• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن سر پر آ چکے ہیں ہر جماعت کا امیدوار پانی کی طرح پیسہ بہا رہا ہے بینرز اور فلیکس بنانے والوں کا کاروبار عروج پر ہے۔آج کل تو کسی پریس والے کو کہو کہ شادی کارڈ /وزٹنگ کارڈ چھا پ دو تو وہ الیکشن کے بعد کی تاریخ دے رہا ہے بلکہ بعض تو یہ کہہ رہے ہیں کہ صاحب الیکشن کے بعد جو امیدوار جیت جائیں گے انہوں نے اپنی جیت کی خوشی اور عوام کے شکریہ کے بڑے بڑے بینرز اور فلیکس بنوانے ہیں لہٰذا ڈیڑھ دو ماہ انتظار کریں۔ایک پریس والاملا تو اس نے کہا صاحب ہم تودعا کرتے ہیں کہ ہر روز الیکشن ہوں اتنا زندگی بھر نہیں کمایا جتنا ہم نے صرف ان چند روز میں کما لیا ہے۔
ایک طرف الیکشن کمیشن نے رقم مقرر کر رکھی ہے کہ اس سے زیادہ آپ خرچ نہیں کر سکتے تو دوسری طرف جب ہر امیدوار کے بینرز اور پارٹی فلیکس دیکھتے ہیں تو سر چکرانے لگتا ہے کہ ہر ایک لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوںروپے تک خرچ کر رہا ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ،کاش یہی رقم غریب اور بیمار لوگوں کے دوا دارو پر خرچ ہو پاتی ۔
کھانے چل رہے ہیں، گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں کرایہ پر حاصل کی جا رہی ہیں۔صرف اس ایک ماہ کی الیکشن کمپین میں اربوں روپے خرچ ہو جائیں گےمگر کوئی کسی غریب کا علاج کرانے کو تیار نہیں ۔کوئی کسی غریب کی بچی کی شادی کرانے کے لئے ایسی مہم نہیں چلائے گا۔اس ملک میں لاکھوں بچیاں صرف اس لئے گھروں میں بیٹھی ہیں کہ ان کے والدین کے پاس شادی کے اخراجات اٹھانے کے لئے رقم نہیں۔ایک طرف بھوک اور ننگ کازور ہے تو دوسری طرف امیدواروں کے بڑے بڑے بینرز اور پوسٹر لگ رہے ہیں ہر کوئی جھوٹ پہ جھوٹ بول رہا ہے ۔ہر کوئی بہتان پہ بہتان لگا رہا ہے روزانہ کئی بچے تھر میں غذائی کمی سے مر رہے ہیں ۔بلاول بھٹو صرف بیان بازی پر لگا ہوا ہے غریبوں کے ووٹ سے اقتدار میں آکر ہر کوئی موجیں مارتا ہے۔یہ تو اب خدا جانتا ہے کہ کون گنہگار ہے اور کون بے قصور، البتہ ایک بات تو یہ طے شدہ ہے کہ سیاست نے میاں برادران، ان کے خاندان اور اسحاق ڈار کو بہت کچھ دیا ہے بلکہ سبھی کچھ دیا ہے ۔
ایک سابق وفاقی وزیر یہ فرماتے ہیں کہ میں گلی کا رہنے والا ہوں مجھ سے بہتر گلی کی زندگی کون جانتا ہے موصوف خود ڈیفنس میں رہتے ہیں اور باتیں گلی کی کرتے ہیں اگر گلیوں سے اتنا پیار ہے تو اپنے بچوں کو وہاں رکھیں۔ قرض اتارو ملک سنوارو جیسی دلکش اسکیمیں بھی ن لیگ کے رہنمائوں کے ذہن کی پیداوار تھیں آج تک عوام کو پتہ نہیں چل سکا کہ وہ اربوں ڈالرز کہاں گئے لوگوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر اربوں ڈالرز اس دور میں بڑے میاں صاحب کے سپرد کر دیئے تھے شاید اس ملک کو قرض سے نجات مل جائے الٹا اس ملک پر کئی گنا قرضہ چڑھ گیا۔عزیز قارئین آپ کو یاد ہو گا کہ ایک زمانے میں حکومت نے شرح خواندگی بڑھانے کے لئے تعلیمی ٹیکس لگایا ، جس سے 49ارب روپے اکٹھے ہوئے تھے وہ 49ارب کہاںگئے قوم کو بالکل پتہ نہیں ۔
موٹر وے پر خرچ ہونے والی رقم کا آڈٹ آج تک نہیں ہوا ہماری قوم کی یہ بدقسمتی ہے کہ دوچار سال بعد لوگ اپنے لیڈروں کی ہر بری حرکت کو بھول جاتے ہیں لیکن دوستو ان کی ہر بری اور اچھی حرکت تاریخ میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جاتی ہے ۔تاریخ داںکبھی کسی کو معاف نہیں کرتا یہ علیحدہ بات ہے کہ مغلوں نے اپنے تاریخ دانوں سے کئی جگہوں پر تاریخ اپنی مرضی کی لکھوائی تھی مگر ہوا پھر بھی کچھ نہیں۔آج بڑے میاں صاحب اور چھوٹے میاں صاحب بار بار عوام کے دکھوں کی بات کرتے ہیں مریم نواز یہ کہتی ہیںکہ پاکستانی عوام نواز شریف کی طرف دیکھ رہے ہیں وہ ان کی مدد کو جا رہے ہیں بڑے میاں صاحب آپ نےاتنے برس اقتدار میں رہنے کے باوجود کوئی ایسا اسپتال نہیں بنایا جہاں پر بیگم کلثوم کا علاج ہوسکتا۔ یہ ہے ترقی جس کے دعوے کئے جا تے ہیں۔ محترمہ مریم نواز آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس غریب قوم کی کتنی مائیں ،بیٹیاں اور بیٹے علاج کے اخراجات برداشت نہ کرنے پر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ آپ یہاں سے اندازہ کرلیں کہ تمام سابق حکمران اپنا علاج غیرممالک سے کراتے ہیں۔ارے اللہ کے بندو پاکستانی قوم کو کس نے جکڑا ہوا ہے یا وہ قید میں ہے جس کے لئے وہ دہائی دے رہی ہے کہ نواز شریف آکر انہیں چھڑائیں ۔ پاکستانی قوم کو تم لوگوں نے غیر ملکی قرضوں میں جکڑ دیا ہے ۔ پاکستانی قوم کو آخر تم لوگوں نے کیا دیا ہے ؟ہمارے سامنے بڑے میاں صاحب کا 2013ءکاایک ٹی وی کلپ پڑا ہوا ہے جس میں وہ قوم کو سبز باغ دکھاتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ اگر میں الیکشن جیت گیا تو میں اور شہباز شریف ایوان اقتدار میں نہیں بیٹھیں گے نہ اسلام آباد بیٹھیں گے بلکہ ہم دونوں عوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلیں گے آپ ہمیں اپنی گلیوں اور سڑکوں پر پائیں گے بے شمار ایسی تقاریر ہیں جس میں انہوں نے عوام کے لئے ایسی نیک خواہشات کا عزم کیا تھا۔ادھر بڑے میاں وزیر اعظم بنے اُدھر ان کے غیر ملکی دورے شروع ہوگئے ۔ادھر شہباز شریف وزیراعلیٰ بنے تو ان کے چین، ترکی اور دیگر ممالک کے دورے شروع ہوگئے ۔ اب شہباز شریف کے دفاتر کی بھی سن لیں۔
لاہور سیکرٹریٹ میں پنجاب کے کئی وزرا اعلیٰ بیٹھتے رہے کچھ وزرا اعلیٰ سیون کلب روڈ پربیٹھتے رہے سیون کلب بڑی مشہور جگہ رہی ہے بلکہ بعض وزرا اعلیٰ نے یہاں پر اوپر کی منزل پر رہائش اور نیچے دفاتر بھی رکھے تھے چھوٹے میاں صاحب نے کئی دفاتر بنا لئے ماڈل ٹائون اور مال روڈ وغیرہ حالانکہ 8کلب پر سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے کروڑوں روپے لگا کر بڑی خوبصورت عمارت بنوائی تھی مگر شہباز شریف آج تک اس عمارت میں نہیں بیٹھے حالانکہ نگران وزیر اعلیٰ پروفیسر حسن عسکری رضوی اس عمارت میں بیٹھتے ہیں ۔ ایک غریب ملک میں حکمران ایک ایک پیسہ بچاتے ہیں تاکہ ان کا ملک ترقی کر سکے یہاں پر حکمران قرضے لیکر عیاشی کرتے ہیں۔حکمرانوں کے بچے باہر کے ممالک میں کاروبار کرتے ہیں اسحاق ڈار ملک سے فرار ہو گئے کہ سخت بیمار ہوں اور لندن کی سڑکوںپرچاق و چوبندپھرتے ہیں۔
بڑے میاں صاحب یہ فرماتے ہیں کہ میں عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے آ رہا ہوں ارے اللہ کے بندو کون سے عوام اور کس کے حقوق، یہ سب جانتے ہیں آج آپ پر برا وقت آیا ہے تو آپ عوام کا سہارا لے رہے ہیں؎
کبھی سوچا ہے تم کو لوگ اچھا کیوں نہیں کہتے
کبھی تنہائی میں اپنی خطا کو یاد کر لینا
اس کڑے وقت میں بڑےمیاں صاحب کے دونوں بیٹوں اور خاندان کے دیگر افراد کو بھی ان کے ساتھ ہونا چاہئے تھا جو سب کے سب لندن بیٹھے ہوئے ہیں اور جو دعوے کرتے تھے کہ لاکھوںلوگ لے کر ایئرپورٹ پہنچ جائیں گے، نظر نہیں آئے حتیٰ کہ چھوٹے میاں صاحب، طلال چوہدری، خواجہ سعد رفیق بھی نظر نہیںآئے۔ لوگ سوال اٹھاتے ہیں، خود تو میاںکے بیٹے آئے نہیں اور میاں صاحب پاکستان کے عوام سے مدد چاہتے ہیں دونوں بیٹے کبھی ووٹ ڈالنے بھی نہیں آئے وہ وہاں پر لاکھوں ڈالرز کا روزانہ کا کاروبار کر رہے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا بڑے میاں صاحب غریبوں کی جنگ لڑ رہے ہیں ؟ووٹ کو عزت دو اور ووٹر بے چارہ سڑکوں پر دھکے کھاتا پھر رہا ہے دوسری جانب آصف زرداری کا احتساب روک دیا گیا یہ بھی کیا تماشا ہے ۔؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین