• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علینہ عرفان، کراچی

پری وش اپنے ماں باپ کی لاڈلی اور فرمانبردار بچی تھی، وہ اساتذہ کا احترام بھی کرتی تھی، مگر اس کی ایک عادت سے امی بہت پریشان تھی کہ وہ اپنے کھلونے سنبھال کر نہیں رکھتی تھی، چوں کہ وہ ہر ایک کی لاڈلی تھی اس لیے اس کی ہر سالگرہ پر ایک سے بڑھ کر ایک کھلونے تحفے میں ملتے تھے۔ جن سے وہ ہر وقت کھیلتی رہتی، مگر کبھی بھی انہیں سمیٹ کر نہیں رکھتی تھی۔ اس کی امی نے اسے بار بار سمجھایا کہ، ’’کھلونوں کو مخصوص ڈبے میں رکھا کرو، تمہاری لاپرواہی کی وجہ سے کھلونے اکثر ٹوٹ جاتے ہیں‘‘۔ لیکن پری وش نے اپنی عادت بدلنے کی کوشش نہیں کی۔

پری وش آج کل کچھ زیادہ ہی خوش تھی، کیوں کہ عنقریب اس کی سالگرہ تھی، جس کا اسے بے صبری سے انتظار تھا۔ دراصل اسے سالگرہ سے زیادہ اس دن ملنے والے تحائف کا انتظار تھا، بالآخر وہ دن بھی آ ہی گیا۔ جب پری وش آٹھ سال کی ہوگئی، ہر بار کی طرح اسے اس بار بھی ڈھیر سارے کھلونے ملے، جن میں گڑیا، کچن سیٹ وغیرہ شامل تھے۔ وہ مہمانوں کے جاتے ہی کھلونے سے کھیلنا شروع ہوگئی، اس کی امی نے کسی طرح اسے سمجھا کر سونے کے لیے لٹا دیا اور وہ خود بھی سونے کے لیے چلی گئیں۔

رات گئے پری وش کی آنکھ کسی شور سے کھلی، اسے یوں محسوس ہوا کہ اس کے آس پاس کوئی باتیں کر رہا ہے وہ ڈر گئی کہ اتنی رات گئے اس کے کمرے میں کون باتیں کر رہا ہے۔ اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو نئے کھلونے پرانے کھلونے سے باتیں کر رہے تھے، وہ حیرانی سے ان کی باتیں سنتی رہی۔ پچھلی سالگرہ پر ملنے والی گڑیا نے نئی گڑیا سے پوچھا، ’’تمہیں یہاں آکر کیسا لگ رہا ہے؟ مزہ آ رہا ہے؟‘‘۔ نئی گڑیا نے جواب دیا، ’’ہاں مزہ تو آرہا ہے اور اچھا بھی لگ رہا ہے مگر ساتھ ہی کچھ عجیب بھی لگ رہا ہے‘‘۔ پرانی گڑیا نے پوچھا، ’’عجیب!کیوں؟‘‘ ’’کیونکہ، اس بچی نے مجھ سے کھیلا اور پھر مجھے بےدردی سے زمین پر پھینک کر خود مزے سے اپنے بستر پر جا کر سوگئی۔ مجھے میرے ڈبے میں ڈالنا اسے یاد ہی نہیں رہا‘‘۔ نئی گڑیا کی باتیں سن کر پرانی گڑیا افسردہ لہجے میں کہنے لگی، ’’تمھارا تو آج پہلا دن ہے، مجھ سے پوچھو میرے ساتھ تو یہ سلوک کب سے ہورہا ہے۔

وہ ہم سب کے ساتھ ایسا ہی کرتی ہے۔ ہم سے کھیلتی ہے اور ہمیں ہمارے مخصوص ڈبے میں رکھنا بھول ہی جاتی ہے۔ ہم زمین پر پڑے رہتے ہیں۔اس کی امی آکر ہمیں سمیٹتی ہیں۔ لیکن اگلے دن وہ پھر ہمیں گرا دیتی ہے۔ ‘‘ ابھی یہ دونوں گڑیا باتیں کر ہی رہیں تھیں کہ، پری کی پرانی ڈرائنگ بکس نے نئی ڈرائنگ بکس کو اپنی حالت دکھائی۔ پرانی ڈرائنگ بکس کے کچھ حصّہ پھٹے ہوئے تھے۔نئی ڈرائنگ بکس ان کا یہ حال دیکھ کر افسوس سے کہنے لگی کہ، ’’یہ بچی واقعی اپنی چیزوں کا بالکل خیال نہیں رکھتی۔ یہ اچھی بچی نہیں ہے۔ ہم اس کے پاس نہیں رہیں گے۔‘‘

نئی اور پرانی ڈرائنگ بکس کی باتیں سن کر کمرے کے کونے میں پڑا ٹیڈی بیئر بھی سامنے آیا، اور اپنا ہاتھ باقی کھلونوں کو دکھاتے ہوئے کہنے لگا کہ، ’’یہ دیکھو، میرا ہاتھ پھٹ جانے کی صورت میں اس نے اسے صحیح کرنا ضروری نہیں سمجھا بلکہ مجھے ایک کونے میں پھینک دیا‘‘۔ الغرض پرانے کھلونوں کی باتیں سن کر نئے کھلونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایسی گندی بچی کے پاس ہرگز نہیں رہیں گے، بلکہ کسی ایسے بچے کے پاس چلے جائیں گے جو ان کا بہت خیال رکھے گا۔ فیصلہ کرنے کے بعد تمام نئے کھلونے ایک ایک کر کے کھڑکی سے باہر جانے لگے۔ پری وش جو اب تک خاموشی و حیرانی سے ان کی باتیں سن رہی تھی، رو پڑی اور اپنے کھلونوں سے کہنے لگی کہ، ’’میرے پیارے کھلونوں مجھے چھوڑ کر مت جاؤ، مجھے معاف کردو میں وعدہ کرتی ہوں، آئندہ تم سب کا بہت خیال رکھوں گی۔ پلیز مت جاؤ۔۔۔‘‘

اتنے میں پری کی آنکھ کھل گئی، اس نے دیکھا کہ اس کی امی اس کے پاس بیٹھی ہوئی ہیں۔ وہ اس سے، اس کے چیخنے اور رونے کی وجہ پوچھ رہی تھیں، اس نے اپنا خواب انہیں سنا دیا۔ امی نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ، ’’میں تو کب سے آپ کو سمجھا رہی ہوں کہ اپنے کھلونوں کا خیال رکھا کرو، صرف کھلونے ہی نہیں بلکہ ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی ہوئی اچھی لگتی ہے، مگر آپ کبھی میری بات نہیں سنتیں، امید ہے اب آپ کو سمجھ آگئی ہوگی کہ اگر اپنے کھلونوں کا خیال نہیں رکھو گی تو وہ تمہارے پاس سے چلے جائیں گے، ٹوٹ جائیں گے۔‘‘ امی کی بات سن کر پری وش نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اپنے تمام کھلونے ان کی جگہ پر رکھے گی، انہیں کبھی شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔ 

وہ دن ہے اور آج کا دن، اب پری ہمیشہ اپنے کھلونوں کو سنبھال کر رکھتی ہے، لیکن ایک بات آج تک اس کو پریشان کرتی ہے کہ اس رات کھلونوں کو آپس میں باتیں کرتے دیکھنا اس کا وہم تھا یا وہ کوئی خواب دیکھ رہی تھی۔ لیکن اب وہ انہیں ناراض نہیں کرنا چاہتی۔

تازہ ترین