• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب تو نازک اندام احتساب بھی ترقی میں رکاوٹ بننے لگا۔ بھلا دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کے راستے میں کسی بھی رکاوٹ کو کوئی بھی ترقی نواز کیوں برداشت کرنے لگا۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید پُرانے ترقی پسند ہیں، بھلا وہ اِس نئی رکاوٹ کو کیوں برداشت کرتے؟ ترقی کی قوتوں کو حوصلہ ملا جب اُنھوں نے احتساب کو ترقی کی راہ میں حائل نہ ہونے دینے کا ببانگِ دہل اعلان کیا۔ اپنے ترقی نواز دوست سے یہ پوچھے بِنا نہیں رہا جا سکتا کہ وہ کونسی اور کس کیلئے ترقی کا واویلا کر رہے ہیں؟ اور پھر یہ کونسے والا احتساب یا احتسابی ادارہ ہے جو ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے کو ہے؟ پہلے ہی بیچاری ترقی کو دھرنے نے کئی ماہ تک یرغمال بنائے رکھا، اب کہاں سے یہ نگوڑی احتساب کی بلا آن ٹپکی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ شہباز شریف اور اُن کے ترقی پسند وزرا تلملاتے دکھائی دیتے ہیں۔ چین پاکستان راہداری کے خلاف عالمی سازش، نندی پور کی سازش، اورنج میٹرو ٹرین کے خلاف سول سوسائٹی کی سازش، LNG گیس کے قطر سے معاہدے پر تیل مافیا کی سازش، کامیاب یورو بونڈ کے خلاف عالمی مالیاتی سازش، کشکول توڑو اور قرض اُتارو عزمِ صمیم کے خلاف قرضہ فراہم کرنے والوں کی سازش اور اب جو سازش سامنے آئی ہے، لگتا ہے کہ وہ سازشوں کی بھی اماں ہے۔ اور وہ ہے اُس احتسابی ادارے اور اُس کے سربراہ قمر زمان چوہدری کی جانب سے جنہیں نہایت ہی شفاف اور دو طرفہ اتفاقِ رائے سے تشکیل اور تعینات کیا گیا تھا۔ اب مشکل یہ آن پڑی ہے کہ اِس ترقی دشمن ادارے کو آئینی تحفظ بھی حاصل ہے جو ترقی کی راہ میں ایک اور کانٹا بنا لگتا ہے۔
پہلے ترقی کو لیتے ہیں، جس پر ہمارے ترقی پسند دوست بہت بھنائے نظر آتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں ہمیں کئی طرح کی ترقی کے ماڈل نظر آتے ہیں اور ترقی کے سوال پر بڑے علمی مباحث بھی۔ پاکستان میں ترقی کا جو ماڈل چلا وہ ہارورڈ کے معاشی اسکول میں پاپانیک جیسے نامی گرامی معیشت دان نے تیار کیا تھا۔ اُس کے مطابق پہلے ارتکازِ دولت کو چند ہاتھوں میں سکیڑنا تھا اور پھر محروم عوام کو بھی چند ٹپکتی بوندیں دستیاب ہونی تھیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانے میں اِسی ترقی کے نمونے کو آزمایا گیا تھا۔ ذرائع پیداوار اور دولت چند خاندانوں کے نصیب میں تو آئی، لیکن ترقی کی بوندیں غریبوں کو بھوک و پیاس مٹانے کیلئے آج تک نصیب نہ ہوئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اِس ترقی کے نمونے کو سر کے بل تو کھڑا کر دیا اور غریبوں کو چند نوالے بھی نصیب ہوئے، مگر یہ عالمی سرمایہ داری کے ساتھ نہ لگا کھا سکا۔ جنرل ضیاء الحق نے پھر افغان جہاد کے ڈالروں کی مدد سے اُسی ماڈل کو بحال کیا جس کا سہرا ایوب خان کے سر تھا۔ بیرونی امداد/قرضوں اور باہر سے پاکستانی محنت کشوں کی کمائی کے سہارے پھر سے منڈی میں چند خاندانوں کی اجارہ داری کا سکہ جمایا گیا اور اُسی وعدے پر کہ ترقی کے ثمرات ٹپک ٹپک کر عوام کی چھدی ہوئی جھولیوں کو بھر دیں گے۔ ہوا یہ کہ اگر پہلے غریب کی جھولی میں سوراخ تھے تو اب جھولی ہی نہیں رہی جس میں ترقی کا کوئی ثمر آن پڑتا۔ سوویت یونین کے انہدام پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے عوامی و نجی شراکت داری کا راستہ اپنایا جس سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے امدادی رقم کے کچھ چھلکے عوام کے ہاتھ لگے۔
جس ترقی کے ماڈل پہ ہمارے عزیز دوست فریفتہ دکھائی دیتے ہیں، وہ اپنی مخصوص نوعیت کا ہے جس پر اتفاق اور دبئی کی چھاپ لگی ہے۔ ترقی کے اس ماڈل میں قوتِ محرکہ تو نجی شعبہ ہی ہے (جیسے اتفاق)، لیکن اِس کا تمام تر زور فزیکل بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر ہے (جو ہم دبئی میں دیکھتے ہیں)، خاص طور پر موٹرویز، میٹرو بس اور میٹرو ٹرین جیسے منصوبے جو آنکھوں کو ترقی کی جگمگاہٹ سے چندھیا دیں۔ ترقی کا یہ نمونہ مغرب میں کساد بازاری کے عروج پر سول ورکس کے ذریعے معیشت کے پہیے کو چلانے کا وقتی ہتھکنڈا تھا۔ لیکن اتفاق دبئی ماڈل کی اپنی خصوصیات ہیں جو ہوم میڈ ہیں۔ اِس ماڈل میں عوام کی کیا حیثیت ہے اُس کا اظہار ہم پی آئی اے کی ہڑتال کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کی صورت میں دیکھ چکے ہیں یا پھر ترقیاتی بجٹ میں آٹے میں نمک کے برابر تعلیم و صحت، عوام کیلئے خدمات، روزگار، پینے کے صاف پانی سے نکاسیٔ آب اور ماحول کی صفائی کیلئے مختص کی گئی رقوم۔ اس ماڈل کی آنکھ کا تارا اگر کوئی ہے تو وہ ہیں پراپرٹی ڈیلر/ تاجر اور ٹھیکہ دار جنہیں ایک لاکھ روپے کا ٹیکس دے کر پچیس کروڑ کے کالے دھن کو سفید کرنے کی سہولت سے نوازا گیا ہے۔ ترقی کی اولیتوں میں عوام ہیں نہ حقیقی پیداواری ترقی بلکہ دبئی کی طرز کے موٹرویز اور پُل۔ دبئی تو تیل کی دولت سے مالامال تھا، لیکن ہمارے پاس اُس ماڈل کو چلانے کیلئے ذرائع کہاں سے آئیں گے۔ جبکہ حقیقی معاشی نمو کمتر اور نہ قابلِ انحصار۔ شکر ہے کہ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی کے طفیل چین پاکستان معاشی راہداری کی دبئی لگ گئی۔ 22 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے جو گزشتہ دو برس میں کشکول کو دراز تر کرتے ہوئے حاصل کئے گئے۔ رہی سہی ضرورت نج کاری کے ذریعے پوری کرنے میں بیرونی سرمائے کی دلچسپی نہ سہی، ایسے باکمال لوگوں کی کیا کمی جو مٹی سے سونا بنانے کے ہنر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ترقی کے اِس ماڈل میں وہ 40 فیصد بچے شامل نہیں جن کی جسمانی و ذہنی نشوونما رُکی ہوئی ہے یا پھر پنجاب کے وہ 130 لاکھ بچے جن کے نصیب میں اسکول جانا نہیں، در در کی ٹھوکریں کھانا ہے۔
ترقی کے اس ماڈل کا اگلے انتخابات سے پہلے نمائش کیلئے تیار کردہ منصوبہ ہے جسے اورنج لائن میٹرو ٹرین کا نام دیا گیا ہے۔ اِس منصوبے کے راستے میں جو بھی آئے گا، حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا جائے گا۔ خواہ کچی بستیاں ہوں یا بازار، تاریخی اثاثے ہوں یا شہر کی ثقافتی شناخت، ماحولیات ہو یا پھر اِس ترقی کے ہاتھوں اُجاڑے گئے ہزاروں گھرانے، عدالتی حکمِ امتناع ہو یا پھر قواعد و ضوابط کی پاسداری۔ تیز ترقی میں حائل شفافیت، احتساب اور کفایت چہ معنی دارد؟ منصوبہ کیسے اور کیوں منظور ہوا، اسے چھوڑئیے۔ منصوبہ جولائی میں شروع ہوا اور NOC نومبر میں خلافِ قاعدہ حاصل کئے گئے۔ پہلے چینی تحفہ، پھر چین پاکستان معاشی راہداری اور اب قرض۔ دُنیا بھر میں میٹرو ٹرین زمین دوز جبکہ یہ شہر کے اوپر مسلط۔ منطق سیاسی ہے: پچھلے انتخابات میں میٹرو بس نے اور اگلے انتخابات میں میٹرو ٹرین ووٹ ڈلوائے گی۔ لوگ آنکھیں پھاڑے خوبصورت میٹرو ٹرین کو شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سرعت رفتاری سے بھاگتا دیکھیں گے اور روشن پاکستان کے خواب کو حقیقت کا روپ دھارتے۔ ترقی کے اس ماڈل کو تو ہم پرانا جانتے ہیں جو آنکھوں کو خیرہ تو کرے گا، روشن نہیں!
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ احتساب بیورو (NAB) بیچ میں کہاں سے کود پڑا؟ وزیراعظم کو اتنا غصے میں ہم نے کہاں دیکھا تھا۔ اِس اتفاق ماڈل کی یہ خوبی ہے کہ مالک کے حکم پر سب بلا چون و چرا ایک صف میں کھڑے ہو جائیں اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو، اس لئے بھی کہ جمہور نے اختیار دیا ہے۔ پھر یہ ریگولیٹری اتھارٹیز، قواعد و ضوابط، شفافیت اور احتساب کہاں سے آن ٹپکے ترقی کے سفر کے آگے روڑے اٹکانے۔ کرپشن، کرپشن کا شور اور احتساب احتساب کے واویلے نے مجبور کیا کہ حکمران محفوظ احتساب کا بندوبست کریں۔ سب اچھا تب تک تھا جب تک یہ نچلا بیٹھا رہا جیسی کہ دو طرفہ منشا تھی۔ ترقی کے علمبردار بڑے خوش رہے جب تک احتساب کی بلا سندھ پر کڑکتی رہی۔ جونہی اس نے وفاق اور پاکستان کے دل پنجاب کی جانب رُخ کیا تو اپنی ہی بلی کی میائوں میائوں کو کون برداشت کرتا۔ بھلا ترقی کا پہیہ کیسے چلے گا جب ترقی کے بڑے کرم فرمائوں یا پھر ترقی کے من پسند ماہرین سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔ جس بلا کو سندھ میں نازل کیا تھا، اُس کے منہ کو احتساب کا خون لگ چکا ہے، اب جب یہ ترقی والوں پہ پلٹی ہے تو ترقی والے اسے کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔
اپنے ترقی پسند دوست کی خدمت میں عرض ہے کہ حد سے بڑھی ہوئی صوابدید اور عدم احتساب ہی کرپشن کا ماخذ ہے۔ دُنیا میں 24 کم ترین کرپٹ ممالک وہ ہیں جہاں سب سے زیادہ ترقی ہے۔ جو کرپشن کے حوالے سے صاف ترین اوّل ملک (ڈنمارک) ہے وہاں تو کوئی احتسابی ادارہ بھی نہیں، لیکن صوابدیدی اختیارات بھی نہیں کہ جو چاہے کرتے رہو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اور جو دُنیا کے 24 پسماندہ ملک ہیں وہ کرپشن میں بھی سب سے آگے ہیں جیسے مملکتِ خداداد۔ جہاں قومی دولت وہاں خرچ کی جاتی ہے جہاں مواقع زیادہ ہیں نہ کہ عوام کی فلاح۔ جمہوریت، شفافیت اور احتساب باہم جڑے ہیں۔ جمہوری نظام اور جمہوری سیاستدانوں کے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کرپشن کے داغ کیسے دھوئیں۔ اور بجائے اس کے کہ سیاستدان ایک کڑے احتساب کیلئے اکٹھے ہوں، اگر وہ اس بات پر متحد ہوئے کہ کس طرح موجودہ واجبی احتساب کو بھی غیرمؤثر کیا جائے تو وہ جمہوریت کے محافظ نہیں گورکن ثابت ہوں گے اور ہماری تاریخ اس تلخ حقیقت اور خوفناک حربے کے جمہوریت کی چھٹی کروانے کے بار بار استعمال کے نظارے کر چکی ہے۔ کیا ابھی ایسے ہی ایک اور نظارے کا حوصلہ باقی ہے؟ یہ دن پھر بھی دیکھنا تھا کہ احتساب بھی ترقی کی راہ میں حائل؟ ترقی ہو مگر ایسی نہیں۔
تازہ ترین