• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب تو تقریباً ہم اس بات کے قائل ہوچکے ہیں کہ ہمارا کاروبار ِ سیاست جھوٹ اور منافقت سے چلتا ہے۔ ملک سے دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کرنے والوں کو ایک طرف تو پشاور اور مستونگ کے سانحات پر غور کرناچاہئے اور دوسری طرف ہر روز پانچ چھ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کا نظارہ کرنے کے بعد اپنے بیانات واپس لے لینے چاہئیں۔ افسوس کہ بیانات واپس لینے اور حقائق کا سامنا کرنے کی ہمارے ہاں کوئی روایت ہی موجودنہیں۔ ہم ڈٹ کر جھوٹ بولتے ہیں اور پھر اس پر قائم بھی نہیں رہتے۔ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد مستونگ میں جس طرح سنگدلی سے بیگناہ انسانوں کا خون بہایا گیا،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گردی ختم نہیں ہوئی نہ ہی دہشت گردوں کی کمر ٹوٹی ہے۔ دہشت گرد محض مناسب وقت اور موقع کی تلاش میں گھات لگائے بیٹھے تھے۔ انتخابات نے ان کو وہ موقع فراہم کردیا ہے۔ انتخابات کی گرما گرمی میں اجتماع، کارنر میٹنگ اور جلسے جلوس انتخابی سرگرمیوں کا لازمی حصہ ہیں اور لوگوں کایہ اجتماع دہشت گردوں کو سنہری موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کرسکیں۔ چنانچہ اب تک کوئی نصف درجن واقعات دہشت گردی کے ہوچکے ہیں جن میں سب سے زیادہ خطرناک اور جان لیوا مستونگ کا سانحہ تھا جوپوری قوم کو لہولہان کرگیا۔ کیا ہماری انتظامیہ تساہل اور کاہلی کا شکارہوگئی ہے یا ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنی صلاحیت سے محروم ہوگئی ہیں؟ کیا خیبرپختونخوا کے واقعات انتظامیہ اور خفیہ ایجنسیوں کو جگانے اور الرٹ کرنے کے لئے کافی نہیں تھے کہ مستونگ جیسا سانحہ ہو گیا؟ یا پھر ہماری انتظامی مشینری اور انٹیلی جنس ایجنسیاں انتخابی عمل میں اس قدر مصروف ہوگئی ہیں کہ انہوں نے دہشت گردی سے نگاہیں دوسری طرف موڑ لی ہیں۔ یہ غفلت دہشت گردوں کو سنہری موقع فراہم کرتی ہے جس سے وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر صورتحال یکسر نہ بدلی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف بھرپور اقدامات نہ کئےتو یاد رکھیں کہ دہشت گرد کھل کھیلیں گے جس کے انتخابات پرگہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس خوف کا پہلا نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ ووٹ ڈالنے نہیں آئیں گے اور دوسرا یہ کہ امیدوار انتخابی سرگرمیاں محدود کرنے پر مجبور ہوں گے، جس سے انتخابات کا وہ ماحول نہیں بن سکے گا جو انتخابی عمل میں شریک ہونے کا پیش خیمہ ہوتاہے۔ نگران حکومتوں کو چاہئے کہ وہ سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کے بجائے دہشت گردی کے ٹھکانے ختم کرنے اور اندر چھپے ہوئے خودکش حملہ آوروں کی تلاش پر بھرپور توجہ دے۔ یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ خیبرپختوا اور بلوچستان کے بعد پنجاب اور سندھ کی باری بھی آسکتی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ دہشت گرد ہمارے شہروں میں پناہ لئے بیٹھے ہیں اور موزوں وقت کے منتظر ہیں۔ پنجاب کی نگران حکومت کے لئے یہ ایک چیلنج ہے کہ وہ سیاسی کارکنوں کے خلاف کارروائیوں کے بجائے دہشت گردوں کا کھوج لگانے پر ساری توجہ مرکوز کرے کیونکہ پنجاب کی نگران حکومت سب سے زیادہ پارٹی پالیٹکس (Party Politics) میں الجھی دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں دہشت گردی کی جانب عدم توجہی لازمی امر ہے اوریہی وہ موقع ہوتا ہے جس کے انتظار میں دہشت گرد چھپے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے چند مزید خوفناک واقعات انتخابات کے التوا کا جواز پیدا کردیں گے جو کسی طرح بھی قومی مفاد میں نہیں۔
پنجاب کی نگران حکومت کی ’’نگرانی‘‘ پر نظر ڈالیں تو بہت سے تاریخی واقعات یاد آتے ہیںجن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقتدار کی اپنی مجبوریاں اور اپنا جبرہوتا ہے جو حکمران کاامتحان بھی ہوتا ہے اور اسے ایکسپوز بھی کردیتا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ خان عبدالغفار خان نے زندگی کا ایک حصہ جیل یا نظربندی میں گزارا۔ میںتاریخ کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے اکثر سوچتا تھا کہ جب ون یونٹ کے بعد ڈاکٹرخان صاحب مغربی پاکستان کے وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے اپنے بھائی غفار خان کے نظربندی کے احکامات کیوں جاری کئے؟ وہ اپنے بھائی کو قید و بند کی صعوبتوں سے کیوںبچا نہ سکے؟ جواب یہی ہے کہ اقتدار کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جنہیں ہم اقتدار کا جبر بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کی ایک حالیہ مثال ہمارے دوست ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی کارکردگی ہے۔ ڈاکٹر صاحب گزشتہ چار دہائیوں سے اپنے طلبہ کو انسانی آزادیوں، بنیادی حقوق اور جمہوری اقدار پر لیکچر دے رہےہیں۔ جب سے میڈیا آزاد ہوا ہے اور بہت سے چینلز جلوہ افروز ہوئے ہیں، ڈاکٹر صاحب بحیثیت تجزیہ نگار انسانی آزادیوں اور جمہوری اقدار کے مبلغ بن کر ابھرے ہیں۔ ان کے بے شمار مضامین اور کتابیں جمہوری آزادیوں کی علمبردار ہیں لیکن چند روزہ اقتدار نے ان کے بھرم کا راز فاش کردیا ہے۔ دراصل قول اورفعل کی مطابقت انسانی عظمت کی دلیل ہوتی ہے اور قول و فعل کا تضاد افسوسناک کہانی بیان کرتا ہے۔ میاں نواز شریف کی آمد پرانہوں نے وہی حکمت عملی اپنائی اور وہی ہتھکنڈے استعمال کئے جو انگریزو ں کے دور ِ حکومت سے لے کر ہماری سیاسی و غیرسیاسی حکومتوں تک مروج رہے ہیں۔ ان ہتھکنڈوں سے آمریت اور آمرانہ سوچ کی بدبو آتی ہے اوریہ حکمت ِ عملی ایک دانشور حکومت کو بالکل زیب نہیں دیتی۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جب کسی سچے دانشور کو اپنے عقائد اور اپنے اقوال کے خلاف اقدامات کرنا پڑے تو انہوں نے انکارکردیا اور اپنے اصولوں پر ڈٹےرہے۔ جمہوری آزادیوں کے علمبردار دانشور نگران وزیراعلیٰ کے دورِ حکومت میں دیہات، قصبوں سے لے کرشہروں تک مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا، لاہور کے راستوںکو سیل کردیا گیا، مارکیٹوں میں دکانیں بند کروانے کیلئے پولیس استعمال کی گئی،
یونیورسٹیاں بند کردی گئیں اور ایئرپورٹ کی طرف جانے والے راستوں پر کنٹینرز کھڑے کردیئے گئے اورمیاں شہباز شریف اور جاوید ہاشمی جیسے لیڈروں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کردیئے گئے۔ میاں نواز شریف خود گرفتاری دینے آرہے تھے اس لئے مزاحمت کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔ انہیں ایئرپورٹ پر ہی ایک جہاز سے اتار کر دوسرے جہاز میںبٹھا کر اڈیالہ جیل لے جانا تھا۔ میاں شہباز شریف کے ارادوں بارے حکومت کو رپورٹیں مل چکی تھیں۔ رینجرزہوائی اڈے کی حفاظت پر مامور تھے اور انہوں نے ہوائی اڈے کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ اس صورت میں پورے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور عہدیداروں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا کیا جواز تھا اور راستوں، سڑکوں اور شاہراہوں پر خوف پھیلانے اور راستے سیل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ بہرحال مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ ہمارے دانشور دوست کو اپنے نظریات پرعمل کرنے کاایک موقع ملا لیکن وہ بھی پنجاب پولیس کے جھانسے میں آگئے اور انہوں نےبھی وہی طریقے اختیار کئے، جن پروہ ہمیشہ شدید تنقید کرتے رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اقتدار بڑی ظالم شے ہے یہ حکمران کو بے نقاب کر دیتاہے۔ اسی لئے اقتدار کو آزمائش کہتے ہیںاور اس آزمائش پر کم ہی لوگ پورا اترتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین