاً فوقتاً یہ بلندو بانگ دعوے اور نعرے لگائے جاتے رہے کہ یہ سب چور ہیں ان کیلئے نہ تو تحریک انصاف میں کوئی جگہ ہے اور نہ ہی الیکشن لڑنے کے قابل ہیں۔ ہم نظریاتی سیاست کرتے ہیں اور نظریاتی لوگوں اور ورکرز کو ہی ٹکٹ دیئے جائینگے۔ ہم نے سیاسی تاریخ کا اتنا لمبا دھرنا ایسے ہی نہیں دیا تھا اور ا سٹیٹس کو کے نظریئے کو ایمان سمجھنے والوں سے تبدیلی نہیں آسکتی ۔ لیکن جونہی انہیں یقین ہوگیا کہ نہ تو پارٹی اے ٹی ایم کے بغیر چل سکتی ہے اور نہ ہی تبدیلی اقتدار حاصل کئے بغیر لائی جاسکتی ہے ، تو اپنی نظریاتی فلاسفی کو خیر باد کہتے ہوئے ’’نظریہ اقتدار ‘‘کو ’’الیکٹ ایبلز نظریئے ‘‘کا نام دیکر امیدوار میدان میں اتاردیئے ۔ یہ سب الیکٹ ایبلز وہ ہیں جنکی اکثریت گزشتہ بننے والی ہر حکومت کا حصہ تھی۔ اس مرتبہ ان الیکٹ ایبلز کے سرپر ’’ ہما‘‘ بیٹھے گا ، اور آنیوالی حکومت بھی ویسی ہی تشکیل پائے گی، جیسی وقت کے مطابق ضرورت ہوگی اور عمران خان ایک مرتبہ پھر نیا یو ٹرن لے چکے ہوں گے۔
اس صورتحال میں عوام بہت زیادہ کنفیوژ اور یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ اپنے آپکو کس نظریہ کے تابع کریں ، یہاں تو سب سیاسی جماعتیں ایک جیسا نظریہ رکھتی ہیں اور ہر کسی نے ہمیشہ انکا استحصال کیا ، نعرے مختلف ضرور تھے، لیکن ان جماعتوں کی منزل صرف اقتدار کے ذریعے ذاتی مفادات کا حصول رہا ۔ سونے پہ سہاگہ اب متحدہ مجلس عمل نے ایک نیا نعرہ لگا دیا ہے کہ اگر ایک دن بھی حکومت ملی تو اسلام نافذ کرینگے۔ مذہب کو استعمال کرنے کی اس سے بڑی شاید ہی کوئی مثال ہو ، اچھی بات یہ ہوئی کہ اب عام آدمی، کسان اور پڑھے لکھے ، جبکہ سندھ کے ہاری اور وڈیروں کے غلاموں اور قبائلی سرداروں کے صدیوں سے بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکے جانیوالے لوگوں نے اپنے آپکو پہچاننا شروع کر دیا ہے کہ وہ بھی انسان ہیں اور انسانیت کی تذلیل نہیں ہونے دینگے ۔ اسی لئے اب وہ امیدواروں سے سوالات کر رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ وہ ہمارے ووٹ کا استحصال کیوںکرتے ہیں اور غلط لوگوں کو ٹکٹیںدینے پر ہر جماعت اور لیڈروں کیخلاف سخت احتجاج اب بھی جاری ہیں ، انکا کہنا ہے کہ اب ووٹرز کوعزت نہ ملی تو تمہیں بھی عزت نہیں ملے گی، انکا مطالبہ ہے کہ اپنی جائیداد وںکا دس فیصد صرف اپنے پاس رکھ کر باقی سب اس ملک اور اپنے حلقے کی بہتری کیلئے وقف کر دو، تب ووٹ دینگے اور الیکشن کمیشن سے یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ بیلٹ پیپرز پر یہ آپشن بھی دیا جائے کہ اگر کوئی ووٹر کسی کوبھی ووٹ نہیں دنیا چاہتا تو اپنی رائے بھی دے سکے ،اگر یہ تجربہ الیکشن کمیشن کرتا ہے تو پھرنظریہ اقتدار ہمیشہ کیلئے ختم ہوسکتا ہے۔ ورنہ سب کچھ ویسا ہی رہے گا۔ کبھی کوئی مثبت تبدیلی نہیں آسکتی نہ ہی ووٹرز کو عزت مل سکتی ہے —پھر یہ سمجھ لیجئے کہ الیکشن ہو چکے اب 25جولائی کو جیتنے والوں کا صرف نوٹیفکیشن جاری ہونا باقی ہے !
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین