• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’موہنجودڑو‘‘ فن تعمیر کا ایک شاہکار

2016ء میں بولی ووڈفلم ’’ موہنجودڑو ‘‘ آئی تھی، یہ فلم بڑی اسکرین پر زیادہ عرصہ نہ چل سکی مگراس فلم نے لوگوں کو قدیم تہذیب سے روشناس کرانے کی ایک کوشش کی۔ سندھ کی قدیم اور عظیم تہذیب بنام ’ موہنجودڑو‘ صدیوں سے آج بھی قائم ہے اور فن تعمیر اور تاریخ کے دلدادہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

سندھ کی مقامی زبان میں اسے موئن جو دڑو جبکہ اردو میں موہنجوداڑو کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے ’’ مردو ں کا ٹیلا‘‘۔ موہنجودڑو کا قلعہ ایک ٹیلے پر واقع ہے، جو جنوب میں سطح زمین سے بیس فٹ اور شمال میںچالیس فٹ اُونچا ہے۔ آجکل دریائے سندھ کی ایک شاخ اس سے تین میل کے فاصلے پر بہتی ہے۔ جب یہ شہر آباد تھا تو اس وقت قلعے کی مشرقی دیوار کے پاس سے دریا کی ایک شاخ گزرتی تھی۔ مغربی جانب جو حفاظتی بند تھا، اس سے دریا ایک میل دور تھا ۔ یہ قلعہ ایک چبوترے پر بناہوا ہے، اس چبوترے کو مٹی اور کچی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔

موہنجودڑو کو فن تعمیر اور انسانی ترقی کی ایک اعلیٰ مثال قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی بربادی کے سینتیس سو برس بعد تک اس کی باقیات کا کوئی نشان نہیں ملا تھا، مگر انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں پہلی مرتبہ اس تہذیب کے کچھ بچے کھچے آثار اور نشانات ملے، جس کے بعد ماہرین نے اس قدیم شہر کے بارے میں حقائق کو باقاعدہ طور پر جمع کرنا شروع کیا۔

1921ء کا واقعہ ہے کہ رائے بہادر دیا رام سہنی نے ہڑپا کے مقام پر قدیم تہذیب کے چند آثار پائے۔ اس کے ایک سال بعد اسی طرح کے آثار راکھال داس بینرجی کو موہنجودڑو کی سر زمین سے ملے، جس کی اطلاع ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کودی گئی۔ محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل سر جان مارشل نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں مقامات کی طرف توجہ دی۔ چنانچہ رائے بہادر دیا رام سہنی اور ڈائریکٹر ارنسٹ میکے کی نگرانی میں متعلقہ محکمے کے تحت کھدائی کا کام شروع ہوا، تاہم کھدائی کا یہ کام مکمل نہ ہو سکا۔

موہنجودڑو کا عمومی پلان ہڑپہ جیسا ہی تھا ۔ شہر کے مغرب میں قلعہ ہے، گلیوں کی ترتیب و مکانات اور اناج گھر سب ہڑپہ جیسے ہیں۔ البتہ یہاں کی منفرد اور سب سے نمایاں چیز بڑا اشنان گھر ہے جس کا مطلب ہے بڑا غسل خانہ یا عظیم حمام۔ یہ ایک بڑی سی عمارت ہے، جس کے وسط میں ایک بڑا سا تالاب ہے۔ یہ تالاب شمال وجنوب میں39فٹ لمبا اور شرقی و غربی میں23فٹ چوڑا اور آٹھ فٹ گہرا ہے۔ شمال اور جنوب دونوں سمت سے اینٹوں کے زینے نیچے اترتے تھے، جن پر لکڑی کے تختے لگادیے گئے تھے ۔ تالاب کی چار دیواری کی بیرونی سمت پر ایک خاص قسم کالیپ کیا گیا ہے، جسے ’بچومن لُک‘ کہاجاتا ہے۔ یہ لُک ہائیڈرو کاربن کا قدرتی طور پر نکلنے والا مادہ ہے اور فطرت میں مختلف حالات میں آج بھی دستیاب ہے۔ اس لیپ سے تالاب میںپانی رسنے کا سد باب کیا گیا ہے۔

دراصل موہنجودڑو تو دریائے سندھ کے اندر ایک جزیرہ نما خشکی پر واقع تھا۔ اس کے ایک طرف دریائے سندھ تھا اور دوسری طرف دریائے سندھ سے نکلنے والا نالہ بہتا تھا، جو آگے جا کر واپس دریا میں مل جاتا تھا ۔ اسی لیے شہر کی حفاظت کے لیے ایک میل لمبا حفاظتی بند باندھا گیا تھا ۔ موہنجودڑو میں بار بار سیلاب کی تباہ کاریوں کا ثبوت ملتا ہے ۔ سیلاب کی لائی ہوئی گاد سے اس شہر کی سطح زمین سے تیس فٹ بلند ہوگئی۔

موہنجودڑوکا قلعہ اصل شہر کے اندر ایک منفرد اور ممتاز حیثیت رکھتا تھا، جس کے ارد گرد گلیاں ایک جال کی شکل میں پھیلی ہوئی ہیں اور گلیوں کے اس جال میں جگہ جگہ عمارتوں کے بلاک میں شہر اور قلعے کے درمیان ایک واضح خلا ہے۔ ہو سکتا ہے قلعہ کے ارد گرد وسیع اور گہری خندق ہو ۔ جس میں پانی چھوڑا گیا ہو یا پھر دریا کا پانی لایا گیا ہو یا قدرتی طور پر دریا کی ایک شاخ نے اس کو جزیرے کی شکل میں گھیر رکھا ہو۔ یہ سب باتیں محض قیاس ہی ہیں۔

ہم جب موہنجودڑو جیسا عالی شان شہر دیکھتے ہیں جس کے مکانات پختہ، مضبوط اور دو تین منزلہ اونچے تھے، ساتھ ہی وہاں سڑکیں اور بازار قائم تھے، تو اس شہرخاموشاں کے باشندوں کی زندگی و رواج اور عادات سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ موہنجودڑو کے وہ آثار جو سب سے زیادہ گہرائی میں ہیں، سب سے زیادہ ترقی کا پتہ دیتے ہیں، جس کا مطلب یہی ہے کہ انسانی تہذیب کے سارے معاملات صدیوں پہلے عمل میں آچکے تھے اور یہ بنیادی ترقی میںیا تو بہت آگے نکل گئے ، یا پھر ختم ہوتے چلے گئے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں ہم اپنے شہروں کو دیکھیں تو وہ اتنے منظم نظر نہیں آتے جتنا کہ صدیوں پرانی تہذیب کے شہر نظر آتے ہیں۔ اس پر ہمیں سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 

تازہ ترین