• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حقیقی زندگی خوبصورت نہ ہوتواداکاری میں بھی خوبصورتی نہیں آتی

حقیقی زندگی خوبصورت نہ ہوتواداکاری میں بھی خوبصورتی نہیں آتی

ماضی کےمعروف اسٹیج ،ٹیلی ویژن، فلم اور صدارتی ایوارڈیا فتہ اداکار منورسعید سے کچھ دلچسپ باتیں

انٹرویو: ستارہ جبیں بٹ

پاکستان فلم انڈسٹری نے قیام پاکستان کے بعد کافی ترقی کی اور کئی نامور فنکار پیدا کئےاور یہ بات بھی سچ ہے کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری اور ٹیلی ویژن کو تھیٹر اور ریڈیو نے نامور فنکار دیئے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ریڈیو اور تھیٹر نے اس حوالے سے ایک نرسری کا کردار ادا کیا ہے۔ بہت سے فنکاروں نے اپنے کیریئر کا آغاز تھیٹر سے کیا اور ایک زمانہ تھا جب تھیٹر سیکھنے والے بے شمار لوگ ہوتے تھے۔ تھیٹر نے جو نامور فنکار پاکستان فلم و ڈرامہ انڈسٹری کو دیئے ان میں ایک نمایاں نام منور سعید کا بھی ہے۔ پاکستان کے معروف فنکار منور سعید یکم جولائی 1941ء کو امروہہ میںپیدا ہوئے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے بی ایس سی کرنے کے بعد1960 میں پاکستان آگئے۔ پاکستان آنے کے بعد اسٹیج اور ریڈیو پر کام شروع کیا۔1967 میں کراچی میں ٹیلی وژن اسٹیشن قائم ہوا تو ٹی وی ڈراموں میں کام شروع کیا۔1970 میں لاہور سے فلم کی آفر ہوئی۔ لاہور منتقل ہونے کے بعد انھوں نے چاروں میڈیمز میں کام کیا جس میں فلم، ٹی وی، ریڈیو اور سٹیج شامل ہیں۔ وہ تقریباً پچاس برس تک لاہور میں مقیم رہے، جب فلم پر برا وقت آگیا اور پرائیویٹ پروڈکشنز شروع ہوئیں تو واپس کراچی آگئے۔ حکومت پاکستان نے انہیں14 اگست 2002ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ ہم نے ان کے کیریئر اور ذاتی زندگی کے حوالے سے کچھ دلچسپ باتیں کیں جو قارئین کی نذر ہیں۔

حقیقی زندگی خوبصورت نہ ہوتواداکاری میں بھی خوبصورتی نہیں آتی

جنگ:کیریئر کا آغاز کیسے ہوا؟ اپنے کیریئر سے مطمئن ہیں؟

منورسعید:جی بالکل میں اپنے کیریئر سے مطمئن ہوں۔ مجھے مستقل محبتیں اور عزتیں ملی ہیں۔ کیریئر کا آغاز تب ہوا جب میں علی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ 1959ء میں یونیورسٹی سے میں نے ڈرامہ کرنے کا آغاز کیا۔ اس وقت وہاں پر آل انڈیا انٹریونیورسٹی فیسٹیول ہوتا تھا۔ جس میں ہندوستان کی تمام یونیورسٹیاں حصہ لیتی تھیں۔ ہماری یونیورسٹی سے بھی تین ٹیمیں گئی تھیں۔ جن میں ایک گروپ سونگ تھا، ایک گروپ ڈانس اور ایک گروپ ڈرامہ تھا۔ میں ڈرامہ کی ٹیم میں تھا۔ میں نے وہاں ڈرامہ کیا۔ میرے اس پہلے اسٹیج ڈرامے کا نام ’’شاہ صاحب‘‘ تھا جس میں میراکردار’’شاہ صاحب‘‘ کا ہی تھا۔ اس ڈرامے پر مجھے سرٹیفکیٹ آف میرٹ دیا گیا۔

حقیقی زندگی خوبصورت نہ ہوتواداکاری میں بھی خوبصورتی نہیں آتی

ہمارے اس وقت کے یونیورسٹی وائس چانسلر کرنل بشیر حسین زیدی کی بیگم قدسیہ زیدی کا دہلی میں ایک تھیٹر تھا۔ انہوں نے ڈرامہ دیکھنے کے بعد مجھ سے پوچھا کہ آگے تمہارا کیا ارادہ ہے؟میں نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں تھیٹر کا ایکٹر بنوں لیکن میرے والد صاحب چاہتے ہیں کہ میں انجینئر بنوں۔ یہ سن کر انہوں نے کہا کہ تم امتحان دے کر میرے پاس تھیٹر میں آئو۔ میں 1959ءکے آخر میں ان کے تھیٹر میں چلا گیا اور میں نے وہاں ایک ڈرامہ کیا جو میرا پہلا پروفیشنل تھیٹر تھا۔ اس ڈرامہ کا نام ’’رامو کی ماسی‘‘ تھا۔ اسی دوران میں نے ممبئی میں اپنے چچا کمال امروہی، جنہوں نے پاکیزہ جیسی فلمیں بنائیں کو خط لکھا کہ میں فلم کے لئے کوشش کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے کہا کہ تمہارے ابا چاہتے ہیں کہ تم انجینئر بنو۔ مجھ سے وعدہ کرو کہ اگر تم فلم میں کامیاب نہ ہوئے تو پھر تم انجینئرنگ کروگے۔ میں نے ان سے وعدہ کرلیا یہ بات میرے والد مرحوم تک پہنچ گئی۔ وہ اس وقت امروحہ سادات میں تھے (جہاں کے ہم رہنے والے ہیں) انہوں نے فوراً ہمارے گھر، زمین اور باغات وغیرہ کا خاموشی سے سودا کرلیا اور سارا پیسہ کراچی بھجوا دیا اور مجھے ٹیلی گرام ملاکہ فوراً پہنچو۔ میں پہنچا تو مجھے پتہ چلا کہ پاکستان جارہے ہیں۔ اس طرح ہم پاکستان آگئے اور میں فلم کے لئے ممبئی نہیں جاسکا۔ یہاں پاکستان آکر میں نے 1961ء میں ایک ڈرامہ ’’دربار اکبری‘‘ کیا جس میں اکبر کا کردار ادا کیا۔ اس وقت ہمارے ریڈیو کے پروڈیوسر ذاکر حسین تھے۔ انہوں نے ڈرامہ دیکھنے کے بعد کہا کہ تم ریڈیو جوائن کیوں نہیں کرتے، تمہاری آواز اتنی اچھی ہے۔ وہاں سے میرا ریڈیو کا دور شروع ہوا۔ اس طرح پاکستان آتے ہی میں تھیٹر بھی کرنے لگ گیا اور ریڈیو بھی۔ اس کے علاوہ میں نے ایک فلور مل میں رات کی ملازمت کرلی جہاں میں نے ملر کے طور پر کام کیا۔ میری نائٹ شفٹ رات 11بجے سے صبح 7بجے تک تھی اور اس وقت میں مجھے 100روپے ماہانہ ملتے تھے جس کی اس وقت بہت قدر تھی۔

صبح کے وقت تھیٹر، ریڈیو اور رات میں فلورمل کی جاب کی وجہ سے میں گھر سے کٹ آف ہوگیا تھا۔ پھر ابا کی خواہش کی خاطر 1964ء میں، میں نے گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی میں بھی داخلہ لے لیا۔ میں نے وہاں سے انجینئرنگ کی اور سندھ ڈویژن میں ٹاپ کرلیا۔ جس کی وجہ سے مجھے کالج میں ہی لیکچرار کی جاب مل گئی۔ پھر 1967ء میں جب ٹیلی ویژن آیا تو اسے فنکاروں کی ضرورت تھی تو ریڈیو اور تھیٹر کے آرٹسٹس کو بلایا گیا اور پھر ہم نے ٹی وی پر بھی کام کرنا شروع کردیا۔ ٹی وی پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ میں پڑھاتا بھی رہا۔

حقیقی زندگی خوبصورت نہ ہوتواداکاری میں بھی خوبصورتی نہیں آتی

جنگ:ڈراموں سے فلموں کی طرف رخ کیسے کیا؟

منور سعید:ٹی وی پر جب ڈرامے کئے تو لوگوں نے بہت پسند کئے اور جب کامیابی املی تو ابا بھی بہت خوش ہوئے۔ پھر 1970ء میںمیرے ڈرامے لاہور میں فلم سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں نے دیکھ لئے۔ جنہوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے لاہور بلا لیا۔ میں اس وقت کراچی تھا۔ ابا سے اجازت لی اور لاہور چلا گیا اور وہاں جا کر میں نے فلموں میں کام شروع کردیا۔ کراچی میں گورنمنٹ جاب سے لیو(عارضی چھٹی) لی ہوئی تھی۔ جب فلم میں میرے قدم لاہور میں جمے تو کراچی میں جاب سے استعفیٰ دے دیا اور پھر فلموں کے لئے بہت کام کیا۔ میں نے اردو اور پنجابی دونوں فلموں میں کام کیا۔ ہم 40سے 50سال لاہور میں رہے۔ مجھے لاہور میں بہت عزت اور محبت ملی۔ پھر جب ضیاء الحق کے دور میں فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہوئی تو میں فیملی کو لے کر واپس کراچی چلا گیا۔ پھر مشرف کا دور آیا۔ اس دور میں بہت سے پرائیویٹ چینلز شروع ہوئے توٹی وی ڈراموں کا کام زیادہ بڑھ گیااور میں نے پھر سے ڈراموں میں کام کرنا شروع کردیا۔

جنگ:ماضی کےاور آج کے فنکاروں میں کیا فرق ہے؟

منور سعید:ہمارے زمانے میں اداکاروں کے پاس بہت وقت ہوتا تھا۔ ہم لوگ ایک ڈرامے کی ریہرسل آٹھ دن تک کرتے تھے ۔ لوگوں کو آج تک وہ ڈرامے یادہیں۔آج کل کے ڈرامے رٹ میں بن رہے ہیں لیکن آج کے فنکار ہم سے زیادہ ذہین ہیں کیونکہ ہمیں تو ریہرسل کرنے کا وقت ملتا تھا ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ انہیں صبح بلایا جاتا ہے وہیں سکرپٹ پکڑا دیا جاتا ہے اور سین پڑھ کر انہیں وہیں ریکارڈ کروانا ہوتا ہے ۔ اگر وہ سین اچھا ہو جاتا ہے تو یہ ان کی ذہانت ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ڈائیلاگ ڈیلیورنہیں کئے جاتے بلکہ جملے اگلے جاتے ہیں تو اس لحاظ سے ہمارے بعض بچے اور بچیاں بہت اچھا کام کر رہی ہیں۔

جنگ:آپ بچپن سے شرارتی تھے؟

منور سعید:بہت شرارتی تھا لیکن جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ سکول میں آٹھویں جماعت سے سگریٹ پینا شروع کر دیا ایک دن اماں نے دیکھ لیا تو جب میں گھر آیا تو ان کے پوچھنے پر میں خاموش ہو گیا لیکن جھوٹ نہیں بولا وہ سمجھ گئیں۔ میری پٹائی ہوئی لیکن میں نے سگریٹ نہیں چھوڑا۔ میں بہت ضدی تھا لیکن میں سگریٹ کم ہی پیتا ہوں۔

جنگ:آپ کے والد سے آپ کی بہت کم گفتگو ہوتی تھی، کیا وجہ تھی؟

منور سعید:ابا کا بہت رعب تھا۔ انہوں نے زندگی میں کبھی کسی بچے کو نہیں مارا لیکن پھر بھی ہم ان سے اتنا ڈرتے تھے کہ جب وہ گھر آجاتے اور ریڈیو آن ہوتا تو ہم فوراً بند کردیتے تھے حالانکہ انہوں نے کبھی منع نہیں کیا۔ وہ بہت کم گو انسان تھے۔

جنگ:اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں بتائیں۔

منور سعید:میری شادی کو تقریباً 50سال ہو گئے ہیں۔ میری بیوی بہت خوش مزاج خاتون ہیں ہمیشہ ہنستی رہتی ہیں مجھے کسی بات پر غصہ آ جائے تو وہ پھر بھی ہنستی رہتی ہیںاس لئے ہماری کبھی زیادہ لڑائی نہیں ہوئی۔ میرے بچوں کی بہترین تربیت بھی انہوں نے ہی کی۔ اگر وہ میرے ساتھ تعاون نہ کرتیں تو آج مجھے اتنی کامیابی نہ ملتی۔

جنگ:کیرئیر میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

منور سعید:مشکلات تو آتی رہتی ہیں۔ میں نے ہمیشہ اپنے اللہ پر بھروسہ کیا اور کبھی کسی سے کوئی کام نہیں مانگا۔ نہ ٹی وی پر نہ تھیٹر پر اور نہ ہی فلم میں، میں نے ہمیشہ اپنے اللہ سے مانگا ہے اور ہر نماز میں میری یہ دعا ہوتی ہے کہ اللہ مجھے ہمیشہ صرف اپنا محتاج رکھے اور اس نے ہمیشہ میری دعا قبول کی اس لئے مجھے کبھی کوئی ایسی مشکل پیش نہیں آئی۔

جنگ:اداکاری کی زندگی زیادہ خوبصورت ہے یا حقیقی؟

منور سعید:اگر حقیقی زندگی خوبصورت نہ ہو تو اداکاری میں بھی خوبصورتی نہیں آتی اداکاری آپ کی زندگی کا عکس ہوتی ہے آپ کی زندگی خوبصورت ہے تو اس کا عکس بھی خوبصورت ہی آئے گا۔اداکاری کے لئے اداکار کا خوش و خرم ہونا ضروری ہے اور میں خوش قسمت ہوں کہ میری فیملی کی طرف سے میں ہمیشہ بہت خوش رہتا ہوں۔

جنگ:فنکار نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟

منور سعید:فنکار نہ ہوتا تو ظاہر ہے میں پھر انجینئر ہوتا۔

جنگ:زندگی سے کیا سیکھا؟

منور سعید:زندگی سے میں نے بہت کچھ سیکھا جس میں اہم بات یہ سیکھی کہ سچ بولنا چاہئے اور منافقت سے کام نہیں لینا چاہئے۔ منافقت برائی کی جڑ ہے۔

جنگ:نئے آنے والے فنکاروں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے۔

منور سعید:میں صرف یہ کہوں گا کہ جو بھی کام کرو پوری محنت اور ایمانداری سے کرو اور کام کو عبادت سمجھ کر کرو کیونکہ اس سے ہمارا رزق جڑا ہوتا ہے۔

تازہ ترین