• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاباش پاکستانی عوام شاباش! سلام ہے تیری ہمتوں کو، تیرے حوصلے کو، تیرے جنون کو، تیری وطن سے محبت کو۔ آفرین ہے تم پر، جن حالات ، سانحات سے گزر کر تم نے جمہوریت کی آبیاری کی دنیا کی کوئی قوم یہ ہمت اور حوصلہ نہیں رکھتی۔ جس ملک میں پولنگ کے دن صبح سویرے 32لاشوں کانذرانہ پیش کیا جائے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کاجذبہ جنون ٹھنڈا نہ پڑے دشمن کے لئے یہی کافی ہے۔ابھی پاکستانی قوم اپنے مستقبل سے مایوس نہیں ہوئی اور اس کا جذبہ جنون زندہ ہے اور ووٹ کی طاقت سے اپنی تقدیر بدلنے کے عزم پر قائم و دائم ہے۔ تحفظات، خدشات، سوالات کے درمیان ہونے والے یہ انتخابات یقیناً پاکستانی تاریخ اورتقدیر بدلنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ ایسی قومیں ہمیشہ کندن بن کر دنیا کے سامنے ابھرتی ہیں جو وطن کی اساس، جمہوری روایات اور اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر جانیں قربان کرتی ہیں اور امید رکھتی ہیں اپنی لیڈر شپ سے کہ وہ ان قربانیوں اور ان کے سچے جذبات کی آئندہ پانچ سال قدر کریں گے۔ تادم تحریر انتخابی نتائج ابھی منظر عام پر نہیں آئے لیکن پولنگ اسٹیشنوں پر عوام کا ہجوم اور ان کا جذبہ دیکھ کر امید رکھی جاسکتی ہے کہ پاکستان کا مستقبل انتہائی روشن ہے۔25 جولائی 2018 ء کے انتخابات اس لحاظ سے بھی پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے کہ شدید دبائو کے باوجود عوام نے اپنا حق رائے دہی آزادانہ طور پر استعمال کیا اور پولنگ کے دوران ایسا کہیں محسوس نہیں ہوا کہ کوئی مخلوق اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ اپنی جگہ لیکن پولنگ اسٹیشن پر ’’ووٹر کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا۔ پولنگ اسٹیشنوں کے باہر ایسی لمبی قطاریں کہ جہاں امیدوار کی ٹرانسپورٹ نظر آئی نہ کوئی سرکاری ذریعہ آمدورفت، ہر ووٹر اپنی اپنی حیثیت میںسخت گرمی اور حبس کے موسم میں پیدل یا ذاتی ٹرانسپورٹ پر پولنگ اسٹیشن تک پہنچا۔ صرف اس امید کے ساتھ کہ اس کے ووٹ کی طاقت سے ایک ایسا طاقت ور حکمران پاکستان کو نصیب ہو جو اس کے دکھوں کا مداوا کرسکے جو اس کے ننگے بدن کو ڈھانپ سکے، جو اس کے بچوں کا مستقبل محفوظ کرسکے جس کے دل میں پاکستان کا درد ہو، جو چاہے تو پاکستان کو اقوام عالم میں اونچا اڑا کر لے جاسکے۔ پاکستانی عوام کا جو درد ہے وہ اسے اپنا سمجھ سکے۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں بھی یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ دیر اور خوشاب کے ایسے علاقوں میں جہاں قیام پاکستان سے اب تک کسی خاتون کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں تھی وہاں خواتین نے اپنا حق رائے دہی بھی آزادانہ طور پر استعمال کیا۔ صرف اس امید کے ساتھ کہ ان کے بچوں کا مستقبل روشن ہو۔ انہیں اعلیٰ تعلیم ملے، انہیں صحت کے بہترین مواقع میسر ہوں، وہ کھیلوں کے میدان میں پاکستان کا نام روشن کریں اور جہاں ان کی بیٹیوں کی عزت محفوظ ہو۔ آج ایک بار پھر پاکستانی عوام نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے بیانیے کو مکمل طور پر رد کر دیا ہے اور اقوام عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے کہ ہم جمہوریت پسند قوم ہیں اور جمہوریت کی حفاظت کرنا جانتے ہیں اور اپنا مستقبل انتہا پسندی کے بیانیے سے الگ رکھنا چاہتے ہیں۔ کوئٹہ، مستونگ ، پشاور اور بنوں کے سانحات کے درمیان عوام نے جس اندازمیں جمہوریت کی حفاظت کی اور اس کے استحکام کے لئے اپنا کردار ادا کیا یہ ناقابل بیان ہے۔عالمی برادری کا پاکستان میں دہشت گردی کے دوران شہادتوں پر بیانیہ ملاحظہ فرمائیں تو ایسے لگتا ہے کہ اقوام متحدہ سمیت پوری دنیا ہمارے غم میں برابر کی شریک ہے اور وہ دل سے چاہتی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی، انتہا پسندی کا خاتمہ ہو اور امن و امان قائم ہو۔ اقوام متحدہ جنرل کے سیکرٹری جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ ہر طرح کی دہشت گردی ، عالمی امن اور سلامتی کے لئے شدید خطرہ ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث افراد ، تنظیموں اور ان کے مدد گاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، کیا لاجواب لفظوں کی گل کاری کرتے ہیں جناب سیکرٹری جنرل صاحب۔ کوئی ان صاحب کو سمجھائے کہ جناب یہ جو اقوام متحدہ نام کی انجمن ستائش باہمی آپ نے سجا رکھی ہے عالمی امن فلاح کے نام سے قائم اس انجمن نے آج تک کوئی ڈھنگ کا کام بھی کیا ہے یا پھر چند عالمی قوتوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر پسماندہ غیر ترقی یافتہ ممالک کے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا اس ادارے کا کام کیا رہ گیا ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جو پہلے مسلم ممالک کی تباہی دیکھتا ہے، فلسطین، کشمیر، عراق، لیبیا، صومالیہ میں سامراجی قوتوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی شہادتوں پر کچھ نرم گرم اجلاس منعقد کرتا ہے، نام نہاد مصلحتوں کی شکار کچھ قرار دادیں پاس کرتا ہے اور آخر میں چند منافقانہ بیان دے کر چند قوتوں کا مدد گار بن کر خاموش ہو جاتا ہے۔ کیا اس ادارے کے پاس ایسا بھی کوئی نظام ہے جو عناصر دنیا کی تباہی کا یہ گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں ان کی نشاندہی کرے۔ انہیں لگام ڈالنے کا کوئی قابل عمل نظام وضح کرے، فلسطین ہو یا کشمیر، عراق ہو یا لیبیا، شام ہو یا مصر، جہاں جہاں تباہی ہوئی وہاں صرف مسلمانوں کی لاشیں گریں ، ان کے وسائل پر عالمی قوتوں نے قبضہ کیا، اب یہ کھیل تیل کی جنگ سے آگے بڑھ کر زمین میں دفن دیگر خزانوں اور دنیاوی لحاظ سے ابھرتی معیشتوں کی تباہی تک پھیل چکا ہے۔ کس کو نہیں معلوم کہ اول الذکر ممالک میں دہشت گردی کے ڈانڈے کہاں سے ہلتے اور ملتے ہیں اور کون ان دہشت گردوں کا سرپرست ہے۔ مگر سوال آئندہ کے حکمرانوں سے بھی ہے کہ کیا وہ عوام کی توقعات پر پورا اتریں گے اور ان کے اس بیانیے کو آئندہ بھی تقویت دیں گے۔ ایک بار پھر مستقبل کے حکمرانوں کی ترجیحات میں بیک وقت دہشت گردی، انتہا پسندی کا خاتمہ اور معیشت کی آبیاری بن کر سامنے آرہی ہیں۔ ان دو ترجیحات کی تکمیل کی پاکستان کے روشن مستقبل کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ پاکستانی عوام نے تو ایک بارپھر اپنے جگرگوشوں کے خون سے جمہوریت کی بنیادیں مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کر دیا ہے۔ اب امتحان شروع ہو جاتا ہے آپ کا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین