دلاور فگار
بڑی مشکل میں ڈالا ہے مجھے فکرِ الیکشن نے
کھڑے ہیں ووٹ لینے کو کہیں ننّھے کہیں بنّے
میں شاعر آدمی ٹھہرا، ہزاروں ملنے والے ہیں
مرے چاروں طرف امیدواروں کے رسالے ہیں
ہزار امیدواروں کے مقابل میں اکیلا ہوں
اِدھر اک فوجِ مشتاقاں، اُدھر میں ایک ٹٹروں ٹوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں؟
اُنہی امیدوں میں ہے کوئی میری محبوبہ
اسے ہر حال میں دینا پڑے گا ووٹ مطلوبہ
انہی میں ایک صاحب اک بڑے افسر کے سالے ہیں
خطرناک آدمی ہیں بااثر ہیں پیسے والے ہیں
وہ کچھ اس قسم کے خط لکھتے ہیں شام و سحر مجھ کو
تمہیں اغوا کرادوں گا نہ دو گے ووٹ اگر مجھ کو
میں پٹنے سے نہیں ڈرتا مگر اغوا سے ڈرتا ہوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں؟
اک ایسا شخص بھی امیدوارِ رہنمائی ہے
کہ جس سے میں نے اکثر مدرسے میں مار کھائی ہے
انہیں امیدواروں میں کوئی میرا بھتیجا ہے
کسی کی لیڈری غیروں کی سازش کا نتیجہ ہے
کسی لیڈر کی بیگم کی سہیلی ہے مری بیوی
کسی نے مجھ کو رشوت میں دیا ہے ایک عدد ٹی وی
میں اپنا ووٹ کس کو دوں؟
کسی سے دُور کی نسبت کسی سے پاس کا رشتہ
کسی اُمید وارہ سے ہے میری ساس کا رشتہ
کہیں امیدواروں میں ہیں خود میرے بڑے ماموں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں؟
کوئی کہتا ہے تم کو ووٹ دینا ہے ترازو کو
کوئی کہتا ہے پاور فل بنائو بائیں بازو کو
کوئی کہتا ہے آئو تم کو گھوڑے پر بٹھائوں میں
کوئی کہتا ہے تم کو سائیکل پر چھوڑ آئوں میں
کوئی کہتا ہے آجائو مری چھتری کے سائے میں
میں تم کو چھوڑ آئوں گا سیاست کی سرائے میں
کوئی کہتا ہے حُقّہ بھر گیا ہے دم لگا لیجے
کوئی کہتا ہے اک عینک ہی کم سے کم لگا لیجے
سمجھ رکھا ہے یاروں نے کہ میں بالکل ہی اندھا ہوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں؟
کوئی کہتا ہے ہم جانباز ہے شعلوں سے کھیلے گا
کوئی کہتا ہے میرا بیلچہ خود ووٹ لے لے گا
الف لیلی سناتے ہیں کسی کے والدین اپنی
سفارش کے لیے لایا ہے کوئی لالٹین اپنی
کوئی کہتا ہے بس درخواست اتنی ہے حضور اپنی
کہ اسلامی تمدن کی علامت ہے کھجور اپنی
کہیں ملتی ہے اک پرچی کے بدلے کان کی بالی
کوئی کہتا ہے میرے پاس ہے بس دھان کی بالی
وہ کوئی اور ہیں جو بیچتے ہیں جو، چنا، گیہوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں؟
کوئی کہتا ہے ہم اپنے گلے میں ہار ڈالے گا
کوئی کہتا ہے میرا شیر تم کو مار ڈالے گا
کوئی کہتا ہے ہل پر ہے نگاہِ انتخاب اپنی
کوئی کہتا ہے ہر سمبل سے بہتر ہے کتاب اپنی
الیکشن میں کہیں بوئے گُلِ رنگیں مہکتی ہے
کہیں تیغِ سیاست ذوالفقارانہ چکمتی ہے
کوئی کہتا ہے اس طوفاں میں کشتی کام آئے گی
مجھے یہ فکر ہے ڈوبوں تو سب کے ساتھ ہی ڈوبوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں؟
کوئی کہتا ہے ہم خرکار ہیں خر ہے نشان اپنا
بھلا ذکر اک گدھے کا اور پھر حُسنِ بیاں اپنا
کوئی کہتا ہے بدلے ووٹ کے لے لو رقم تگڑی
کوئی کہتا ہے دونوں ہاتھ سے تھامے رہو پگڑی
کوئی کہتا ہے یہ کنجی کلیدِ کامیابی ہے
اگر پھر بھی نہ کام آئے تو قسمت کی خرابی ہے
کوئی کہتا ہے اپنے پاس تو صرف ایک کمبل ہے
کوئی کہتا ہے پیری میں عصا ہر شے سے افضل ہے
کہو تو میں اسی لاٹھی سے پوری قوم کو ہانکوں
میں اس ماحول سے بچ کر کدھر جائوں، کہاں بھاگوں
یہ سوچا ہے کہ کچھ دن کے لیے، ٹھٹھہ چلا جائوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں؟