• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اندازہ ہے کہ صرف برطانیہ میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد افراد حرکت قلب بند ہونے سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اس حملۂ مرض میں دل کی رفتار بے قابو اور بے ہنگم ہو جاتی ہے، دھڑکن کی رفتار فی منٹ 500تک جا پہنچتی ہے اور جسم کو خون کی فراہمی کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ طبی امداد بہم پہنچنے کی صورت میں عموماً شاک دے کر دل کی حرکت کو رکنے نہیں دیا جاتا۔ ہارٹ اٹیک سے مرنے والوں کی تعداد کا سوال آج کل ڈاکٹروں اور ماہرین قلب کی توجّہ کا پھر مرکز بنا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں سینٹ جارج اسپتال میڈیکل اسکول لندن کے پروفیسرز آئندہ تین سال تک 35 سے 65سال کی عمر کے درمیان حرکت قلب بند ہو جانے والوں کے دلوں کا بہت تفصیل سے معائنہ کریں گے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ دل کے دورے کے باعث ہونے والی اچانک موت کے کیا اسباب ہیں؟ ان تحقیقات کو برطانوی میڈیکل ریسرچ کونسل کا تعاون بھی حاصل ہے اور ان کا نقطۂ آغاز یہ علم ہے کہ زیادہ تر اموات دل کے عضلات میں خون کی کمی کی وجہ سے واقع ہوئی تھیں لیکن محققین کے پاس اس سلسلے میں معلومات نہایت محدود ہیں کہ خون کی مخصوص ’’گرہ‘‘ یا رکاوٹ کس جگہ شروع ہوئی۔ اس ساری تحقیقات کا مقصد صرف یہ جاننا نہیں ہو گا کہ دل کے کون سے حصّے میں عام طور پر خون کی گرہیں بننے کا خطرہ ہوتا ہے بلکہ یہ معلوم کرنا بھی مقصود ہے کہ عمر، جنس، تمباکو نوشی کی عادت اور دل کے مہلک دورے کے دورانیے اور خون کی مخصوص گرہوں یا لوتھڑوں کے درمیان کوئی مشترکہ شے بھی ہے یا نہیں؟ اس تحقیق سے یہ معلومات بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ دل کے عضلات میں جو شریانیں کسی رکاوٹ کی وجہ سے یا تنگ ہونے سے متاثر ہو گئی ہیں ان کی کیا اور کتنی شدّت ہے اور یہ بھی معلوم کیا جائے گا کہ دل میں کتنی جگہ مردہ ٹشو بن جاتے ہیں؟ متاثر افراد کے مختلف گروپوں سے ملنے والی معلومات کا تقابلی جائزہ لے کر دیکھا جائے گا کہ کیا کوئی خاص طرز پائی جاتی ہے، ورنہ عام طور پر یہ تعین کیا جاتا ہے کہ دل کے عضلات کی بیماری میں مبتلا لوگوں کے دل کی شریانیں زیادہ موٹی یعنی تنگ اور سخت ہوتی ہیں بہ نسبت ان لوگوں کے جنہیں دل کی کوئی بیماری نہ ہو۔ حرکت قلب کے ان امکانات کو روکنے کیلئے جہاں سائنسدان، ڈاکٹرز اور ماہرین قلب نے بہت سے پروجیکٹس پر کام شروع کیا ہوا ہے وہاں حال ہی میں ہالینڈ کے سائنسدانوں نے ایک چھوٹا سا برقی آلہ ’’کک اسٹارٹ‘‘ کے نام سے ایجاد کیا ہے، اس کو ہنسلی کی ہڈی کے نیچے کھال کاٹ کر نصب کر دیا جاتا ہے اور اس سے نکلا ایک تار قلب کے اندر اتار دیا جاتا ہے۔ آلے میں لگی بیٹریاں برقی جھٹکا فراہم کرتی ہیں، دل جوں ہی ڈانواں ڈول ہو کر ڈگمگانے لگتا ہے، اسے فوری طور پر رواں دواں رکھنے کیلئے آلے سے بجلی کی رو خارج ہوتی ہے جو دل کی دھڑکنوں کو روکنے یا بے قابو نہیں ہونے دیتی۔ اس طرح اس ’’کک اسٹارٹ‘‘ سے دل کو جو کک لگتی ہے وہ دل کی رفتار کو اعتدال میں لے آتی ہے۔ دیاسلائی کے سائز کا یہ چھوٹا سا آلہ وہی کام کرتا ہے جو اسپتالوں میں اس مقصد کیلئے استعمال ہونے والی مشین کرتی ہے۔ تیاری کے ابتدائی مراحل ہی میں یہ آلہ بہت کامیاب ثابت ہوا ہے اور اس کی افادیت سے کسی بھی ماہر قلب کو اختلاف نہیں ہے۔ چنانچہ اس پر مزید تجربات کا سلسلہ روک کر اس کی تیاری اور فراہمی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ ادویات کے مقابلے میں اس آلہ نے اب تک کئی جانیں بچائی ہیں اور اس کے نتائج ماہرین نے بہترین قرار دیئے ہیں۔
امراض قلب کے شکار وہ افراد بھی ہوتے ہیں جنکے دل میں پیدائشی خرابیاں یا رکاوٹیں موجود ہوتی ہیں، ایسے مریضوں کے قلب میں اس آلے کی تنصیب سے ان کی ناگہانی موت کے امکانات تقریباً ختم ہو جائیں گے۔ اسکا طریقۂ کار بھی تھوڑے سے فرق کے ساتھ ویسا ہی ہے جو کہ عام طور پر ہارٹ اٹیک کے مریض کیلئے ایجاد کیا گیا ہے۔ اس چھوٹے سے ’’جنریٹر‘‘ سے نکلنے والے تار کو شریان کے راستے قلب کے ایک چیمبر میں پہنچا دیا جاتا ہے جو تیز رفتار دل کو فوری طور پر ایک برقی جھٹکے سے قابو میں لے آتا ہے اور اس طرح اسکی رفتار متوازن اور معمول کے مطابق ہو جاتی ہے۔ ماہرین قلب کی رائے میں دل کی بیماریوں کے شکار افراد چلتے پھرتے حملے کا شکار ہوں تو ان کے بچنے کے امکانات محض 5فیصد ہوتے ہیں لیکن یہ آلہ لگوانے کی صورت میں نمایاں کمی واقع ہو جائے گی۔ فی الحال یہ آلہ بہت مہنگا ہے۔ ایک عام آدمی کی اس تک رسائی نہیں لیکن ’’جان ہے تو جہاں ہے‘‘ کے محاورے کے مطابق لوگ کسی نہ کسی طرح اسے حاصل کر لیں گے۔ واضح رہے کہ 15,000پونڈ کا یہ آلہ قلب کی رفتار باقاعدہ رکھنے والے آلے ’’پیس میکر‘‘ سے مختلف ہے۔ اس آلہ (کک اسٹارٹ) سے وقتی طور پر جھٹکا لگتا ہے جبکہ ’’پیس میکر‘‘ قلب کو برقی جھٹکا نہیں دیتا۔ آج کا لطیفہ کچھ یوں ہے:
ایک امیر عورت اپنی پڑوسن سے کہہ رہی تھی ’’میرے شوہر دل کے مریض ہیں، مجھے تو ساری رات جاگنا پڑتا ہے۔‘‘
’’آپ ساری رات جاگنے کے بجائے ایک نرس کیوں نہیں رکھ لیتیں۔‘‘ پڑوسن نے پوچھا۔
’’نرس ہے…تبھی تو مجھے ساری رات جاگنا پڑتا ہے۔‘‘ وہ بولی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین