• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تربیلا ڈیم

حال ہی میں سپریم کورٹ نے نئے ڈیمز کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا ہے اور اس کیلئے فنڈ بھی قائم کردیا، جس میں مختلف ادارے، نامور شخصیات اور عوام بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ میڈیا اور خاص طور پرسوشل میڈیا پر یہ مہم بہت زور وشور سے چل رہی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اس وقت بھی ہواتھا، جب تربیلا ڈیم کی تعمیر کی جارہی تھی۔ اُس وقت بھی پاکستانی عوام نے دل کھول کر حکومت کی مدد کی تھی۔ تربیلا ڈیم بنانے کا خیال اس وقت آیاجب آزادی کے بعد مشرقی دریاؤں سے پاکستان کوپانی کی بندش کی بھارتی دھمکی سے زراعت کو، جو پہلے ہی پانی کی قلت کا شکار تھی، زبردست خطرہ لاحق ہو گیا۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے حکومت پاکستان نے ملک میں ڈیم بنانے کا منصوبہ تیار کیا، جس میں سے ایک ڈیم دریائے سندھ پر تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایاگیااوراس مقصد کے لیے اٹک، کالاباغ اور تربیلا کے علاقوں کا جائزہ لیا گیا۔ آخر 1952ء میں تربیلا کے مقام کو ڈیم کی تعمیر کے لیے موزوں قرار دیا گیا اور بین الاقوامی اداروں اور دوست ممالک سے فنی و مالی تعاون کی اپیل کی گئی۔

1967ء میں عالمی بینک نے اس ڈیم کی تعمیر کی منظوری دے دی۔ 1968ء میں تربیلا ترقیاتی فنڈ قائم کیا گیا، جس میں عطیات کے علاوہ فرانس، اٹلی، برطانیہ، کینیڈا اور عالمی بینک نے قرضے بھی منظور کیے۔ اسی سال تین اطالوی اور تین فرانسیسی کمپنیوں پر مشتمل ایک کنسورشیم، تربیلا جوائنٹ وینچر کو ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکا دیا گیا۔ 1969ء میں اس کنسورشیم میں جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کی سات کمپنیوں کا گروپ بھی شامل ہو گیا۔ نومبر 1971ء میں یہ ڈیم پایۂ تکمیل کو پہنچا اور 1977ء میں اس نے کام شروع کر دیا۔

ڈیم کی لمبائی 9 ہزار فٹ، زیادہ سے زیادہ اونچائی 485 فٹ (147.83 میٹر) اور گنجائش 18کروڑ 60لاکھ ایکڑ فٹ (229.43 مکعب کلومیٹر) ہے۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریائوں کا اوسط مجموعی بہائو تقریباً 208 مکعب کلومیٹر ہے۔ اس سے لاکھوں ایکڑ اراضی سیراب ہو سکتی ہے۔ دریا کے بائیں کنارے پر 45 فٹ قطر کی چار سرنگیں ہیں۔ پہلی اور دوسری سرنگ بجلی پیدا کرنے والے یونٹوں سے منسلک ہیں، تیسری سرنگ کا مقصد بھی بجلی کی پیداوار ہے جبکہ چوتھی سرنگ آبپاشی کےلیے ہے۔ اس منصوبے پر 10ارب 92 کروڑروپے لاگت آئی، ڈیم سے آبپاشی اور بجلی کے علاوہ مچھلی کی صنعت اور سیاحت وغیرہ کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ بعد میں اسی ڈیم سے ایک نہر نکال کر غازی بروتھا کے مقام پر مزید ٹربائنیں لگا کر بجلی پیدا کی جانے لگی۔

جولائی میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی ( ارسا ) کے مطابق تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول پر پہنچ گئی ہے، جو 1386 فٹ ہے۔تربیلا ڈیم سے پانی کا اخراج ایک لاکھ 23 ہزار کیوسک ہے جبکہ ڈیم میں پانی کی آمد ایک لاکھ 15ہزار کیوسک ریکارڈ کی گئی ہے۔ تربیلا کی انتہائی گنجائش ایک ہزار 550 فٹ ہے۔چشمہ کے مقام پر پانی کی آمد ایک لاکھ 87 ہزار 900 کیوسک ہے جبکہ پانی کا ذخیرہ ایک لاکھ 81 ہزار ایکڑ فٹ ہے، چشمہ جھیل میں پانی کی سطح 644 فٹ ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 25 ارب روپے کی مالیت کا پانی ضائع کردیا جاتا ہے۔

رواں سال کے آغاز میں میںتربیلا کے چوتھے توسیعی منصوبےکے شروع ہوتے ہی واپڈا نے تربیلا سے حاصل ہونے والی بجلی کا ایک اور سنگ میل حاصل کیا۔1410میگا واٹ پروجیکٹ کے تحت بجلی پید ا کرنے والے تین یونٹس میںسےہر ایک نے 470 میگا واٹ بجلی پیدا کی، جو تربیلا ڈیم کےٹنل 4 میں لگائے گئے تھے۔

دریائے جہلم سے اوپر منگلا ڈیم اور دریائے سندھ میں تربیلا ڈیم سے اوپر بہاؤ میں میدانی علاقہ تھوڑا ہے، مون سون کی بارشیں ان ڈیموں کے اوپرکبھی برس جاتی ہیں اور کبھی نہیں بھی برستیں۔ رواں برس ابھی تک ان مقامات پر بارش نہیں برسی اور منگلا ڈیم ڈیڈ لیول کے قریب پہنچ چکا ہے جبکہ تربیلا ڈیم بھی ڈیڈ لیول پر ہے۔ مجوزہ بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم بھی تربیلا ڈیم کی طرح ہونگے۔ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے گلیشیئر پگھلنے میں دیرہونے کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی کمی ہورہی ہے۔ یاد رہے کہ مجوزہ بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم میں بارانی پانی کم آتا ہے، باقی تمام پانی گلیشیئر اور برف کے پگھلنے سے راواں رہتا ہے۔ تربیلا ڈیم سے نیچے بہاؤ میں مون سون کی بارشوں کے پانی سیلاب کا سبب بنتے ہیں۔

جس طرح تربیلا ڈیم اپنی استعداد کے مطابق ملک کی ضروریات پوری کرنے میں مصروف ہے، امید کی جاتی ہےکہ نئے ڈیمز جلدسے جلد تعمیر ہوکربجلی و پانی کے مسائل حل کریں کیونکہ آنے والے دنوں میں پانی کابحران سنگین ترہوتانظر آرہا ہے۔اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ملک بنجراور عوام پانی کی بوند بوندکوترس جائیں گے۔پاکستان میں نئے ڈیموں کی تعمیر ازحدضروری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے تربیلا ڈیم کی زندگی35سال بڑھ جائے گی اور اس سے سیلاب کے خطرات سے بھی نمٹنے میں مدد ملے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں چھوٹے بڑے نئے ڈیم بنانے میں سنجیدگی دکھائی جائے تاکہ مستقبل میں پانی کے بحران سے صحیح طریقے سے نمٹاجاسکے اور پاکستان کو خوشحالی کے راستے پر گامزن کیا جاسکے۔ 

تازہ ترین