• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاست اور سماج پر منڈلاتے ہوئے دو بھوتوں کی لڑائی کب کی ٹھنڈی ہو چکی ہے۔ اب پتہ نہیں چلتا کہ بھٹو کا بھوت کون سا ہے ۔ ضیا کا بھوت کون سا۔ شاید کبھی کبھی ضیا سے لڑتے لڑتے لوگ خود بھی ضیا ہو جاتے ہیں۔ آج پر آشوب دور کی یادیں لےکر آنیوالی پانچ جولائی کے دن میں واقعی سوچ رہا ہوں۔
اگر ضیا عالم بالا سے آج کے دن واپس بھی آ جائے (نہ جانے وہاں کس عرشے میں ہوگا) یہ دیکھ کر اس کا بھی سر چکرا جائے گا کہ آج جو اسکی باقیات کو چیلنج کر رہا ہے وہ بھٹو کی باقیات نہیں بلکہ اسکی اپنی باقیات میں سے باغی بنا نواز شریف ہے۔ جی ہاں نواز شریف۔ ضیا کا بھوت سوچے گا جو میں نے بویا وہ کون کاٹ رہا ہے؟ اور اسی طرح بھٹو کا بھوت آجائے تو اس کی پارٹی میں ان چہروں سے ملاقات ہو جو اسکے فرشتوں نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔ یہ بھی نہیں سوچا ہوگا کہ اسکے دوست نما دشمن بننے والے کے خانوادہ اسکی پارٹی پر ہر سفید و سیاہ کا مالک ہے۔ شاید اس دفعہ بھٹو کی آنکھیں دھوکہ نہ کھائیں جس طرح زندہ بھٹو نے ضیا الحق کےظاہر پر کھائی تھیں۔ مردہ بھٹو زندہ بھٹو سے خطرناک نہ بن سکا۔ بلکہ دوستوں اور دشمنوں کیلے زندہ بھٹو ہی خطرناک تھا۔ میکاولی اور بسمارک کی بیچ کی کوئی چیز کہا گیا تھا اسے۔ بھٹو بھی میکاولی تو ضیا بھی میکاولی۔ میکاولی کو میکاولی نے ماردیا۔ لیکن مرنے والا میکاولی موت پاکر منصور بن گیا کئی لوگوں کیلئے۔
تو پس عزیزو !زندہ بھٹو اس زندہ ضیاالحق سے دھوکہ کھا گیا۔ وہ جو اسکے بیس قدم پیچھے چلا کرتا۔ جسے بھٹو بقول اس کے سوانح نگاروں کے اپنی نجی محفلوں میں اسکی غیر حاضری میں اسے ’’مائی منکی جنرل‘‘ کہتا۔ جو اسی لیے ترقی پا گیا کہ نہ جہلم کا تھا نہ گجرانوالہ کا۔ جو جالندھر کا مہاجر تھا۔ بھٹو بھی آرائیں تو ضیا بھی آرائیں۔ بھٹو ضیا بھائی بھائی۔ یہ شاید دفاعی تجزیہ نگار ہی بتا سکتے ہیں کہ کتنے سینئر جنریلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان سے جونیئرجنرل کو ترقی دی ۔ جیسے نواز شریف نے مشرف کو ترقی دی۔ جب پی این اے کے ساتھ تنازعے کے دوران پی این اے کی طرف سے پشتون اور بلوچ لیڈروں کو رہا کرنے اور بلوچستان سازش کیس ٹربیونل توڑنے کا مطالبہ بھٹو ماننے لگے تو جنرل ضیا بغل میں لمبی فائلیں دابے آ دھمکا ۔ لیکن بھٹو کا دھڑن تختہ کرنے کے بعد وہی مطالبات مانتے ہوئے بلوچ پشتون لیڈروں کو رہا بھی کیا اور حیدرآباد ٹربیونل بھی توڑا۔ گرگٹ کا رنگ بدلنا بھٹو نہیں سمجھ پایا۔ فیصل مسجد کے احاطے میں انسان کے بہترین دوستوں کو اپنی آرام گاہ پر آرام کرتے ہوئے ضیا کے بھوت کو نہ جانے کیسے لگے۔ لیکن اسکی برسی جو کہ اب کوئی نہیں مناتا اگر اسکے پھر منانے کو دعوت نامہ جاری کیا جائے تو سوائے سید قائم علی شاہ اور ایک آدھ کے بھٹو کی پارٹی میں ایسا کوئی شاذو نادر ہی ہو جو ایک نہ دوسرے دور میں، یا ماضی قریب تک ضیا کی برسی میں شرکت کی اہلیت والی شرائط پر پورا نہ اترتا ہو۔ یعنی کہ ضیا کی باقیات سے واسطہ نہ رکھتا ہو۔
بھٹو کا بھوت سوچتا ہے اگر وہ آموں والی پیٹی انور رٹول کے بجائے سندھڑی آموں کی ہوتی تو سندھڑی کا کیا حشر ہوتا! بھٹو کا بھوت یہ دیکھ کر ضرور اداس ہوتا کہ سندھڑی کا حال وہ ہوا جو ضیا نہ کرسکا پر اسکی پارٹی والوں نے اسکے نام پر کیا۔ ضیا کا بھوت اس پر ضرور لڈیاں ڈالتا۔ ضیا کا بھوت لڈیاں ڈالتا ڈالتا خوشی سے مرجاتا۔ ضیا کا بھوت افسوس سے سوچتا کہ سندھڑی آموں کے آبادگار یا باغوں کے مالک محمد خان جونیجو کو نکال کر بھی آموں سے نہیں بچ پایا۔ سندھڑی نہ سہی انور رٹول ہی سہی۔ اس سے کیا فرق پڑا جب محمد خان جونیجو کو اسکے گائوں کے لوگوں نے فاتح ضیا الحق قرار دیا۔ ضیا کا بھوت کہتا بچ گیا اسکے پیر زور تھے یا وہ اتنا غیر پاپولر تھا۔ اگر پاپولر ہوتا ہو پھر مردہ وزیراعظم بن کر سی ون تھرٹی میں واپس گائوں آتا۔ سندھڑی دا سیوہن دا ۔ دما دم مست قلندر۔
’’ قلندر پت رکھجاں ‘‘ پر یہ سی ون تھرٹی بھی عجیب چیز ہے۔ بھٹو کا بھوت سوچتا۔ ضیا کا بھوت خود سے کہتا یہ کیا عجب ماجرا ہے؟ ’’رہا کرو رہا کرو گمشدہ رہا کرو‘‘ کبھی گمشدہ بھی گرفتار ہوئے ہیں۔ کیا وہ بھی بھوت ہیں۔ یا انکو غائب کرنے والے غائباتیں ہیں۔ ضیا کا بھوت کہتا لیکن یہ تو میری باقیات نہیں تھی۔ لوگوں کو گم کرنا۔ پھانسی کوڑے دس دس سال کہاں گیا وہ فارمولا؟
بھٹو کا بھوت بحث کرتا ۔ ہاں لوگ غائب ہوتے ہیں۔ میری اپنی حکومت میں لوگ غائب ہوئے تھے۔ ’’اشوک کمار اور اسد اللہ مینگل کے بھوت اب تک میرا پیچھا کرتے ہیں۔ ‘‘ضیا کا بھوت پوچھتا ہے۔
’’ اب بولو بچو آخری قہقہہ کس نے لگایا؟‘‘ وہ کام جو میں نہیں کرسکا وہ تمہاری پارٹی نے کر دکھایا؟ راجر راجر بلیک ہارس از ڈیڈ۔ اب تم کیوں مرے ہوئے گھوڑے کو کوڑے مارتے ہو جنرل؟ ہاہاہا۔ اب تمہاری پارٹی پر بھوتوں کا قبضہ ہے۔ جن چھوڑے بھوت چھوڑے بھٹو نہ چھوڑے۔ تم نے اندھی لڑکی کو کوڑے مارے جوپانچ لاکھ لوگوں نے دیکھے اسٹیڈیم میں۔ تم نے میری بیگم کو لہو لہان کیا۔ تم نے میرے بیٹے کو مارا۔ لیکن وہ کام جو میں نہیں کرسکا پانچ جولائی کی شب، وہ کام تمام تمہارے خاندان کا پارٹی کا کس نے کیا مسٹر بھٹو۔ اب تمہاری پارٹی پر بھوتوں اور بھوتنیوں کا ڈیرہ ہے۔
سونی سونی دیواروں میں سہمے سہمے رہتے ہیں
اس گھر میں آسیب بسا ہے عامل کامل کہتے ہیں
اب بتائو ضیا بڑا کہ زرداری مسٹر بھٹو۔ کون زرداری؟ بھٹو کا بھوت پوچھتا۔ فنش اٹ۔ چیتے اور لومڑ کی کہانی ختم کرو اب۔ دو بھوتوں کی لڑائی۔ بغیر ہار جیت کے فیصلے کے ڈرا ہوگئی !
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین