• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب جبکہ انتخابات میں چند دن ہی باقی رہے گئے ہیں اور روزانہ ہی کوئی نہ کوئی ایسی خبر سننے کو مل رہی جس سے انتخابی عمل زیادہ دلچسپ اور سنسنی خیز ہوتا جارہا ہے اور عوام اپنے اپنے حلقوں میں امیدواروں کی جو دُرگت بنارہے ہیں اُس سے امیدواروں خصوصاً گزشتہ الیکشن میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو انتہائی خفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ مسلم لیگ نواز کو تقریباً مکمل طور پر ہی روندا جاچکا ہے اور اس پر پہلے ہی بہت زیادہ لکھا جاچکا ہے اس لئے زیادہ اچھا ہو کہ اب اُس سے آگے کی بات کی جائے کہ ہوگا کیا اور کیسے۔ عمران خان جن کو اب تقریباً سو فیصد یقین ہوچلا ہے کہ وہ ملک کے اگلے وزیر اعظم ہیں اسی لیے اُن کی زبان سے وہ تلخی بھی ختم ہوچکی ہے جو کہ وزیر اعظم بننے کے لیے انھوں نے اختیار کی ہوئی تھی وہ تلخ رویہ بھی تقریباً ختم ہوچکا ہے جس کا ہمیشہ اُن کے ارد گرد لوگ شکار رہتے تھے وزیر اعظم بننے کا حلف لینے سے قبل وہ مکمل طور پر عاجزی اور انکساری کا پیکر بن کر رہنا چاہتے ہیں تاکہ خُد ا کو انکی کوئی بات بُری نہ لگ جائے اسی لیے آج کل زیادہ تر اولیاکرام کے مزاروں پر سجدہ ریز نظر آتے ہیں اور سب سے خوش و خرم انداز میں گفتگو کرتے ہیں ۔ عمران خان کو یہ یقین خدا کے جن بُرگزیدہ بندوں کی چوکھٹ پر سجدے کرکے ملا اُن کی یقیناً حیثیت فرشتوں جیسی ہی ہے اور ایک اسلامی جمہوری معاشرے کا ایمان ہے کہ فرشتے کبھی نہ غلط کہتے ہیں اور نہ کرتے ہیں کیونکہ اُن کے ہر عمل کے پیچھے اُس کی مرضی ہوتی ہے جس کی مرضی کے آگے کسی کی مرضی نہیں چل سکتی کیونکہ اُس ذات واحد کا ہر چیز پر اختیار ہے تاریخ گواہ ہے کہ جس جس نے اُس کی مرضی کے آگے اپنی مرضی چلانے کی کوشش کی وہ ایسی سزا کا حقدار ٹھہرا کہ پھر کبھی سر نہ اٹھا سکا۔ نواز شریف کو سزا ہوگئی فواد حسن فواد گرفتار ہوگئے شہباز شریف روزانہ نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں دانیال عزیز نااہل ہوگئے طلال چوہدری پر تلوار لٹک رہی ہے قمر السلام جیل میں ہیں اور نہ جانے کتنےدیکر لیگی لیڈر نیب اور سپریم کورٹ کے چکر کاٹ رہے ہیں ان سب باتوں کے باوجود بھی اگر اب آپ نہیں سمجھ پارہے کہ ہو کیا رہا ہے تو کب سمجھیں گے۔ عمران خان گوکہ وزیراعظم بننے کی پوری تیاری کرچکے ہیں مگر ایک فرد ایسا بھی جس نے مکمل طور پر ذہن بنایا ہوا ہے کہ وہ عمران کو کسی صورت وزیراعظم نہیں بننے دےگا اور وہ فرد جو کہتا ہے وہ کرتا ضرور ہے چاہے جس انداز سے بھی کرے۔ اُس فرد کا نام ہے آصف علی زرداری پاکستان کی سیاست میں ایک انتہائی ذہین ترین انسان۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں اپنے انتہائی قریبی دوستوں کے ساتھ گفتگو میں آصف زرداری نے پاکستان کے ایک معروف صحافی کو کہا کہ اگر میں عمران کو وزیراعظم بننے دوں تو اس کا مطلب ہے میں اپنی سیاسی قبر خود کھود رہا ہوں اور میری مرضی کے بغیر عمران جتنا زور لگالے وزیراعظم نہیں بن سکتا کیونکہ وہ کبھی بھی سادہ اکثریت نہیں لے گا اور جس نے بھی حکومت بنانی ہے اُس کو پی پی کی حمایت چاہیے ہوگی۔ آصف زرداری نے کہا کہ میں نے صاف الفاظ میں بتادیا ہے جو سلسلہ نواز شریف سے شروع ہوا ہے وہ نواز شریف پر ہی ختم ہوجانا چاہیے اگر اُس سلسلے کو دوسرے سیاست دانوں تک بڑھانے کی کوشش کی گئی تو پی پی پی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ نواز کی ہم آواز بن جائے۔ آصف زرداری نے کہا کہ نواز شریف کو تو اُس کے درباریوں نے یہاں تک پہنچادیا ہم نے تو آخر وقت تک اُن کی حکومت کا ساتھ دیا گوکہ ہمیں بدلے میں دھوکا ہی ملا مگر ہم پھر بھی ساتھ اس لیے کھڑے رہے کیونکہ ہمیں نظر آرہا تھا کہ کھیل کو کس رُخ پر ڈالا جارہا ہے ۔ آصف زرداری نے دوستوں سے گفتگو کرتے ہوئے ازراہ مذاق کہا کہ اگر نیازی صاحب کو ہی وزیر اعظم بننے دینا ہے تو پھر کیوں نہ باجوہ صاحب سے اقتدار سنبھالنے کی فرمائش نہ کردوں۔ آصف زرداری نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کا مطلب ہے کہ پی پی پی پاکستان کی سیاست سے اپنا بوریا بستر سمیٹ لے جو کہ میں کبھی نہیں ہونے دونگا میں بلاول کو 2023 میں اس ملک کا وزیراعظم بناؤں گا اور وقت ثابت کرے گا کہ میری یہ بات کتنی سچی ہے میں 2018 میں کسی بھی سنجرانی کے ساتھ کھڑا ہوجاؤں گامگر وہ بھی تب جب مجھے پنجاب میں ایک بڑا حصہ دیا جائے بصورت دیگر مجھے شہباز شریف کے ساتھ ہاتھ ملانے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا ہم پہلے بھی ملکر حکومت بناچکے ہیں دوبارہ کیوں نہیں بناسکتے۔ یہاں تک کہ آصف زرداری اس بات پر بھی تیار ہیں کہ اگر جیتنے کی صورت میں پرویز الٰہی یا شیخ رشید کو یہ عہدہ دیا جائے۔ آصف زرداری نے کہا کہ یہ پیرا شوٹرز ابھی اتنے طاقتور نہیں ہیں کہ پی پی اور نون کے اتحاد کے سامنے ڈٹ جائیں ہم پاکستان کی ایک بہت بڑی سیاسی طاقت ہیں چاہے حکومت میں ہوں یا اپوزیشن اور مجھے پتا ہے دوست مجھے اور شہباز کو ایک ساتھ اپوزیشن میں کبھی نہیں دیکھنا چاہیں گے مجھے یہ بھی پتا ہے کہ اگر میں نہ مانوں تو میرے خلاف کیسز بنانے کی تیاری کرلی گئی ہے اور نواز کے بعد اگلی باری میری لگانے کا پورا انتظام بھی ہے مگر یہ وقت ہی بتائے گا ہم کیا کرتے ہیں۔ آصف زرداری کو اس سلسلے میں ایک فوقیت یہ حاصل ہے کہ اُن کو ایک انتہائی ذہین میڈیا ٹیم کی خدمات حاصل ہیں جنہوں نےآصف زرداری کے صدر بننے کے بعد کمال مہارت سے اُن کے خلاف چلنے والی میڈیا مہم کو اُن کے حق میں موڑ دیا تھا اور آج تک آصف زرداری کو پاکستان کی سیاست میں ایک ذہین ترین سیاست دان کے طور پر زندہ رکھا ہے۔
آصف زرداری کی ان ساری باتوں کی اگر گہرائی میں جائیں تو یہ جاننے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ جتنا آسان عمران خان وزیراعظم بننا سمجھ رہے ہیں ابھی بھی اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی میں ووٹ فیصلہ کُن کردار ادا کریں گے اور آصف علی زرداری کسی صورت عمران کو وزیر اعظم نہیں دیکھنا چاہتے چاہے اس کے لیے انھیں کتنا ہی کڑوا گھونٹ پینا پڑے اور اپنے اس فیصلے سے انھوں نے مقتدر حلقوں کو آگاہ کردیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور حکم کریں میں حاضر ہوں ۔ نتیجتاً اسماعیل ڈاہری جنہیں آصف زرداری کا دست راست مانا جاتا ہے آصف زرداری کے گھر سے چند گز دور گھر سے گرفتار کرلیے گئے اور بقول آصف زرداری انھیں ایک پیغام دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں از خود نوٹس لے لیا اور ایف آئی اے سے مکمل رپورٹ طلب کرلی جس میں آصف زرداری کے قریبی لوگوں کا نام آرہا ہے ۔ مگر پھر بھی ان سب باتوں کے باوجود آصف زرداری کو پتا ہے کہ اگلی بننے والی حکومت میں اُن کا کردار انتہائی کلیدی ہوگا اور وہ ہر طرح کی بارگیننگ کی پوزیشن میں ہونگے جس کا عمران خان کو بھی بخوبی اندازہ ہے مگر وہ پھر بھی مسلسل دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ سادہ اکثریت حاصل کرلیں گے اور اگر نہ کرسکے تو اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دیں گے جو کہ بہت مضحکہ خیز لگتا ہے کیونکہ جنوبی پنجاب سے جتنے الیکٹبلز پی ٹی آئی میں شامل ہوئےہیں اُن سب کو تو آسرا ہی حکومت کا دیا گیا ہے بصورت دیگر وہ آزاد الیکشن لڑنا چاہتے تھے جب کہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے میں جنوبی پنجاب کے نتائج ہی سب سے بڑا کردار ادا کریں گے کیونکہ پی ٹی آئی وہاں سے پچاس سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی امید کررہی ہے ۔ اگر عمران خان سادہ اکثریت نہ لے سکے اور حکومت بنانے سے انکار کردیا تو جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر زیادہ تر جیتنے والے یا تو الگ دھڑا بنالیں گے اور وزیر اعظم بننے والے کی حمایت کرکے بڑی بڑی وزارتوں کے حقدار بن جائیں گے یا پھر استعفیٰ دیکر دوبارہ الیکشن لڑیں گے مگر کسی صورت اپوزیشن میں نہیں بیٹھیں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ سادہ اکثریت نہ لینے کی صورت میں عمران خان اپنی بات پر قائم رہتے ہیں یا پھر ایک اور یو ٹرن لیکر آزاد جیتنے والوں اورپی ایس پی، جی ڈی اے کے ساتھ حکومت بنالیتے ہیں ویسے پی ایس پی اور جی ڈی اے کو بھی جیتنے کے لیے عمران خان کی طرح کسی نہ کسی درگاہ پر سجدہ ضرور کرنا ہوگا کیونکہ بُرگزیدہ بندوں کی مدد بڑے بڑے معجزے دکھادیتی ہے ۔ اسی لیے کسی نے کہا تھا کہ جب ہو اللہ مہربان تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین