• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ مجلس عمل کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی مختلف اضلاع میں انتہائی مضبوط تصور کی جاتی ہیں ،تحریک انصاف 2013ء کے مقابلے میں کم نشستوں کے باوجود اکثریتی جماعت بن کر ابھرے گی‘ ایم ایم اے اپنے اختلافات پر قابو پاکر پی ٹی آئی کا مقابلہ کر سکتی ہے‘اے این پی بھی زیادہ نشستیں حاصل کرے گی ،ایم ایم اے ‘ اے این پی اور مسلم لیگ (ن) صوبے میں مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوسکتی ہیں‘ مبصرین‘ سیاسی جماعتوں میں اختلافات بھی نتائج تبدیل کر سکتے ہیں ،پی ٹی آئی چیئرمین بنوں‘ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر شہباز شریف سوات‘ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ملاکنڈ ‘اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی‘ قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب شیرپائو چارسدہ‘ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق دیر‘ جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ڈی آئی خان سے انتخابی میدان میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے عوام سیاسی طور پر دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ باشعور اور سمجھ بوجھ کے مالک تصورکئے جاتے ہیں جس کے باعث صوبے میں کسی بھی سیاسی جماعت یا امیدوار کی اجارہ داری قائم نہیں ہوسکی‘ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ خیبرپختونخوا کے عوام انتخابات میں حکومتی جماعت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوتے لہٰذا ہر مرتبہ اگلے انتخابات میں اس جماعت کا دھڑن تختہ کر دیتے ہیں چونکہ صوبے میںجاگیرداروں‘ وڈیرا شاہی یا خاندانوں کا عمل دخل نہیں لہٰذا صوبے کے عوام اپنے نمائندوں کا فیصلہ خود ہی کرتے ہیں البتہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ خیبرپختونخوا کے عوام ہوا کا رخ دیکھ کر اپنے ووٹ کے استعمال کا تعین کرتے ہیں تاکہ ان کا ووٹ ضائع نہ ہو‘ اسی بناء پر 2002ء میں ہوا کا رخ دیکھ کر لوگوں کی اکثریت نے متحدہ مجلس عمل اور پھر 2013ء میں تحریک انصاف کا ساتھ دیا‘ 2018ء کے انتخابات میں عوامی سیاسی شعور کا امتحان ہوگا‘تحریک انصاف ‘ متحدہ مجلس عمل‘ عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ن) صوبے کے مختلف اضلاع میں انتہائی مضبوط تصور کی جاتی ہیں تاہم تحریک انصاف اور متحدہ مجلس عمل کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا‘ سیاسی پنڈتوں کے مطابق تحریک انصاف کی نشستیں کم ہو نگی جبکہ متحدہ مجلس عمل میں شامل تمام جماعتوں کو مذہبی ووٹ ملے گا جس سے اس کی نشستوں میں اضافہ ہوگا البتہ عوامی نیشنل پارٹی بھی2013ء کے مقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل کر یگی یوں ایم ایم اے ‘ اے این پی اور مسلم لیگ (ن) صوبے میں مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو سکتی ہیں‘ خیبرپختونخوا میں 2002ء سے اب تک انتخابی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو 2002ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے صوبے میں سب سے زیادہ قومی اسمبلی کی 28‘ مسلم لیگ (ق) نے 5جبکہ پیپلز پارٹی شیرپائو (قومی وطن پارٹی ) نے 2نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی‘ 2008ء کے الیکشن میں پھر رت بدل گئی اور اے این پی نے قومی اسمبلی کی 9‘ پیپلز پارٹی نے 9‘ ایم ایم اے ‘ مسلم لیگ (ق) نے 5‘5‘ مسلم لیگ (ن) نے 3‘ قومی وطن پارٹی نے ایک جبکہ 2آزاد امیدوار قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب قرار پائے تھے اسی طرح 2013ء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی ہوا چلی اور اس نے صوبے سے قومی اسمبلی کی 17نشستوں پر کامیابی حاصل کی ‘ مسلم لیگ (ن) نے 6‘جمعیت علماء اسلام (ف) نے 4‘ جماعت اسلامی نے 3‘ عوامی نیشنل پارٹی نے 2‘ قومی وطن پارٹی‘ آل پاکستان مسلم لیگ اور عوامی جمہوری اتحاد نے ایک ‘ ایک نشست پر کامیابی حاصل کی ‘ آئندہ عام انتخابات میں صورتحال مختلف ہو سکتی ہے‘ محتاط اندازے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف 12سے 16‘ ایم ایم اے 10سے 15‘مسلم لیگ (ن) 8سے 10‘ اے این پی 4سے 6‘ پیپلز پارٹی 4سے 6جبکہ قومی وطن پارٹی ایک نشست جیت سکتی ہے ‘ اسی طرح صوبائی اسمبلی کی بات کی جائے تو 2002ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے سب سے زیادہ 52‘پیپلز پارٹی شیرپائو(قومی وطن پارٹی ) نے 10‘اے این پی‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) نے 8‘8‘مسلم لیگ (ن) نے 4جبکہ تحریک انصاف اور صوابی قومی محاذ نے ایک ‘ ایک نشست پر کامیابی حاصل کی ‘ 2008ء کے انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی نے 30‘ پیپلز پارٹی نے 16‘ متحدہ مجلس عمل نے 11‘ مسلم لیگ (ن) نے 6‘ مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی شیرپائو (قومی وطن پارٹی ) نے 5‘5نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اسی طرح 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہوئی اور اس نے 44‘ جمعیت علماء اسلام (ف) نے 13‘ مسلم لیگ (ن) نے 13‘ قومی وطن پارٹی نے 8‘ جماعت اسلامی نے 7‘ اے این پی اور عوامی جمہوری اتحاد نے 4‘4‘ پیپلز پارٹی نے 3جبکہ آل پاکستان مسلم لیگ نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی تھی ‘ آئندہ عام انتخابات کے نتیجے میں صوبائی نشستوں میں سےپاکستان تحریک انصاف کو25سے 30‘ ایم ایم اے کو 20سے 25‘ عوامی نیشنل پارٹی کو12سے 15‘مسلم لیگ (ن) کو8سے 12‘ پاکستان پیپلز پارٹی کو 5سے 10‘ قومی وطن پارٹی کو 2سے 4جبکہ دیگر جماعتوںسمیت آزاد امیدوار بھی چند نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں تاہم لوگ کس جماعت کو ووٹ دیتے ہیں اور کن افراد کا انتخاب کرتے ہیں‘ 2018ء کے انتخابات میں منقسم مینڈیٹ ہوگا ‘اس بات پر تمام حلقے متفق ہیں کہ سابق ادوار میں کوئی جماعت تن تنہا حکومت نہیں بنا سکی اور صوبے میں مخلوط حکومتیں بنیں ‘2002ء متحدہ مجلس عمل میں پانچ دینی جماعتیں شامل تھیں جبکہ 2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور اے این پی نے حکومت بنائی‘ 2013ء میں تحریک انصاف نے زیادہ نشستیں حاصل کیں لیکن حکومت بنانے کیلئے جماعت اسلامی‘ قومی وطن پارٹی ‘ عوامی جمہوری اتحاد اور آزاد اراکین کو اپنے ساتھ ملانا پڑا‘ صوبے کی سیاست میں ایک اور دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ کئی پارٹیوں کے سربراہوں کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے ‘ اس کے باوجود وہ پارٹیاں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہیں‘ اسفندیار ولی ‘ مولانا فضل الرحمن‘ سراج الحق‘ مولانا سمیع الحق‘ آفتاب شیرپائو بڑی اور چھوٹی جماعتوں کے قائدین ہیں لیکن کبھی تن تنہا حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے ‘ صوبے سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بنوں‘مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر شہباز شریف سوات ‘ اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان چارسدہ‘ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپائو چارسدہ‘ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق دیر جبکہ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ڈیرہ اسماعیل خان سے انتخابات میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں تاہم سیاسی جماعتیں اب اضلاع کی حد تک محدود نظر آرہی ہیں‘ قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات اور بلدیاتی انتخابات کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ جماعت اسلامی صرف ضلع دیر اپر ‘ لوئر اور سوات تک محدود ہے انہوں نے 2013ء میں 7حلقوں سے کامیابی حاصل کی‘ اسی طرح جمعیت علماء اسلام کی صورتحال بھی اس سے ملتی جلتی ہے کیونکہ جمعیت کا غلبہ جنوبی اضلاع تک محدود ہوتا جا رہا ہے ‘ جمعیت نے 2013ء میں 13حلقوں سے فتح حاصل کی تھی‘ مسلم لیگ (ن) بھی ہزارہ اور سوات میں کامیاب ہوئی اسے بھی 13نشستیں ملیں ‘ اسی طرح اے این پی چارسدہ‘ مردان‘ صوابی اور بونیرکے 4حلقوں سے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ تحریک انصاف نے اکثریت حاصل کرتے ہوئے 44حلقوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ 11مخصوص نشستیں ملا کر ان کی مجموعی تعداد 55تک پہنچ گئی تھی‘ پیپلز پارٹی چند نشستوں تک محدودہوئی اور اس نے صرف 3 نشستیں جیتیں ۔2018ء کے انتخابات میں خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف ‘ پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) ‘ متحدہ مجلس عمل‘ عوامی نیشنل پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتیں اکثریت کے حصول کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں تاہم 2018ء کے عام انتخابات میں حلقوں کے نمبروں میں رد و بدل کے باعث عام ووٹرز مشکلات سے دو چار ہیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صورتحال واضح ہوتی جا رہی ہے‘ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کا آغاز پشاور سے ہوتا تھا تاہم 2017ء کی مردم شماری کے بعد نئی حلقوں بندیوں کے تحت اب قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں کا آغاز چترال سے ہو رہا ہے۔

چترال میں قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست ہے تاہم اس سے قبل صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں ہوتی تھیں‘ چترال میںپیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور متحدہ مجلس عمل میں مقابلہ متوقع ہے‘ سابق صدر پرویز مشرف کے کاغذات مسترد ہونے کے بعد آل پاکستان مسلم لیگ انتخاب دوڑ سے باہر ہو چکی ہے ‘ پرویز مشرف کی جگہ شہزادہ تیمور کی نامزدگی کے معاملے میں اختلافات سامنے آرہے ہیں تاہم این اے ون پر پیپلز پارٹی نے سلیم خان‘ مسلم لیگ (ن) نے شہزادہ افتخار الدین جبکہ ایم ایم اے نے مولانا عبد الاکبر چترالی کو میدان میں اتارا ہے‘ان کے علاوہ پاکستان راہ حق پارٹی کے سعید الرحمن‘اے این پی کے عبد الحسین‘ آل پاکستان مسلم لیگ کے محمد امجد‘آزاد امیدوار تقدیرہ اجمل‘شہزادہ محمد تیمور خسرو ‘ محمد یحییٰ اور نثار دستگیر بھی قسمت آزمائی کرینگے ‘ سلیم خان اور مولانا عبد الاکبر چترالی میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے ‘اسی طرح پی کے ون پر پیپلز پارٹی کے غلام محمد‘ مسلم لیگ (ن) کے ایڈوکیٹ عبد الولی عابد جبکہ ایم ایم اے کے مولانا عنایت الرحمن مد مقابل ہیں‘ ان کے علاوہ اے این پی کے سردار احمد خان‘ پاکستان راہ حق پارٹی کے سراج الدین‘ آل پاکستان مسلم لیگ کے سہراب خان‘ پاک سرزمین پارٹی کے عطاء اللہ آزاد امیدوار امیر اللہ‘ سعادت حسین محفی ‘ سید سردار حسین شاہ‘ شفیق الرحمن‘ شہزادہ امان الرحمن‘ عبد الرحمن مصباح الدین اور وزیر خان بھی نامزد ہیں ۔

ضلع سوات کی بات کی جائے تو یہاں پہلے قومی اسمبلی کی 2 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 7نشستیں تھیں تاہم نئی حلقہ بندیوں کے بعد سوات میں ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست کا اضافہ ہوا ہے ‘ سوات میں عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں کاٹنے کا مقابلہ متوقع ہے ‘ ایم ایم اے کا ووٹ بینک بھی موجود ہے ‘ اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے ووٹ بینک سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا تاہم پارٹی میں اختلافات کے باعث پی ٹی آئی کا ووٹ بینک تقسیم ہو چکا ہے‘ این اے 2سوات ون پر مسلم لیگ (ن) نے انجینئر امیر مقام اور تحریک انصاف نے محمد خان کو میدان میں اتارا ہے‘ان کے علاوہ دیگر امیدواروں میں پیپلز پارٹی کے امجد علی خان ‘پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمد مختار‘اے این پی کے ممتاز خان‘آزاد امیدوار سید قمر ‘عباد اللہ خان‘معراج محمد ‘ملک محمد دیدار خان بھی شامل ہیں‘ این اے 3سوات ٹو جو کہ مینگورہ سٹی کا حلقہ ہے یہاں سے مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر شہباز شریف میدان میں اترے ہیں اور ان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے امیدوار اور والئی سوات کےبیٹے میاں گل شہریار امیر زیب سے ہوگا‘ ان کے علاوہ دیگر امیدواروں میں تحریک انصاف کےسلیم الرحمن‘اے این پی کے عبد الکریم‘آزاد امیدوار آفتاب شاہد‘حجت اللہ اور علی خان شامل ہیں‘ این اے فور سوات تھری پر پی ٹی آئی کے مراد سعید کا مقابلہ اے این پی کے امیدوار اور بزرگ سیاستدان مرحوم افضل خان لالہ کے بیٹے بریگیڈئر (ر) سلیم سے ہوگا‘اس حلقہ پر قومی وطن پارٹی کے تل حیات خان‘پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے خورشید علی ‘مسلم لیگ (ن) کے فیروز شاہ‘متحدہ مجلس عمل کے قاری محمود‘پیپلز پارٹی کے قمر زمان‘تحریک لبیک کے محمد رضا خان‘ اللہ اکبر تحریک کے ابراہیم‘ آزاد امیدوارشہزاد اور محمد موسیٰ خاخان بھی قسمت آزمائی کر رہے ہیں ‘ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی بات کی جائے تو پی کے 2پر انجینئر امیر مقام کا مقابلہ اے این پی کے سید جعفر شاہ سے ہو گا ان کے علاوہ تحریک انصاف کے شرافت علی ‘ پیپلز پارٹی کے نوازش علی اور آزاد امیدوار اشتیاق احمد بھی مقابلے میں شریک ہیں‘ پی کے 3پر صورتحال واضح نہیں تاہم اس حلقہ سے تحریک انصاف کے حیدر علی خان‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سردار خان‘ متحدہ مجلس عمل کے علی شاہ‘ اے این پی کے فضل وہاب‘ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے علی نامدار خان‘ پاکستان اسلامک ری پبلکن پارٹی کے اعظم خان ‘ آزاد امیدوار جاوید علی اور محبوب الرحمن امیدوار نامزد ہیں‘ پی کے 4پر مسلم لیگ (ن) کے امیر مقام میدان میں اترے ہیں‘ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے امیدوار عزیز اللہ خان‘ پیپلز پارٹی کے عرفان علی خان‘ اے این پی کے عاصم اللہ خان‘ ایم ایم اے کے ثناء اللہ خان‘ اے پی ایم ایل کے شاہد خان‘ پاکستان فریڈم موومنٹ کے نعمت اللہ ‘ آزاد امیدوار ابراہیم‘ اشتیاق احمد‘ افتخار علی ‘ سیف اللہ خان ‘ محمد طاہر اور موسیٰ خان ہیں ‘ پی کے 5پر اے این پی کے واجد علی خان کا پیپلز پارٹی کے میاں گل امیر زیب شہریارکاٹنے کا مقابلہ متوقع ہے‘ یہاں سے مسلم لیگ (ن) کے ارشاد خان‘ پی ٹی آئی کے فضل حکیم خان یوسفزئی ‘ قومی وطن پارٹی کے فضل رحمن‘ اے پی ایم ایل کے شاہد خان ایم ایم اے کے محمد امین‘جے یوآئی نظریاتی کے عارف اللہ ‘ آزاد امیدوار برکت علی‘سید آصف علی شاہ‘ شوکت علی ‘ شہاب سیاب ‘ضیاء اللہ خان ‘ محمد اقبال بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں‘ پی کے 6پر اے این پی کے شیرشاہ خان کا مسلم لیگ (ن) کے حبیب علی شاہ سے اصل مقابلہ ہے تاہم ان کے مقابلے میں دیگر امیدوار تحریک انصاف کے امجد علی‘ ایم ایم اے کے شاہی نواب‘ پیپلز پارٹی کے مختار رضا ‘ پختونخوابی ملی عوامی پارٹی کے نثار الملک‘ جے یو آئی نظریاتی کے ظفر اللہ خان‘ اے پی ایم ایل کے اکبر علی خان ‘امن ترقی پارٹی کے سعد اعتزاز خان ‘ آزاد امیدوار امتیاز خان‘ علی خان اور یعقوب خان میدان میں ہیں ‘ پی کے 7پر اے این پی کے وقار خان کا مسلم لیگ (ن) عبد الغفور کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے‘ متحدہ مجلس عمل کے حسین احمد کانجو بھی اپ سیٹ کر سکتے ہیں تاہم ان کے علاوہ دیگر امیدواروں میں پیپلز پارٹی کے احسان اللہ شاہ‘ تحریک انصاف کے امجد علی‘ اللہ اکبر تحریک کے جمروز خان‘ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ریا ض احمد خان ‘ آزاد امیدوار بخت مندیاس‘ فضل اکبر‘ فیاض علی شاہ اور محمد اقبال بھی شامل ہیں‘ پی کے 8پر پارٹی پوزیشن واضح نہیں تاہم پی ٹی آئی کے محب اللہ خان‘ پیپلز پارٹی کے سید اکبر خان‘ ایم ایم اے کے فضل سبحان‘ مسلم لیگ (ن) کے عظمت علی خان‘ قومی وطن پارٹی کے سجاد خان اے پی ایم ایل کے عبد الوہاب‘ آزاد امیدوار اقبال حسین‘ انعام اللہ خان شمع خیل‘ ظفر اللہ خان اور فیاض علی شاہ میدان میں ہیں جبکہ پی کے 9پر ایم ایم اے کے ڈاکٹر امجد کا مقابلہ اے این پی کے ایوب اشاڑی سے ہوگا‘ اس حلقہ پر دیگر امیدواروں میں تحریک انصاف کے محمود خان‘ قومی وطن پارٹی کے نصر اللہ خان‘ پیپلز پارٹی کے سید ناصر علی شاہ‘ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے حمید خان‘ اللہ اکبر تحریک کے شیرین محمد سواتی ‘ (ن) لیگ کے عبد اللہ خان اور آزاد امیدوار یوسف خان شامل ہیں ‘ شہباز شریف نے سوات سے قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا ہے تاہم ووٹرز مقامی امیدوار کو ہی ترجیح دیتے ہیں جس کی واضح مثال 1996ء کے انتخابات ہیں جس میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے این اے 29سوات سے الیکشن میں حصہ لیا تھا اور میاں گل اورنگزیب سے شکست کھا گئے تھے ۔

اپر دیر میں ایم ایم اے کا ووٹ بینک زیادہ ہے تاہم یہاں پیپلز پارٹی مذہبی جماعتوں کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے‘ یہاں قومی اسمبلی کی ایک جبکہ صوبائی اسمبلی کی 3نشستیں ہیں‘ این اے 5سے پیپلز پارٹی نے نجم الدین خان جبکہ ایم ایم اے نے صاحبزادہ طارق اللہ کو امیدوار نامزد کیا ہے جن میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا ‘ اس حلقہ پر دیگر امیدواروں میں تحریک انصاف کے صاحبزادہ صبغت اللہ ‘اے این پی کے عمران خان‘مسلم لیگ (ن) کے محمد نثار خان‘ پی ایس پی کے عنایت الحق‘ اے پی ایم ایل کے سبحان علی ‘آزاد امیدوار حنیف اللہ خان‘ریاض خان اور عمر زیب خان بھی میدان میں ہیں‘ پی کے 10پر ایم ایم اے کے محمد علی شاہ کا پیپلز پارٹی کے باچہ صالح سے مقابلہ ہوگا‘ دیگر امیدواروں میں تحریک انصاف کی حمیدہ شاہد‘ اے پی ایم ایل کے سید کریم شاہ‘ مسلم لیگ (ن) کے عبد الغفار ‘ اے این پی کے گل شیر ‘ اللہ اکبر تحریک کے محمد اسماعیل ‘ آزاد امیدوار حبیب زادہ‘ عبد الواحد شامل ہیں ‘ پی کے 11پر ایم ایم اے کے ملک اعظم کا پیپلز پارٹی کے صاحبزادہ ثناء اللہ سے کانٹے کا مقابلہ ہوگا ‘ اس حلقے سے دیگر امیدوار اے این پی کے امیر زمان خان‘ اے پی ایم ایل کے بادشاہ روان اور تحریک انصاف کے ملک فخر حیات خان بھی نامزد ہیںجبکہ پی کے 12پر ایم ایم اے کے امیدوار اور سابق وزیر عنایت اللہ خان کو پیپلز پارٹی کے نجم الدین خان کا چیلنج درپیش ہے ‘ اس حلقے کے دیگر امیدواروں میں (ن) لیگ کے محمد نثار خان‘ تحریک انصاف کے نوید انجم خان‘ اے این پی کے وحید اللہ خان‘ اللہ اکبر تحریک کے شاہد اللہ اور آزاد امیدوار حبیب اللہ ‘ حنیف اللہ خان اور ظفر علی خان شامل ہیں ۔

لوئر دیر میں پہلے قومی اسمبلی کی ایک جبکہ صوبائی اسمبلی کی 4نشستیں تھیں یہاں ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست کا اضافہ کیاگیا ہے اور تعداد بالترتیب 2اور 5ہو چکی ہے‘ لوئر دیر میں پیپلز پارٹی ‘ ایم ایم اےاور پیپلز پارٹی کا مقابلہ ہوگا تاہم اے این پی بھی اپ سیٹ کر سکتی ہے‘ این اے 6لوئر دیر ون پر پیپلز پارٹی کے احمد حسن خان ‘ایم ایم اے کے مولانا اسد اللہ‘تحریک انصاف کے محبوب شاہ‘ اے این پی کے محمد زاہد خان ‘ اے پی ایم ایل کے حبیب اللہ ‘ تحریک لبیک کے احسان اللہ امیدوار ہیں یہاں اے این پی کے زاہد خان اور پیپلز پارٹی کے احمد حسن خان میں مقابلہ متوقع ہے ‘جبکہ این اے 7لوئر دیر ٹو پر ایم ایم اے کے سراج الحق کا مقابلہ اے این پی کے امجد گجر سے ہوگا ان کے علاوہ دیگر امیدواروں میں (ن) کی ثوبیہ شاہد‘ پیپلز پارٹی کے سید شاہد احمد خان ‘پی ٹی آئی کے محمد بشیر خان‘ اے پی ایم ایل کے عبد الغفار خان ‘ اللہ اکبر تحریک کے محمد خالد اور آزاد امیدوار مبارک جان میدان میں ہیں‘ یہاں سراج الحق اور پی ٹی آئی کے محمد بشیرخان میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا‘ پی کے 13پر اے این پی کے ملک محمد زیب کا ایم ایم اے کے شاد نواز خان کے ساتھ مقابلہ ہوگا‘ یہاں دیگر امیدوار میں پی ٹی آئی کے محمد اعظم خان ‘ (ن) لیگ کے اظہر تقویم‘ پیپلز پارٹی کے محمد زمین خان‘ آزاد امیدوار شاہ سعود اور ہدایت اللہ خان شامل ہیں‘ پی کے 14پر پیپلز پارٹی کے بخت بیدار خان کا ایم ایم اے کے ذاکر اللہ کے ساتھ مقابلہ متوقع ہے‘ اس حلقے کے دیگر امیدوار میں اے این پی کے حسین شاہ‘ پیپلز پارٹی کے سید غنی‘ قومی وطن پارٹی کے میاں سید نبی بخش‘ تحریک انصاف کے ہمایون خان ‘ تحریک لبیک کے محمد ابراہیم‘ پاکستان راہ حق پارٹی کے عبید اللہ انور ‘ اللہ اکبر تحریک کے ضیاء الدین ‘ آزاد امیدوار جمیل احمد اور حیدر علی شامل ہیں ‘پی کے 15پر اصل مقابلہ پیپلز پارٹی کے محمود زیب اور ایم ایم اے کے مظفر سید ایڈوکیٹ کے درمیان مقابلہ متوقع ہے تاہم ان کے علاوہ بھی دیگر امیدوار میدان میں ہیں جن میںاے این پی کے سجاد احمد‘ (ن) لیگ کے سید عنایت الرحمن‘ پی ٹی آئی کے شفیع اللہ ‘ اے پی ایم ایل کے محبت سید‘ مسلم لیگ ضیاء کے شاہ خضر ‘ آزاد امیدوار خالد محمود‘ سمیرا اور نور محمد شامل ہیں‘ پی کے 16پر اے این پی کے بہادر خان کا ایم ایم اے کے اعزاز الملک افکاری سے ٹاکرا ہو گا‘ یہاں دیگر امیدواروں میں پی ٹی آئی کے سربلند خان‘ پاکستان راہ حق پارٹی کے ضیاء الحق‘ (ن) لیگ کے عبد الرحمن خان ‘ پیپلز پارٹی کے محمد اقبال اور آزاد امیدوار محمد حذیفہ شامل ہیںجبکہ پی کے 17پر ایم ایم اے کے سید گل کا پی ٹی آئی کے ملک لیاقت سے مقابلہ ہوگا‘یہاں کے دیگر امیدواروں میں اے پی ایم ایل کے شیفع الرحمن‘ (ن) لیگ کے شوکت علی خان‘ پیپلز پارٹی کے محمد مظفر خان ‘ اے این پی کے نعیم جان ‘ اللہ اکبر تحریک کے سید افتخار شاہ ‘ آزاد امیدوار عزیز الحق اور مبارک خان شامل ہیں‘ اس ضلع کے نامزد امیدواروں میں محمود زیب‘ مظفر سید ایڈوکیٹ‘ بخت بیدار خان ‘ اعزاز الملک افکاری ‘ ذاکر اللہ خان‘ سراج الحق‘ احمد حسن خان پہلے بھی رکن پارلیمنٹ منتخب ہو چکے ہیں اور وزارتیں بھی سنبھال چکے ہیں ۔

ملاکنڈ میں قومی اسمبلی کی ایک جبکہ صوبائی اسمبلی کی 2نشستیں ہیں یہاں پیپلز پارٹی‘ پی ٹی آئی اور ایم ایم اے کا مقابلہ ہوگا‘ این اے 8سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری قسمت آزمائی کر رہے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے جنید اکبر اور ایم ایم اے کے مولانا گل نصیب میدان میں اترے ہیں‘یہاں سے دیگر امیدواروں میں اے این پی کے انعام اللہ خان‘ اے پی ایم ایل کے تاج بادشاہ‘ قومی وطن پارٹی کے ظفر یاب خان‘ (ن) لیگ کے عامر نواب خان‘ آزاد امیدوار حسین خان‘ شمس الحق‘ عالمگیر ‘فضل محمد ‘محمد خان اور میاں گل خرم شامل ہیں‘یہاں بلاول بھٹو زرداری‘ مولانا گل نصیب اور جنید اکبر میں گھمسان کا رن پڑے گا‘ پی کے 18پر پی ٹی آئی کے شکیل احمد ایڈوکیٹ کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر ہمایون خان جبکہ ان کے مقابلے میں دیگر امیدوار پختونخواملی عوامی پارٹی کےایاز محمد‘ اے این پی کے اعجاز علی‘ ایم ایم اے کے امجد علی ‘ (ن) لیگ کے سجاد احمد‘ اے پی ایم ایل کے سید وہاب‘ تحریک لبیک کے کفایت اللہ‘ قومی وطن پارٹی کے محمد ابرار ‘ آزاد امیدوار اعجاز علی خان اور محمد رضا خان شامل ہیں جبکہ پی کے 19پر پی ٹی آئی کے مصور خان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے محمد علی شاہ باچہ سے ہوگا‘ یہاں دیگر امیدوار میں ایم ایم اے کے جمال الدین‘ قومی وطن پارٹی کے جہانگیر خان‘ اے این پی کے شفیع اللہ‘ (ن) لیگ کے گل زمان‘ آزاد امیدوار امجد علی‘ حلیم سید‘ شمس الحق‘ فضل محمد اور فیاض گل شامل ہیں ‘ محمد علی شاہ باچہ 2002ء‘2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں اس نشست پر مسلسل 3بار کامیابی حاصل کر چکے ہیں‘ قومی اسمبلی کی نشست پر پی ٹی آئی کے جنید اکبر کو فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ ملاکنڈ کے عوام باہر کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتے جبکہ بلاول بھٹو زرداری کی کامیابی کے امکانات کم ہیں ۔

بونیر میں قومی اسمبلی کی ایک جبکہ صوبائی اسمبلی کی 3نشستیں ہیں یہاں مقابلہ اے این پی اور پی ٹی آئی کے درمیان ہوگا ‘ ایم ایم اے بھی کامیابی حاصل کر سکتی تھی تاہم یہاں جماعت اسلامی اور جےیو آئی کے مابین ٹکٹوں کے معاملے پر اختلافات کے باعث بہت سے امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جس کی وجہ سے ایم ایم اے کا ووٹ بینک تقسیم ہو چکا ہے جس کا فائدہ دیگر سیاسی جماعتوں کو ہو گا‘ این اے 9پر اے این پی نے عبد الرئوف‘ پی ٹی آئی نے شیر اکبر جبکہ ایم ایم اے کے ٹکٹ پر اختلافات کی وجہ سے جے یو آئی کے استقبال خان اور جماعت اسلامی کے حبیب الرحمن میدان میں اترے ہیںتاہم ایم ایم اے کے ٹکٹ پر استقبال خان الیکشن میں حصہ لیں گے‘ دیگر امیدواروں میں اے پی ایم ایل کے سرمیر خان ‘ عوامی ورکرز پارٹی کے فانوس گجر‘ (ن) لیگ کے کامران خان اور آزاد امیدوار میاں معین الدین شامل ہیں‘شیر اکبر خان اور استقبال خان میں مقابلہ ہوگا‘ پی کے 20پر سابق سپیکر بخت جہان آزاد حیثیت سے ‘ پی ٹی آئی کے ریاض خان ‘ ایم ایم اے کے فضل غفور‘ اے این پی کے بخت افسر ‘ اللہ اکبر تحریک کے سلیم خان‘ پیپلز پارٹی کے سیف اللہ خان ‘ پی ٹی آئی گلالئی کے فضل کریم اور آزاد امیدوار عبد اللہ نامزد ہیں‘ پی کے 21پر جماعت اسلامی کے انجینئر ناصر علی‘ اے این پی کے قیصر ولی خان‘ پی ٹی آئی کے سید فخر جہان‘ پاکستان اسلامک ریپبلکن پارٹی کے سرزمین خان اور آزاد امیدوار سردار علی خان مقابلہ کر رہے ہیںجبکہ پی کے 22پر اے این پی کے سردار حسین بابک ‘ جماعت اسلامی کے راج ولی خان اور پی ٹی آئی کے عبدالکبیر کے مابین مقابلہ ہو گا یہاں دیگر امیدواروں میں قومی وطن پارٹی کے بخت بلند خان‘ پیپلز پارٹی کے سید محمد شمشیر اور آزاد امیدوار یوسف علی شامل ہیں ۔

شانگلہ میں مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان ہو گا تاہم اے این پی اور پیپلز پارٹی بھی مقابلے سے باہر نہیں‘ یہاں قومی اسمبلی کی ایک جبکہ صوبائی اسمبلی کی 2نشستیں ہیں‘ این اے 10پر مسلم لیگ (ن) کے عباد اللہ خان کا مقابلہ تحریک انصاف کے وقار احمد‘ عوامی نیشنل پارٹی کے سدید الرحمن اور پیپلز پارٹی کے انجینئر حمید اقبال سے ہوگا‘ دیگر امیدواروں میں ایم ایم اے کے امیر سلطان‘ عوامی ورکرز پارٹی کے بخت نصیب خان‘آزاد امیدوار پرویز احمد‘سفیر خان اور سید فرین شامل ہیں ‘یہاں پی ٹی آئی کے وقار احمد خان اور (ن) لیگ کے عباد اللہ خان میں مقابلہ ہوگا‘ پی کے 23پر مسلم لیگ (ن) کے محمد رشاد خان ‘ تحریک انصاف کے شوکت یوسفزئی اور اے این پی کے متوکل خان کے درمیان مقابلہ ہو گا اور دیگر امیدواروں میں جے یو پی این کے جمال الدین‘ پی ایس پی کے جہانزیب‘ پی ایم اے پی کے عبد الہادی‘ اے ڈبلیو پی کے عمر زادہ ‘ ایم ایم اے کے محمد یار ‘ آزاد امیدوار حامد اقبال خان‘ رشید احمد ‘ سریاز خان اور میاں نذیر رحمن شامل ہیں جبکہ پی کے 24پر مسلم لیگ (ن) کے فضل اللہ پیر محمد خان ‘ اے این پی کے فیصل زیب اور پی ٹی آئی کے عبد المولیٰ کے درمیان مقابلہ ہے ‘ دیگر امیدواروں میں قومی وطن پارٹی کے سجاد احمد خان‘ ایم ایم اے کے شیر عالم خان‘ عوامی ورکرز پارٹی کے نصر اللہ خان‘ آزاد امیدوار اختر علی ‘ احمد سعید‘ سلیم زادہ اور محمد علی خان شامل ہیں۔

کوہستان کے تینوں اضلاع پر مشتمل قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 11سے26امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے ہیں جن میںسید گل بادشاہ ،شہزاد لطیف،افرین خان،سید جان،دوست محمد شاکر،محمد،محبوب اللہ جان،احسان اللہ،بخت جہان ‘شیر باز،سر فراز خان ،اورنگزیب،ملک نور ولی شاہ،عبدالستار،ملک باد شاہ، سیف الملوک،نور امین ،عبدالقیوم‘ جمع دین،حاجی مصر خان،امجد علی ‘محمد یاسین،حاجی میرداد،محمد نصیر، محمد ایوب خان اورحمایت اللہ خان شامل ہیں ‘ یہ حلقہ ماضی میںاین اے 23کہلاتا تھا ۔اب تک کی صورتحال کے مطابق قومی اسمبلی کی اس سیٹ کیلئے دو مضبوط اتحاد سامنے آئے ہیں جن میں ایک پٹن قومی اصلاحی کمیٹی پٹن اس کا امیدوار اس بار دوست محمد شاکر ہے اور یہ اتحاد لوئر کوہستان میں ہے اس کے مقابلے میں ضلع اپر کوہستان میں کندیا اتحاد کی طرف سے ملک افرین خان ہیں ان کو جمعیت علماء اسلام کی طرف سے ٹکٹ بھی مل جائے ،ان کے علاوہ بھی اتحاد وجود میں آنے کے امکانات ہیں جوکولئی پالس کی کچھ علاقائی برادریوں پر مشتمل ہیں اور اپر کوہستان کے علاقہ جالکوٹ کے عوام پر مشتمل ہیں ‘کوہستان کے تین صوبائی حلقوں پی کے 5 2‘26اور 27ہیں ‘ پی کے 25سے 31امیدوار میدان میں ہیں ‘کندیا اتحاد سے نامزد امیدوار محمد دیداراور سیواتحاد سے تحریک انصاف کے زرگُل خان اور جالکوٹ کی طرف سے حباب شاہ کے درمیان مقابلہ ہوگا ‘ پی کے 26میں پٹن قومی اصلاحی کمیٹی کے افسر خان‘ عبد الغفار‘ مس نصرت شیراز‘ سدرہ خالد کے درمیان مقابلہ ہوگا‘ پی کے 27میں سابق ضلع نائب ناظم مفتی عبید الرحمن‘ روزی خان اور محمد عصمت اللہ میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے ۔

بٹگرام میں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی 2نشستوں پر ایم ایم اے اور پی ٹی آئی کے مابین ٹف مقابلہ متوقع ہے‘ این اے 12پر ایم ایم اے کے قاری یوسف کا پی ٹی آئی کے محمد نواز خان سے مقابلہ ہوگا‘ماضی میں اس نشست پر قاری یوسف 2بار جبکہ محمد نواز خان مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر 2008ء میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں‘اس حلقے پر دیگر امیدواروں میں اے این پی کے مصباح اللہ بابر ‘قومی وطن پارٹی کے رستم خان‘پیپلز پارٹی کے سردار ملک جان‘پی ایم ایل کے صابر حسین شاہ ‘ آزاد امیدوار رشید احمد اور سعید احمد شامل ہیں ‘ پی کے 28پر ایم ایم اے کے شاہ حسین خان کا پی ٹی آئی کے انجینئر زبیر خان کے ساتھ مقابلہ ہوگا تاہم دیگر امیدوار بھی مقابلہ کیلئے تیار ہیں جن میں قومی وطن پارٹی کے جاوید خان‘ اے این پی کے محمد ارشد خان ‘ (ن) لیگ کے محمد اکرام خان ‘ پیپل زپارٹی کے محمد نعیم خان‘ آزاد امیدوار سردار اللہ خان اور غلام اللہ شامل ہیں ‘پی کے 29پر ایم ایم اے کے فیاض خان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے تاج محمد خان ترند سے ہوگا ‘ ایم ایم اے کے شاہ حسین خان مسلسل 3بار اس نشست پر کامیابی حاصل کر چکے ہیں جبکہ تاج محمد خان ترند 2008ء میں آزاد حیثیت سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں ‘ اس حلقے پر دیگر امیدواروں میں پی ایم ایل کے زین المعارفین‘ قومی وطن پارٹی کے سعید‘ راہ حق پارٹی کے عطاء محمد‘ اے این پی کے محمد ریاض خان ‘ (ن) لیگ کے ولی محمد خان ‘ آزاد امیدوار امجد ولی خان‘ تاج محمد‘ خانزادہ ظفر علی خان‘ محمد فیاض اور محمد قاسم شامل ہیں ۔

مانسہرہ کی سیاست جماعتوں کی بجائے برادری اور شخصیات کے گرد گھومتی ہے تاہم مسلم لیگ (ن) کو اس بار بھی برتری حاصل ہو سکتی ہے‘ این اے 13مانسہرہ ون پر مسلم لیگ (ن) کے سردار شاہ جہان یوسف کا مقابلہ اپنی ہی پارٹی کے الحاج صالح محمد خان سے متوقع ہے کیونکہ الحاج صالح محمد خان ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور انہیں تحریک انصاف کی حمایت بھی حاصل ہے ‘ اس حلقے پر دیگر امیدواروں میں تحریک لبیک کے عامر شہزاد‘ ہمدردان وطن کے عبد السلام‘ اے این پی کی عفت کلثوم‘ ایم ایم اے کے محمد بصیر خان‘پی ایس پی کے محمد بصیر‘ پی ایم ایل کی نرگس علی‘ آزاد امیدوار افسر خان ‘ ثمر اسلام‘ سردار محمد سلطان‘ عنبرین احسن‘ محمد بنارس اور محمد گلفام سواتی شامل ہیں‘ این اے 14مانسہرہ ٹو پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کیپٹن (ر) محمد صفدر ہی تھے تاہم احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد ان کی گرفتاری سے اب وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے ‘ اس حلقے سے پی ٹی آئی کے زرگل خان اور ایم ایم اے کے مفتی کفایت اللہ میدان میں ہیں اور دیگر امیدواروں میں پی ایم ایل کے فخر زمان خان ‘ تحریک لبیک کے قاضی طیب شہزاد‘ قومی وطن پارٹی کے محمد آصف ‘ اللہ اکبر تحریک کے محمد عقیل خان درانی‘ آزاد امیدوار احمد شہریار خان‘ روشن زمان‘محمد سجاد اور محمد واجد خان شامل ہیں‘ سردار شاہ جہان یوسف 2002ء اور 2008ء میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر اس نشست پر کامیابی حاصل کر چکے ہیں ‘ پی کے 30سے پی ٹی آئی نے خواجہ سرا عالمگیر خان عرف ماریہ خان کو ٹکٹ دیا ہے ‘ ان کے ساتھ دیگر امیدواروں میں اے این پی کے حامد علی خان‘ پیپلز پارٹی کے سید احمد حسین شاہ‘ (ن) لیگ کے میاں ضیاء الرحمن سمیت دیگر 12امیدوار قسمت آزمائی کرینگے‘ پی کے31سے پی ٹی آئی نے بابر سلیم‘ ایم ایم اے نے خرم شہزاد خان‘ اے این پی نے سلطان محمود‘ (ن) لیگ نے ظہور احمدکو ٹکٹ سے نوازا ہے تاہم اس حلقہ سے کل 14امیدوا رقسمت آزمائی کر رہے ہیں‘ پی کے 32پر ایم ایم اے نے ابرار حسین‘ قومی وطن پاٹری نے حبیب الرحمن تنولی‘ تحریک انصاف نے زاہد چن زیب‘ اے این پی نے فیاض مظفر ‘ پیپلز پارٹی نے محمد شجاع خان‘ (ن) لیگ نے محمد نعیم کو امیدوار نامزد کیا ہے ‘ کل 12امیدوار میں مقابلہ ہوگا‘ پی کے 33سے پی ٹی آئی نے نوابزادہ فرید صلاح الدین‘ ایم ایم اے نے ناصر محمود‘ مسلم لیگ نے وجیہہ الزامان کو ٹکٹ جاری کئے ہیں اس حلقے میں کل 14امیدواروں میں مقابلہ ہوگا ۔پی کے 34پر پی ٹی آئی نے ایک خاتون زاہدہ سبیل کو میدان میں اتارا ہے ان کے مقابلے میں (ن) لیگ کے سردار محمد یوسف زمان پیپلز پارٹی کے محمد مقصود جبکہ شہزادہ محمد گستاسپ آزادحیثیت سے میدان میں موجود ہیں‘ اس حلقہ پر کل 11امیدواروں میں مقابلہ ہوگا‘ پی کے 35تور غر کی نشست ہے یہاں سے پی ٹی آئی کے زرین گل اور (ن) لیگ کے تیمور اللہ خان میں مقابلہ ہوگا ان کے علاوہ پیپلز پارٹی سے سید لائق عزیز شاہ‘ ایم ایم اے کے شوکت علی خان ‘ اے این پی کے لائق محمد خان سمیت کل 8امیدوار میدان میں ہیں ۔

خیبر پختونخوا، تبدیلی کی ہوا


خیبر پختونخوا، تبدیلی کی ہوا


تازہ ترین