• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جولائی کا انتخابی مہینہ آن پہنچا، ایک طرف ابھی تک عام انتخابات بروقت ہونے نہ ہونے کی بحث ہے تو دوسری طرف سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی عمل کی شفافیت پر سنگین سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ ایک طرف جدید گیجٹس سے لیس کروڑوں ووٹرز پانچ سالہ حکمرانی کا مزہ لوٹنے والوں کی واپسی اور دوبارہ ووٹ مانگنے کو خطا قرار دے کر معاف کرنے کو تیار نہیں، دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے خوب کھری سنانے کی دیدہ دلیری کو سوشلستان میں فخریہ طور پر پھیلا بھی رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے استعمال کا یہ بے مثال مظاہرہ اس سے پہلے شاید ہی کسی انتخابی مہم کے دوران دیکھا گیا ہوگا۔ ادھر الیکشن کمشن، فوج، عدلیہ اور بےچاری نگراں حکومتیں عام انتخابات کو غیرجانبدار، شفاف انتظامات اور بروقت انعقاد کی یقین دہانیوں میں مصروف ہیں۔ بعض علاقوں میں توعملی اقدامات کا نظارہ بھی ہو رہا ہے۔ جہاں پہلے لوگ ’’دل‘‘ کے ہاتھوں مجبور ہوکر وفاداریاں بدل رہے تھے اب جوک درجوک ’’مایوس‘‘ ہوکر ٹکٹ واپس کر رہے ہیں۔ کہیں انتخابی نشان ’’جیپ‘‘ دیئےجانے کا تذکرہ ہے تو کہیں نیب کے بعد ’’محکمہ زراعت‘‘ کی دن دہاڑے پارٹی امیدواروں کے ’’مزاج‘‘ درست کرنے کی کارروائیوں کی بے حوصلہ خبریں آرہی ہیں۔ کہیں انتخابی مہم کے دوران پارٹی قائدین پر ’’ناراض ووٹرز‘‘ کے مبینہ ’’پتھراو‘‘ کے واقعات ہورہے ہیں تو کہیں ’’ازخود مددگار‘‘ فورس کی چھاپہ مار انتخابی مہم چلانے کی اطلاعات آرہی ہیں۔
25 جولائی کو انتخابات بروقت ہونے پر گمسان کا رن پڑنے والا ہے لیکن سب سے بڑا سوال اٹھ رہا ہے کہ ایک بڑی جماعت کی ’’کرپٹ‘‘ لیڈر شپ اور اس کے امیدواروں کی ’’بھل صفائی‘‘ کے عمل کے بعد انتخابی نتائج کو تسلیم کون کرے گا؟ کہا جارہا ہے کہ دنیا کی جدید سیکورٹی فیچرز والا بیلٹ پیپر تیار کر لیا گیا ہے لیکن 25جولائی کو اس فول پروف بیلٹ پیپر کی حفاظت کون کرے گا؟ شاید یہی فکر نااہلی کے بعد ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ لگانے والے ن لیگ کے قائد نوازشریف کو بھی ہے جو اب کہتے ہیں کہ ’’صاف شفاف الیکشن کی امید ختم ہوتی جا رہی ہے، ان کے امیدواروں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے لئے دبائو ڈالا جا رہا ہے، ن لیگی امیدواروں کو جیپ کے نشان پر آزاد الیکشن لڑنے کے لئے بھی مجبور کیا جارہا ہے، بڑے میاں صاحب کہتے ہیں انتخابات کو متنازع نہ بنایا جائے اور ملک میں ایسی کیفیت پیدا نہ کی جائے جس سے انتشار پیدا ہو۔‘‘ جی ہاں انتشار کی بات میاں صاحب نے پہلی مرتبہ نہیں کہی وہ یہ بات کئی اہم پارٹی رہ نماوں کی بے وفائی کی مشق شروع ہونے کے بعد سے کئی مرتبہ دہرا چکے ہیں۔ تاہم اب انہوں نے ایک ٹکٹ ہولڈر کی جانب سے انٹیلی جنس ادارے پر وفاداری تبدیل کرنے کے الزام کی براہ راست توثیق کر کے نیا پنڈورہ باکس کھول دیا ہے، حالانکہ الزام دہرانے سے پہلے انہیں دیکھنا اور سوچنا چاہئے تھا اور تصدیق کرنا چاہئےتھی۔ میاں صاحب کی نظر میں اگر یہ سب کچھ ہورہاہے، توسوال پیدا ہوتا ہے کہ ن لیگ اس مبینہ ’’رِگڈ‘‘ انتخابی عمل سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟ بظاہراعلیٰ قیادت کی جانب سے اس کا کوئی واضح جواب نہیں دیا جارہا تاہم راقم کو بعض اہم ترین ذرائع نے پارٹی اکابرین کی لندن میں باہمی مشاورتی اجلاسوں بارے میں انکشاف کیا ہے کہ ن لیگ مبینہ انتقامی کارروائیوں اور دیوار سے لگانے کے الزامات کی روشنی میں عام انتخابات کے آخری مرحلے میں بائیکاٹ کی حکمت عملی پر بھی غور کررہی ہے، اس بڑے فیصلے سے پورا انتخابی عمل بے وقت اور بے معنی ہو کر رہ جائے گا جس کو شاید ملکی یا عالمی سطح پر کوئی بھی تسلیم نہیں کرےگا؟ انکے خیال میں انتخابی عمل میں ہر صورت حصہ لیتے ہوئے کسی صورت میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہئے، بہتر ہے کہ انتخابی نتائج حق میں نہ آنے پر انہیں تسلیم نہ کرنے کی حکمت عملی بنائی جائے، بعض پارٹی رفقاء کا اندازہ ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی مخلوط حکومت قائم ہو بھی گئی تو ملکی اور عالمی سطح پر سخت چینلجز سے حکومت کا چند ماہ چلنا بھی محال ہوجائے گا یا کچھ عرصے بعد ’’ناقابل بھروسہ‘‘ قرار دے کر چلتا کر دیا جائے؟ چھوٹے بھائی کا خیال یہ بھی ہے کہ طاقت ور اداروں سے ابھی لڑنا مناسب نہیں بلکہ مخالفین کا آخری وقت تک مقابلہ اور عام انتخابات کے بعد حائل رکاوٹوں کو ایکسپوز کرنے کا موقع مل سکتا ہے، اس سے بڑے میاں صاحب کے بیانے کو تقویت بھی ملے گی۔ کہا جارہا ہے کہ اس وقت اصل مقابلہ عمران بمقابلہ شہباز ہے، اسی لئے تو مسٹر خان کی سعادت مندی کے مقابل چھوٹے بھائی سیٹ ایڈجسٹ منٹ کیلئے چھ جماعتوں کیساتھ مذاکرات کا ہاتھ بڑھا چکے ہیں، کچھ پرانے دوستوں کی مدد سے اداروں کے ساتھ مل کر چلنے کی آفر کررہے ہیں اور اب مثبت اشارے چاہتے ہیں، تاہم انہیں جواب دیا جارہا ہے کہ اب نہیں؟ سینئر رہنماوں کی نظر میں دونوں بھائیوں کے درمیان بیانئے اور بچوں میں آئندہ کی باگ دوڑ کے حصول کی لڑائی کا براہ راست نقصان پارٹی کو ہورہا ہے جبکہ ووٹر بھی بے یقینی اور بے چینی کا شکار ہے، اس صورت حال سے نکلنے اور تفاوت دور کرنے کا دبائو بڑے میاں صاحب پر ڈالا جارہا ہے اور مصدقہ ذرائع کے بقول محترمہ کلثوم نواز کی بیماری کے معاملے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میاں صاحب نے اپنی صاحبزادی کے ہمراہ وطن واپسی کا فیصلہ کرلیا ہے اور ممکنہ طور پر جولائی کے دوسرے ہفتے میں لاہور سے انتخابی مہم کا آغاز کریں گے۔ دھاندلی کے الزامات اور دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی دورخی حکمت عملی میں ن لیگی قیادت کامیاب ہوتی یا نہیں، انہیں سمجھنا چاہے کہ ماضی بعید اور 2013میں انہیں حکومت بنانے میں مبینہ مدد کے الزامات آج تک ثابت ہوئے نہ خفیہ ہاتھ کبھی بے نقاب ہوا تو2018 کےعام انتخابات سے پہلے، دوران ووٹنگ اور نتائج میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کو کیسے ثابت کیا جاسکے گا؟
عوام جاننا چاہتی ہے کہ ووٹر کے دئیے گئے مینڈیٹ اور جمہوری دور کے ساتھ کھلواڑ اور مبینہ ’’زیادتی‘‘ ہوتو قومی مفاد آڑے آجاتا ہے اور حکمرانوں کے اپنے ساتھ احتسابی سلوک یا مقدمات کا کھیل شروع ہو تو آسمان سر پر اٹھا کر انصاف کی دہائی دی جائے؟ آپ کو سزا ہونے کا یقین ہے اسی لئے کہہ رہے ہیں کہ عوام باشعور ہوچکے ہیں وہ اب دھاندلی برداشت نہیں کریں گے جی ہاں میاں صاحب اقتدار سے نکالے جانے، سینیٹ کے شفاف انتخابی عمل اور وفاداریاں بدلنے کے رازوں سے بروقت پردہ اٹھا دیتے تو آج امید ٹوٹنے اور سارا بوجھ عوام پر ڈالنے کی نوبت نہ آتی، تاہم اب کی بارآپ کو بتانا پڑے گا کہ دھاندلی کے الزامات کا سر کون، ہاتھ کیسے اور پائوں کہاں ہیں؟ آپکو بتانا پڑے گا کہ سیکورٹی فیچرز والے بیلٹ پیپر کے بیلٹ باکس تک پہنچنے کا سفر محفوظ کیسے ہوگا؟ گھر سے بوتھ تک آنیوالے ووٹر کی نگہبانی کیسے ممکن ہوگی؟ بیلٹ باکس سے نکلنے والے نتیجے کی حفاظت کیسے اور کیونکر ممکن ہوگی؟ اب بھی عوام منتظر ہیں کہ مایوسی کی باتیں کرنے کی بجائے مندرجہ بالا سوالوں کے ’’جواب‘‘ کا انتظام کریں وہ بھی انتخابات سے پہلے، انتخابی محاذ کی بازی پلٹ بھی سکتی ہے فتح مقدر بن سکتی ہے کیونکہ عوام سب کچھ نہ صرف دیکھ رہے بلکہ سمجھ بھی رہے ہیں، ورنہ آپکے سابق وفادار ساتھی کی جیپ کی سواریاں تیار جبکہ شفاف، غیرجانبدار اور ’’محفوظ‘‘ الیکشن سے تبدیلی لانے کے انتظامات تو مکمل ہونے کو ہیں!

تازہ ترین