• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اوورسیز پاکستانیوں کا اپنے آبائی وطن کے ساتھ محبت کا عالم یہ ہے کہ وہ25جولائی کو ہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے ہزاروں پونڈ خرچ کرکے بھی پاکستان جانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو پہلے ہی انتخابی عمل میں حصہ لینے اور اپنی پارٹیوں کو اپنے اپنے علاقوں میں سپورٹ کرنے کے لیے پاکستان جاچکے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں کہ جن کے دل پاکستان جانے کے لیے مچل رہے ہیں کہ کسی طرح اڑ کر وہاں پہنچیں اور اپنا حق رائے دہی استعمال کریں، مگر حق رائے دہی تو وہی استعمال کرسکیں گے جن کے ووٹ بنے ہوں گے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد کے ووٹ پاکستان کے اندر رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں۔ خاص طور پر برطانیہ جیسے یورپی ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کی اکثریت کے ووٹ وہاں پر رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ چنانچہ ان پاکستانیوں کو اپنا سیاسی بخار برطانیہ کے اندر ہی شور شرابا کرکے یا پھر پیراسیٹامول کھاکر اتارنا پڑے گا۔ ہمارے ان پاکستانیوں کو یہ آس تھی کہ اس مرتبہ شناختی کارڈ بنانے والا ادارہ ’’نادرا‘‘ کوئی ایسا چمتکار کردے گا کہ یہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ہی ووٹ ڈال دیں گے! اس طرح کی خبریں سوشل میڈیا پر گردش بھی کررہی ہیں۔ تاہم نادرا کے ترجمان نے ان خبروں کی تردید کردی ہے۔ ظاہر ہے کہ90لاکھ سے زیادہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے قبل ووٹنگ اور پولنگ کے طریقہ کار کو طے کرنا پڑے گا۔ کوئی ضابطہ اخلاق بنانا ہوگا۔ ان پاکستانیوں کی بطور ووٹر رجسٹریشن کرنا ہوگی۔ اس کے لیے چھان بین بھی ضروری ہوگی کہ کسی دوسرے ملک سے تعلق رکھنے والے بھی پاکستانی ووٹر نہ بن جائیں؟ یوں یہ معاملہ انتہائی حساس ہوجائے گا اور نادرا کے ترجمان کا یہ بیان حقیقت پسندانہ نظر آتا ہے کہ جس کا ووٹ بنا ہوا ہے وہ پاکستان آکر ووٹ ڈال سکتا ہے۔ البتہ اس کے لیے ہر ووٹر کو اپنی جیب سے ہزاروں پونڈ خرچ کرنا ہوں گے۔ ویسے بھی اوورسیز پاکستانیوں کو برطانیہ میں ووٹ ڈالنے سے جتنا بھی دور رکھا جاسکتا ہے، رکھا جانا چاہیے، کیونکہ اس سے خاص طور پر برطانیہ جیسے مغربی ممالک میں پاکستانی آبادی والے علاقے سیاسی اکھاڑے بن جائیں گے۔ ابھی چند روز قبل لندن کے علاقے ایونز فیلڈ میں میاں نوازشریف کے صاحبزادے کے گھر کے باہر جو واقعہ ہوا ہے وہ اوورسیز پاکستانیوں کو یہ بات سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ وہ اس ملک میں پاکستان کی نہیں بلکہ برطانیہ کی سیاست کریں اور پاکستان سے اپنے سیاسی جھگڑوں کو یہاں پر لاکر ساری کمیونٹی کے لیے بدنامی کا باعث نہ بنیں۔ آج اس واقعہ میں برطانوی پولیس نے مداخلت کی ہے تو کل دوسری جگہوں پر بھی ایسا ہوسکتا ہے؟ سنا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اللہ کرے کہ کوئی چیف جسٹس صاحب کو یہ گزارش کردے کہ اوورسیز پاکستانیوں کا مسئلہ ووٹ کا حق نہیں ہے بلکہ ان کے بے شمار دوسرے مسائل ہیں جن سے وہ سیاسی پارٹیاں سالہا سال سے نظریں چراتی چلی آرہی ہیں۔ جن کی برطانیہ میں برانچیں موجود ہیں اور ان پارٹیوں کے سربراہوں نے اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ ہمیشہ جھوٹے وعدے کئے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان سینٹر ولزڈن گرین کے چیئرمین کونسلر طارق ڈار نے حال ہی میں نشاندہی کی ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران دو سیاسی حکومتوں نے اوورسیز پاکستانیز کے لئے وفاقی وزراء کو تعینات کیا۔ 5برس تک پیپلز پارٹی کے دور میں ڈاکٹر فاروق ستار اور نوازشریف حکومت کے5سالہ دور میں پیر راشدی اوورسیز پاکستانیوں کے وزیر رہے۔ اللہ ان کا بھلا کرے کہ انہوں نے نہ کبھی اوورسیز پاکستانیوں سے رابطہ کیا اور نہ ہی انہیں یہ بھنک پڑنے دی کہ وہ ان کے وزیر ہیں۔ انہیں تو مزے لوٹنے کے لیے کوئی وزارت چاہیے تھی سو انہوں نے وزارت لی اور مزے بھی لیے۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ صاحبان آپ نے ان دس برس میں کیا، کیا؟ تو ہوسکتا ہے کہ ان کا یہ جواب آئے کہ دوسروں نے کیا، کیا؟
تازہ ترین